ادب- مابعدالجدیدیتPost modernism
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
ادب انسان کے جذبات،احساسات،فکر اور تجربات کا خوبصورت اور بامعنی اظہار ہے۔ادب محض الفاظ کا موزوں کرنا اور مجموعہ نہیں بلکہ زندگی کا عکاس ہے جو انسان کی داخلی کیفیت اور خارجی حالات دونوں کو منعکس کرتا ہے۔ادب میں تخیل اور حقیقت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔
یہ کبھی شاعری کی صورت میں حسن و جمال کو اجاگر کرتا ہے تو کبھی نثر اور فکشن میں فکر و دانش کو سامنے لاتا ہے۔ادب قوموں کی تہذیب، ثقافت اور ان کے سماجی رویوں کا آئینہ بھی ہوتا ہے اور فرد کو اپنی ذات اور کائنات کو سمجھنے کا ذریعہ بھی فراہم کرتا ہے۔اس طرح ادب انسان اور زندگی کے درمیان ایک گہرے تعلق کو سامنے لاتا ہے۔
ادب کی تاریخ میں ہر عہد اپنی مخصوص فکری،سماجی اور تہذیبی خصوصیات کا حامل رہا ہے۔بیسویں صدی کے وسط کے بعد ایک نیا فکری اور ادبی رویہ سامنے آیا جسے ما بعد جدیدیتPost modernism)کہا جاتا ہے۔یہ تحریک دراصل جدیدیت کے ردِ عمل کے طور پر ابھری۔اگر جدیدیت نے ٹیکنالوجی،عقلیت،سائنسی فکر،منطق اور آفاقی سچائی پر زور دیا تو مابعد جدیدیت نے ان سب پر سوالات اُٹھا دیے۔ صنعتی انقلاب اور دو عالمی جنگوں نے دنیا بدل کر رکھ دی۔ کلچر،ملٹی کلچر میں اور دور دراز دنیا گلوبل سانچے میں تیزی سے ڈھلنے لگی۔
دوسری عالمی جنگ میں لوگوں کا سائنس اور ٹیکنالوجی و Reasonسے اعتماد اُٹھ گیا کیونکہ دوسری عالمی جنگ میں بے پناہ تباہی ہوئی،بہت زیادہ خون بہا،لاکھوں اموات ہوئیں،ناگا ساکی اور ہیروشیما پر دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عظیم تباہی لانے والے ایٹم بم برسائے گئے۔ ایسے میں ادب پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔پوسٹ ماڈرنازم،جدیدیت کے خلاف ایک احتجاجی ردِ عمل بن گیا۔
مابعد جدیدیت کی فکری بنیادیں۔مابعد جدیدیت کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی حتمی یا مطلق سچائی نہیں۔ہر سچائی اضافیRelativeہے اور اس کا انحصارسماجی،ثقافتی اور ذاتی تناظر پر ہوتا ہے۔فرانسیسی مفکر جیکس دریداJaques Deridaمشل فوکوMichel focalt اور ژاں فرانس لیوتاد کو مابعد جدیدیت کے اہم ستون تصور کیا جاتا ہے۔لیوتاد نے کہا کہ مہا بیانیےGrand Narrative یعنی وہ نظریات جو پوری انسانیت کو ایک آفاقی سچائی و اکائی میں پرونے کی کو شش کرتے ہیں اب اپنی حیثیت کھو چکے ہیں۔مابعد جدیدیت ان بیانیوں کو رد کر کے کثرت، تنوع اور انفرادی حقیقت پر زور دیتی ہے۔کافکا کی کہانی Metamorphesis جس کا مرکزی کردار کاکروچ ہے اس سے اس نئے چلن نے قوت پکڑی۔
ادب میں مابعد جدید رویہ
تجربہ اور تنقید پر زور-اس رویہ میں متن کو حتمی معنوں کے حامل کے طور پر نہیں لیا جاتا بلکہ کہا جاتا ہے کہ قاری اپنی تعبیرات خود تراشے اور ان تعبیرات کے مطابق متن میں معنی تلاش کرے۔
بین المتونیت۔Inter texualityمابعد جدیدیت ادب میں اکثر پچھلے متون،اسلوب اور حوالوں کو نئے سیاق میں شامل کرکے ایک نیا بیانیہ تخلیق کیا جاتا ہے۔
تجرید اور بے باک پن۔اس رویے کے مطابق حقیقت کو براہِ راست بیان کرنے کے بجائے علامتوں،استعاروں اور کھیل پن کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔
مرکزیت کا خاتمہ۔ جدیدیت میں فنکار کو عمومی طور پر مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے مگر ما بعد جدیدیت میں مصنف یا متن کو مرکزیت حاصل نہیں ہوتی بلکہ قاری یا سامع کی تعبیر کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
طنز و مزاح اور پیروڈی۔سنجیدہ موضوعات کو بھی نہایت ہلکے پھلکے یا مزاحیہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ مطلق سنجیدگی اور بھاری پن حاوی نہ رہے۔
کثیرالمعنویت۔مابعد جدید ادب میں کسی متن کا صرف ایک ہی مفہوم نہیں ہوتا بلکہ ہرپڑھنے والے کی اپنی بیک گراؤنڈ کے مطابق اس کے لیے مختلف معنی جنم لیتے ہیں۔
شاعری میں مابعد جدید رویہ۔شاعری میں مابعد جدیدیتی رویہ نے سخت پابندیوں اور کلاسیکی اصولوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نئے اندازِ اظہار کو فروغ دیا جس کی وجہ سے آزاد نظم،نثری نظم اور علامتی اظہار کی راہیں وا ہوئیں۔ شاعروں نے اس آزادی سے خوب فائدہ اُٹھایا اور زبان کو کئی نئی صورتوں میں استعمال کیا۔شاعروں نے روایت کو نئے تناظر میں برتا۔
مابعد جدیدیت کی تنقید۔اگرچہ مابعد جدیدیت نے ادب میں نئی جہتیں پیدا کیں لیکن اس کے ناقدین بھی بہت ہیں۔اس کے ناقدین کے نزدیک اس کی بڑی خامیاں یہ ہیں کہ مابعد جدیدیت نے مطلق اقدار اور آفاقی سچائی کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا۔بعض ناقدین کے نزدیک یہ ادب انتشار اور ابہام کو بڑھاوا دیتا ہے۔
مابعد جدیدیت نے ادب کو محض فکری اظہار نہیں رہنے دیا بلکہ ایک مکالمہ بنا دیا ہے جس میں مصنف،قاری،سامع اور متن سب شریک ہیں۔یہ تحریک ہمیں باور کراتی ہے کہ حقیقت اٹل ،جامد اور Absoluteنہیں ہوتی بلکہ متحرک ہوتی ہے اور ہر فرد اپنے تناظر اپنی بیک گراؤنڈ کے مطابق معنی اخذ کرتا ہے اور کر سکتا ہے۔اگرچہ مابعد جدیدیت پر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ مطلق اقدار اور آفاقی سچائی سے روگردانی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مابعد جدیدیت نے ادب کو نئے اسلوب،نئی تکنیک اور نئے امکانات سے روشناس کروایا۔
اردو ادب کی تاریخ میں مختلف فکری و ادبی تحریکیں وقوع پذیر ہوتی رہی ہیں جنھوں نے اظہار کے اسالیب اور موضوعات کو نئی جہتیں عطا کیں۔بیسویں صدی کے آخری عشروں میں اردو ادب پر بھی مابعد جدیدیت کے اثرات دیکھنے کو ملے البتہ اردو ادب میں بھی مابعد جدیدیت کی خصوصیات بہت حد تک وہی رہیں جو پوری دنیا میں اس کا خاصہ ہیں۔اردو ناول اور افسانے میں مابعد جدیدیت زیادہ نکھر کر سامنے آئی ہے۔انتظار حسین مرحوم کے ناول اور افسانے میں تاریخ، اساطیر اور حال ایک ساتھ جڑے ہیں۔
شاعری میں جناب انور سجاد ،عرفان صدیقی،وزیر آغا، جون ایلیا، ظفر اقبال اور نئی نسل کے بے شمار شعرا نے اس رجحان کو کسی نہ کسی صورت اختیار کیا۔ مابعد جدید تحریک نے اردو شاعری کو زیادہ لچکدار،کثیر المیعاد اور حال کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔پاکستان کی تمام زبانوں میں لکھے جانے والے پاکستانی ادب میں اس تحریک نے جگہ بنائی ہے،یہ الگ بات ہے کہ کچھ رائٹرز کے نزدیک پاکستان میں جدیدیت کی تحریک نہیں پہنچی تو مابعد جدیدیت کیسے ڈیرے ڈالتی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مابعد جدیدیت نے مابعد جدیدیت کی ا فاقی سچائی کیا جاتا ہے جدیدیت کے کے مطابق کرتا ہے ہے اور
پڑھیں:
بیت اللہ سے
بیت اللہ پر پہلی نظر پڑی تو وجود اپنی گہرائیوں تک سرشار ہوگیا، زائرین لوٹ کر آتے تو بتاتے تھے کہ کعبے کو دیکھ کر ہیبت طاری ہو جاتی ہے، میرا تجربہ بالکل مختلف تھا۔
یوں لگا جیسے رحمتوں نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا ہو، رب تعالیٰ کا جلال تو تھا مگر اس کی رحمت بھی عرش سے کسی بارش کی صورت اتر رہی تھی۔ اس کا باقاعدہ احساس ہو رہا تھا، جیسے آپ برسات میں کھڑے ہوں اور آپ پر مینہ برس رہا ہو۔ ایسے ہی میں کعبے کے سامنے کھڑا اپنے وجود کو رحمتوں میں بھیگا محسوس کر سکتا تھا۔
میں ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہوگیا، سوچ کر گیا تھا اللہ کے گھر پر پہلی نظر پڑتے ہی کیا مانگنا ہے۔ ہوا مگر یہ کہ بیت اللہ پر نظر پڑی تو سب کچھ بھول گیا۔ یہاں دعائیں بھی رحمت کے ساتھ ہی اتریں، جو اللہ دل میں ڈالتا گیا کہ یہ مانگ لو، وہ مانگتا چلا گیا، اسی نے بلایا تھا اور گویا وہی اپنے بندے کو مانگنا سکھا رہا تھا۔
رش بالکل نہیں تھا، سعودی حکومت کے انتظامات بھی شاندار تھے جو زبان حال سے بتا رہے تھے کہ یہ واقعی خادم الحرمین ہیں۔ بیت اللہ سے چند فٹ کے فاصلے پر طواف کیا، عمرہ ادا ہوتے ہی ہوٹل چلا آیا۔ نیند بھی تھی، اور تھکاوٹ بھی، بستر پر گرتے ہی سوگیا۔
اگلے روز جمعۃ المبارک تھا، مطاف میں داخل ہوا تو وہ بھرا ہوا تھا۔ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ ہجوم سے بہت گھبرا جاتا ہوں۔ دم گھٹنے لگتا ہے۔ بہت سے کام اس لیے ادھورے چھوڑ آتا ہوں کہ رش بہت تھا۔ اتنے زیادہ لوگ دیکھے تو رک گیا۔ شیخ حبیب صاحب سے کہا کہ آپ ادھر طواف کریں میں یہ ہمت نہیں کر سکوں گا، پیچھے کہیں بیٹھ کر تلاوت کر لیتا ہوں۔
شیخ صاحب کہنے لگے: آجائیں، کچھ نہیں ہوگا، میں ایک پل کو رکا کہ آگے جاؤں یا پیچھے ہٹوں۔ پھر بے اختیاری میں مطاف میں داخل ہو گیا اورطواف کرتی خلق خدا کا حصہ بن گیا۔ اب میں دانستہ طور پر آخری لائنوں میں طواف کررہا تھا۔ پاکستان سے چلتے ہی معلوم تھا کہ بیت اللہ کے غلاف یا حجر اسود تک نہ پہنچ سکتا ہوں نہ ہی میں نے یہ کوشش کرنی ہے، اس لیے اب دور کی لائنوں میں طواف کر رہا تھا تاکہ ہجوم اور دھکم پیل سے محفوظ رہتے ہوئے فرض ادا کر سکوں۔
تیسرے چکر میں یاسر ندیم صاحب نے کہا کعبے کے نزدیک ہونے کی کوشش کرتے ہیں، میں نے ان سے کہا مجھ میں تو یہ ہمت نہیں آپ دونوں کوشش کرکے دیکھ لیں۔ وہ مجھ سے الگ ہوئے تو میں نے احتیاطاً مزید دائیں جانب باہر کی طرف نکل کر طواف کرنا شروع کر دیا تاکہ کسی بھی امکانی دھکم پیل سے محفوظ رہ سکوں۔
میں نے کچھ خاص دعائیں یاد نہیں کی تھیں، دوستوں نے توجہ دلائی تھی تو میں نے کہا رب سے جو مانگنا ہے، اپنی پنجابی زبان میں مانگوں گا، اب طواف کے دوران اپنے رب سے پنجابی زبان میں باتیں کر رہا تھا۔ فلسطین ان دعاؤں میں میرے ساتھ تھا، خدا کے جلال اور رحمت کے سائے میں خیال آیا کہ میرے دامن میں تو کچھ بھی نہیں پر اے اللہ میں نے فلسطین کے مظلوموں کے لیے تھوڑی تھوڑی آواز اٹھائی تھی، یہ مظلوم تیرا ہی کنبہ ہیں۔
پھر وہ ہوا جس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا، اچانک طواف کرتی صفیں بے ترتیب ہوئیں، شاید کچھ لوگ حجر اسود سے پیچھے ہٹ رہے تھے اور ان کی ہٹنے کی وجہ سے طواف کی لائنیں بے ترتیب ہو گئیں، جیسے کسی نے بہتے پانی کا رخ بدل دیا ہو۔ اب میرے اختیار میں کچھ نہ تھا کہ دائیں بائیں ہو سکوں، میں پھنس چکا تھا، بندے سے بندہ اور کندھے سے کندھا لگا تھا۔ اب بہاؤ کے ساتھ بہتے جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔
یہ ایک لمحے کی بات تھی، سب کچھ آناً فاناً ہوگیا، میں جو دور کی صف میں طواف کر رہا تھا، اس بہاؤ نے مجھے بیت اللہ کے دروازے کےعین سامنے لا کر کھڑا کر دیا۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے مجھے کسی نے اٹھا کر در کعبہ پر لا کھڑا کردیا ہو۔ اب میں ہاتھ بڑھاتا تو بیت اللہ کے دروازے کو چھو سکتا تھا، میں مالک کائنات کے در کی چوکھٹ پر پہنچ چکا تھا۔
میں نے غلاف کعبہ کو ہاتھوں سے چھوا، اس لمس کا احساس متاع جاں ہے، پھر وہاں ہونٹ رکھے، بوسے دیے، گال لگائے، لپٹا، دعائیں کیں اور اتنی دیر تک کیں کہ بیت اللہ سے لپٹنے کی حسرت پوری ہو گئی۔
خدا واقعی اپنے گناہگار بندوں پر مہربان ہوتا ہے۔ اس کے کرم کی کوئی حد ہی نہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔
wenews آصف محمود بیت اللہ سے حجر اسود حرمین شریفین عمرہ وی نیوز