Express News:
2025-11-25@02:57:42 GMT

ادب- مابعدالجدیدیتPost modernism

اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT

ادب انسان کے جذبات،احساسات،فکر اور تجربات کا خوبصورت اور بامعنی اظہار ہے۔ادب محض الفاظ کا موزوں کرنا اور مجموعہ نہیں بلکہ زندگی کا عکاس ہے جو انسان کی داخلی کیفیت اور خارجی حالات دونوں کو منعکس کرتا ہے۔ادب میں تخیل اور حقیقت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔

یہ کبھی شاعری کی صورت میں حسن و جمال کو اجاگر کرتا ہے تو کبھی نثر اور فکشن میں فکر و دانش کو سامنے لاتا ہے۔ادب قوموں کی تہذیب، ثقافت اور ان کے سماجی رویوں کا آئینہ بھی ہوتا ہے اور فرد کو اپنی ذات اور کائنات کو سمجھنے کا ذریعہ بھی فراہم کرتا ہے۔اس طرح ادب انسان اور زندگی کے درمیان ایک گہرے تعلق کو سامنے لاتا ہے۔

ادب کی تاریخ میں ہر عہد اپنی مخصوص فکری،سماجی اور تہذیبی خصوصیات کا حامل رہا ہے۔بیسویں صدی کے وسط کے بعد ایک نیا فکری اور ادبی رویہ سامنے آیا جسے ما بعد جدیدیتPost modernism)کہا جاتا ہے۔یہ تحریک دراصل جدیدیت کے ردِ عمل کے طور پر ابھری۔اگر جدیدیت نے ٹیکنالوجی،عقلیت،سائنسی فکر،منطق اور آفاقی سچائی پر زور دیا تو مابعد جدیدیت نے ان سب پر سوالات اُٹھا دیے۔ صنعتی انقلاب اور دو عالمی جنگوں نے دنیا بدل کر رکھ دی۔ کلچر،ملٹی کلچر میں اور دور دراز دنیا گلوبل سانچے میں تیزی سے ڈھلنے لگی۔

دوسری عالمی جنگ میں لوگوں کا سائنس اور ٹیکنالوجی و Reasonسے اعتماد اُٹھ گیا کیونکہ دوسری عالمی جنگ میں بے پناہ تباہی ہوئی،بہت زیادہ خون بہا،لاکھوں اموات ہوئیں،ناگا ساکی اور ہیروشیما پر دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عظیم تباہی لانے والے ایٹم بم برسائے گئے۔ ایسے میں ادب پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔پوسٹ ماڈرنازم،جدیدیت کے خلاف ایک احتجاجی ردِ عمل بن گیا۔

مابعد جدیدیت کی فکری بنیادیں۔مابعد جدیدیت کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی حتمی یا مطلق سچائی نہیں۔ہر سچائی اضافیRelativeہے اور اس کا انحصارسماجی،ثقافتی اور ذاتی تناظر پر ہوتا ہے۔فرانسیسی مفکر جیکس دریداJaques Deridaمشل فوکوMichel focalt اور ژاں فرانس لیوتاد کو مابعد جدیدیت کے اہم ستون تصور کیا جاتا ہے۔لیوتاد نے کہا کہ مہا بیانیےGrand Narrative یعنی وہ نظریات جو پوری انسانیت کو ایک آفاقی سچائی و اکائی میں پرونے کی کو شش کرتے ہیں اب اپنی حیثیت کھو چکے ہیں۔مابعد جدیدیت ان بیانیوں کو رد کر کے کثرت، تنوع اور انفرادی حقیقت پر زور دیتی ہے۔کافکا کی کہانی Metamorphesis جس کا مرکزی کردار کاکروچ ہے اس سے اس نئے چلن نے قوت پکڑی۔

ادب میں مابعد جدید رویہ

تجربہ اور تنقید پر زور-اس رویہ میں متن کو حتمی معنوں کے حامل کے طور پر نہیں لیا جاتا بلکہ کہا جاتا ہے کہ قاری اپنی تعبیرات خود تراشے اور ان تعبیرات کے مطابق متن میں معنی تلاش کرے۔

بین المتونیت۔Inter texualityمابعد جدیدیت ادب میں اکثر پچھلے متون،اسلوب اور حوالوں کو نئے سیاق میں شامل کرکے ایک نیا بیانیہ تخلیق کیا جاتا ہے۔

تجرید اور بے باک پن۔اس رویے کے مطابق حقیقت کو براہِ راست بیان کرنے کے بجائے علامتوں،استعاروں اور کھیل پن کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔

مرکزیت کا خاتمہ۔ جدیدیت میں فنکار کو عمومی طور پر مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے مگر ما بعد جدیدیت میں مصنف یا متن کو مرکزیت حاصل نہیں ہوتی بلکہ قاری یا سامع کی تعبیر کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

طنز و مزاح اور پیروڈی۔سنجیدہ موضوعات کو بھی نہایت ہلکے پھلکے یا مزاحیہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ مطلق سنجیدگی اور بھاری پن حاوی نہ رہے۔

کثیرالمعنویت۔مابعد جدید ادب میں کسی متن کا صرف ایک ہی مفہوم نہیں ہوتا بلکہ ہرپڑھنے والے کی اپنی بیک گراؤنڈ کے مطابق اس کے لیے مختلف معنی جنم لیتے ہیں۔

شاعری میں مابعد جدید رویہ۔شاعری میں مابعد جدیدیتی رویہ نے سخت پابندیوں اور کلاسیکی اصولوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نئے اندازِ اظہار کو فروغ دیا جس کی وجہ سے آزاد نظم،نثری نظم اور علامتی اظہار کی راہیں وا ہوئیں۔ شاعروں نے اس آزادی سے خوب فائدہ اُٹھایا اور زبان کو کئی نئی صورتوں میں استعمال کیا۔شاعروں نے روایت کو نئے تناظر میں برتا۔

مابعد جدیدیت کی تنقید۔اگرچہ مابعد جدیدیت نے ادب میں نئی جہتیں پیدا کیں لیکن اس کے ناقدین بھی بہت ہیں۔اس کے ناقدین کے نزدیک اس کی بڑی خامیاں یہ ہیں کہ مابعد جدیدیت نے مطلق اقدار اور آفاقی سچائی کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا۔بعض ناقدین کے نزدیک یہ ادب انتشار اور ابہام کو بڑھاوا دیتا ہے۔

مابعد جدیدیت نے ادب کو محض فکری اظہار نہیں رہنے دیا بلکہ ایک مکالمہ بنا دیا ہے جس میں مصنف،قاری،سامع اور متن سب شریک ہیں۔یہ تحریک ہمیں باور کراتی ہے کہ حقیقت اٹل ،جامد اور Absoluteنہیں ہوتی بلکہ متحرک ہوتی ہے اور ہر فرد اپنے تناظر اپنی بیک گراؤنڈ کے مطابق معنی اخذ کرتا ہے اور کر سکتا ہے۔اگرچہ مابعد جدیدیت پر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ مطلق اقدار اور آفاقی سچائی سے روگردانی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مابعد جدیدیت نے ادب کو نئے اسلوب،نئی تکنیک اور نئے امکانات سے روشناس کروایا۔

اردو ادب کی تاریخ میں مختلف فکری و ادبی تحریکیں وقوع پذیر ہوتی رہی ہیں جنھوں نے اظہار کے اسالیب اور موضوعات کو نئی جہتیں عطا کیں۔بیسویں صدی کے آخری عشروں میں اردو ادب پر بھی مابعد جدیدیت کے اثرات دیکھنے کو ملے البتہ اردو ادب میں بھی مابعد جدیدیت کی خصوصیات بہت حد تک وہی رہیں جو پوری دنیا میں اس کا خاصہ ہیں۔اردو ناول اور افسانے میں مابعد جدیدیت زیادہ نکھر کر سامنے آئی ہے۔انتظار حسین مرحوم کے ناول اور افسانے میں تاریخ، اساطیر اور حال ایک ساتھ جڑے ہیں۔

شاعری میں جناب انور سجاد ،عرفان صدیقی،وزیر آغا، جون ایلیا، ظفر اقبال اور نئی نسل کے بے شمار شعرا نے اس رجحان کو کسی نہ کسی صورت اختیار کیا۔ مابعد جدید تحریک نے اردو شاعری کو زیادہ لچکدار،کثیر المیعاد اور حال کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔پاکستان کی تمام زبانوں میں لکھے جانے والے پاکستانی ادب میں اس تحریک نے جگہ بنائی ہے،یہ الگ بات ہے کہ کچھ رائٹرز کے نزدیک پاکستان میں جدیدیت کی تحریک نہیں پہنچی تو مابعد جدیدیت کیسے ڈیرے ڈالتی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مابعد جدیدیت نے مابعد جدیدیت کی ا فاقی سچائی کیا جاتا ہے جدیدیت کے کے مطابق کرتا ہے ہے اور

پڑھیں:

تم ڈاکٹر نہیں دہشت گرد ہو

انیس سو انچاس کے جنیوا کنونشن کے تحت حالتِ جنگ میں طبی مراکز اور عملے کا مکمل تحفظ متحارب فریقوں کی بنیادی ذمے داری ہے۔کسی بھی طبی مرکز یا عملے کو جان بوجھ کر مادی یا جانی نقصان پہنچانے کی کارروائی بھلے کسی بھی جواز کی آڑ میں کی جائے، اسے انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جائے گا۔

عالمی میڈیکل ایسوسی ایشن ( صدر دفتر جنیوا ) کے بنیادی منشور کے مطابق طبی عملے کو کسی بھی انسانی یا قدرتی بحران میں بلاامتیاز و رکاوٹ اپنے پیشہ وارانہ حلف کی پاسداری کرتے ہوئے صرف انسانیت کی خدمت پیشِ نظر رکھنی چاہیے۔ معالجوں کو غیر جانبدار رہنا چاہیے تاہم سیاست یا کسی اور دباؤ کے سبب بنیادی طبی اخلاقیات خطرے میں پڑ جائیں، تب طبی ضوابط کے تحفظ کے لیے بولنا ضروری ہے۔کیونکہ طب محض کوئی سائنسی شعبہ یا پیشہ نہیں بلکہ انسانی فریضہ ہے اورجب فرض کی حرمت خطرے میں پڑ جائے تو خاموش رہنا بھی جرم کے دائرے میں آتا ہے۔

اس تناظر میں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ عالمی سطح پر طبی سائنس اور پیشے سے وابستہ اداروں ، افراد اور تحقیقی رسائل نے اب تک مقبوضہ فلسطین کے انسانی و طبی بحران پر کیا موقف اختیار کیا ؟ آیا خاموشی میں عافیت جانی یا آواز بلند کی ؟

اس سوال کے جواب سے بھی پہلے مسئلے کی سنگینی دیکھنا ضروری ہے۔عالمی ادارہِ صحت سمیت اقوامِ متحدہ کے متعلقہ اداروں کے مطابق موجودہ جنگ بندی ( دس اکتوبر ) سے پہلے تک غزہ کے صحت مراکز پر سات سو اسی حملے ہوئے۔ پچانوے فیصد ایمبولینسیں اور تمام بڑے اسپتال تباہ ہو گئے۔صحت کے شعبے کے سترہ سو بائیس افراد شہید ہوئے۔چار سو اکتیس کو اسرائیلی فوج نے اغوا کیا۔مغویوں میں غزہ اور مغربی کنارے پر کام کرنے والے پچانوے ڈاکٹر اور طبی کارکن بھی شامل ہیں۔

ان میں سے تین سو نو کو پوچھ گچھ اور ٹارچر کے بعد چھوڑ دیا گیا۔مگر جو ڈاکٹر اب بھی قید ہیں، ان میں شمالی غزہ کے کمال ادوان اسپتال کے ڈائریکٹر حسام ابو صفیہ نمایاں ہیں۔حسام کو ڈیوٹی کے دوران بمباری سے اپنے بیٹے کی شہادت کی اطلاع ملی مگر حسام بدستور مریضوں کے ساتھ رہے۔ حسام کو گزشتہ سال دسمبر میں اسپتال سے گرفتار کیا گیا۔ان پر ایک قانونی ریاست (اسرائیل) سے نبرآزما جنگجو ہونے کی فردِ جرم لگائی گئی۔عدالت ان کی نظربندی میں چھ چھ ماہ کی دو بار توسیع کر چکی ہے۔حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے جن دو ہزار فلسطینی قیدیوں کی فہرست پیش کی تھی، اس میں حسام کا نام بھی شامل تھا مگر اسرائیل نے انھیں خطرناک قیدی بتا کر رہا کرنے سے انکار کر دیا۔

 تین سینئر فلسطینی ڈاکٹر ، ایک فارماسسٹ اور ایک فزیو تھراپسٹ ہنوز لاپتہ ہیں اور دیگر پانچ کے مرنے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ فزیشنز فار ہیومین رائٹس اسرائیل ( ایف ایچ آر آئی ) کے ڈیٹا کے مطابق جو فلسطینی قیدی دورانِ قید مرے ، ان میں تین ڈاکٹر اور ایک طبی کارکن شامل ہیں۔ان میں سب سے مشہور نام غزہ کے آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر عدنان البرش کا ہے۔

سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد ڈاکٹر عدنان غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس دوران سوشل میڈیا پر وڈیوز بھی پوسٹ کرتے تھے جن میں گھمبیر حالات میں ڈاکٹروں کو کام کرتے دکھایا جاتا رہا۔ایک وڈیو میں ڈاکٹر عدنان اسپتال کے احاطے پر اسرائیلی بمباری سے مرنے والوں کے لیے اجتماعی قبر کھودنے کے کام میں حصہ لیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں کیونکہ محاصرے کے سبب لاشوں کو بھی تدفین کے لیے اسپتال سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔

جب اسرائیلی فوج کے مسلسل حملوں اور محاصرے کے نتیجے میں مریضوں سمیت الشفا اسپتال خالی کرنا پڑا تو ڈاکٹر عدنان انڈونیشیا اسپتال میں منتقل ہو کر زخمیوں کو بچانے کے کام میں لگ گئے۔انڈونیشیا اسپتال کے محاصرے اور مسلسل حملوں کے بعد ڈاکٹر عدنان کو العودہ اسپتال منتقل ہونا پڑا اور وہاں سے انھیں دیگر طبی کارکنوں اور ڈاکٹروں کے ہمراہ حراست میں لے کر اسرائیل منتقل کر دیا گیا۔ چار ماہ تک انھیں بہیمانہ ریپ سمیت مسلسل ٹارچر کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔

فزیشنز فار ہیومین رائٹس نے رہائی کے بعد جن چوبیس طبی کارکنوں کی شہادتیں ریکارڈ کیں۔ان میں سے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ مجھے سدی تیمان فوجی کیمپ میں آنکھوں پر مسلسل پٹی باندھ کے رکھا گیا۔ تشدد کے سبب مجھے ہرنیا ہو گیا۔کئی ہفتوں بعد قیدخانے کے ایک ڈاکٹر نے میری آنکھوں سے پٹی اتارے بغیر معائنہ کیا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں بھی تمہاری طرح ڈاکٹر ہوں لہٰذا ٹھیک سے معائنہ کرنا۔اس نے میرے منہ پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا کہ تم ڈاکٹر نہیں دہشت گرد ہو۔

اسرائیلی میڈیکل ایسوسی ایشن نے غزہ پر فوج کشی کی مخالفت کرنے والوں کی بارہا کھلی مذمت کی۔ ایک سو سے زائد اسرائیلی ڈاکٹروں نے غزہ کے اسپتالوں کو دہشت گردی کے ٹھکانے قرار دینے کے سرکاری بیانیے کی مکمل تائید کرتے ہوئے ان اسپتالوں پر حملوں کو جائز قرار دیا۔کسی اسرائیلی ڈاکٹر نے مغربی کنارے پر دندناتے مسلح یہودی آبادکاروں کے علاج سے انکار نہیں کیا البتہ فلسطینی قیدیوں پر ٹارچر میں نہ صرف ساتھ دیا بلکہ اسرائیلی پیرا میڈیکل اسٹاف اور ہیلتھ ورکرز باقاعدہ فوجی خدمات بھی انجام دیتے ہیں۔ قید خانوں کے اسپتالوں میں متعین ڈاکٹروں کو فوجی یونیفارم میں مسلح ہو کر آنے کی اجازت ہے۔

گذرے مئی میں نیویارک ریویو آف بکس میں ’’اسرائیلی طبی شعبے کے لیے شرم کا مقام‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شایع ہوا۔ یہ مضمون فزیشنز فار ہیومین رائٹس کے سابق ڈائریکٹر نیوی گورڈن ، طبی اسکالر گائے شولوم اور عرب اسرائیلی ماہرِ امراضِ اطفال اسامہ تانوس نے مشترکہ طور پر لکھا۔

مضمون کے مطابق اسرائیلی اسپتالوں میں فلسطینی مریضوں کو مشکل سے داخل کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عموماً قیدی مریضوں کی بیڑیاں اور آنکھوں کی پٹیاں اتروانے پر بھی اصرار نہیں کرتے۔ایسے مریضوں کو جان بوجھ کر طاقت ور پین کلرز نہیں دیے جاتے۔کئی ڈاکٹر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نسل کشی پر اکسانے والے پیغامات شئیر کرتے ہیں۔وہ اپنے عرب ساتھیوں کے سامنے بہت آرام سے کہتے ہوئے گذر جاتے ہیں کہ غزہ میں کوئی معصوم نہیں ، غزہ کو جلا دینا چاہیے۔پوری اسرائیلی طبی برادری نے بے حسی یا خوف کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔

 اس کے برعکس اگر کوئی عرب اسرائیلی ڈاکٹر یا طبی کارکن غزہ کے بارے میں ایک بھی ہمدردانہ جملہ پوسٹ کر دے تو اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی چھان پھٹک اور پوچھ تاچھ شروع ہو جاتی ہے اور نوکری بھی جا سکتی ہے۔مثلاً ہیبرو یونیورسٹی کی ایک پروفیسر نادرہ شلہوب کو ایک پوڈ کاسٹ میں اہلِ غزہ کے لیے ہمدردی کے دو بول بولنے پر نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔

اسرائیل کے طبی شعبے میں عرب نژاد ڈاکٹروں کا تناسب پچیس فیصد اور نرسنگ اسٹاف میں لگ بھگ پچاس فیصد ہے۔یہ عرب اسرائیلی ڈاکٹرز بھی میڈیکل ایسوسی ایشن کے ممبر ہیں مگر ان کے یہودی ساتھی ان کے خلاف ہونے والی کسی بھی تادیبی کارروائی سے لاتعلق رہتے ہیں۔البتہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں۔ فزیشنز فار ہیومین رائٹس نامی انجمن انیس سو اٹھاسی سے فعال ہے۔اس کا مقصد مقبوضہ فلسطین میں ہر ایک کو یکساں طبی حقوق دلانا ہے۔ ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اس انجمن کے ممبر ہیں اور وہ اپنے موبائل کلینکس کے ذریعے ان علاقوں میں سالانہ تقریباً بیس ہزار افراد کو طبی سہولتیں فراہم کرتے ہیں جنھیں اسرائیلی ریاستی طبی ڈھانچہ نظر انداز کرتا ہے۔

 اسرائیل سے باہر کی ڈاکٹرز برادری اور میڈیکل اداروں کو فلسطینیوں کی آخر کتنی پرواہ ہے؟ اس کا جواب اگلے مضمون میں تلاش کرنے کی کوشش ہو گی۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف رپورٹ یا چوروں کی چارج شیٹ
  • تم ڈاکٹر نہیں دہشت گرد ہو
  • ترقیاتی بجٹ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے، نواز خان ناجی
  • کان کے پردے پھٹنے کی علامات اور فوری اقدامات
  • چین اور جنوبی افریقہ کی جانب سے’’افریقی جدیدیت کی حمایت کے لیے تعاون کا اقدام‘‘ جاری
  • ضمنی الیکشن: مسلم لیگ ن نے میدان مار لیا: کامیابی کا کریڈٹ نوازشریف کے وژن مریم نواز کی محنت کو جاتا ہے، وزیراعظم
  • ہری پور میں واقع تاریخی گاؤں کوٹ نجیب اللہ، جسے اساتذہ کے گھر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے
  • کیا پاکستان عظیم مملکت ہے؟
  • آپ کی ترجیحات…
  • دنیا کے سرد ترین قصبے میں درجہ حرارت منفی 42 تک جا پہنچا