پاکستانی معاشی نمو 3.6 اور افراط زر 6 فیصد رہنے کا امکان ہے، آئی ایم ایف رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
اسلام آباد:
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے منگل کو ’’ ورلڈ اکنامک آؤٹ لک ‘‘ جاری کردی۔ رپورٹ میں پاکستان کی موجودہ مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو 3.6 فیصد بتائی گئی لیکن وضاحت کی گئی کہ پاکستان کے معاشی اندازوں میں ابھی 2025 کے سیلاب کے اثرات شامل نہیں کیونکہ ان نقصانات کا اندازہ ابھی لگایا جا رہا ہے۔
امکان ہے کہ یہ شرح حالیہ دنوں ہونے والی بات چیت کے بعد کم کر دی جائے گی۔ افراط زر 6 فیصد رہنے کا بتایا گیا۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے بے روزگاری میں کمی کا امکان ہے ۔
حکومتی ذرائع کے مطابق سیلاب کے معیشت پر منفی اثرات خصوصاً شرح نمو، افراط زر، بجٹ اور بیرونی کھاتوں پر اثرات وہ اہم مسائل ہیں جو عملے کی سطح کے معاہدے کی تکمیل میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ عالمی رپورٹ میں 3.
آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ حالیہ سیلاب نے خاص طور پر زرعی شعبے پر منفی اثر ڈالا ہے۔پاکستانی حکومت پہلے ہی اپنا ہدف 4.2 فیصد سے کم کر کے 3.5 فیصد کر چکی ہے جبکہ عالمی بینک نے 2.6 فیصد شرح نمو کی پیش گوئی کی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ درمیانی مدت میں بھی آئی ایم ایف پاکستان کے لیے زیادہ سے زیادہ 4.5 فیصد کی شرح نمو کا امکان ظاہر کر رہا ہے جو اس صورت میں ممکن ہے جب برآمدات اور سرمایہ کاری میں واضح اضافہ ہو۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کا وفد گزشتہ ہفتے واشنگٹن واپس چلا گیا اور معاہدہ طے نہ ہو سکا۔ اختلافات چار اہم امور پر برقرار ہیں۔ گورننس اور کرپشن رپورٹ کی اشاعت کا وقت، بنیادی بجٹ کے سرپلس ہونے کا ہدف، سیلابی نقصانات کے مالی اثرات اور بیرونی کھاتوں کے خسارے سے متعلق حسابات پر اختلافات موجود ہیں۔
آئی ایم ایف کی ’’ ورلڈ آؤٹ لک ‘‘ رپورٹ نے پاکستان کے لیے افراط زر کی شرح 6 فیصد ظاہر کی ہے لیکن کہا گیا ہے کہ سیلاب کے اثرات کے بعد اس میں ردوبدل ممکن ہے۔
گزشتہ ہفتے کی بات چیت میں بتایا گیا کہ مہنگائی کی شرح 5 سے 7 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے جو مالی سال کے آخر میں خوراک اور توانائی کی قیمتوں کے اثر سے عارضی طور پر بڑھ سکتی ہے۔
رپورٹ میں موجودہ مالی سال کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مجموعی قومی پیداوار کا 0.4 فیصد بتایا گیا ہے، وزارت خزانہ نے اسے 0.2 فیصد ظاہر کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے عالمی سطح پر 2025 کے لیے شرح نمو کے تخمینے کو 2.8 فیصد سے بڑھا کر 3.2 فیصد کر دیا ہے۔
یہ بہتری امریکہ کے تجارتی محصولات کے کم منفی اثرات کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ رپورٹ میں امریکہ کی معاشی شرح نمو 2 فیصد اور چین کی 4.8 فیصد بتائی گئی ہے۔
دریں اثنا ذرائع وزارتِ خزانہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان میں سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے کے موجودہ میکنزم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاق اور صوبوں میں ایک جامع اور مربوط نظام بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
آئی ایم ایف نے صرف بینک اکاؤنٹس کی معلومات شیئر کرنے کی حکومتی تجویز کو نامکمل قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور کہا بینک اکاؤنٹس میں موجود معلومات محدود ہیں اور کئی اثاثے دیگر ناموں یا اکاؤنٹس میں چھپے ہو سکتے ہیں۔
صرف بینک اکاؤنٹس کے اعداد و شمار کافی نہیں ہیں بلکہ افسران کے تمام مالی، منقولہ و غیرمنقولہ اثاثوں کی مکمل ڈکلیر یشن کا نظام ضروری ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف رپورٹ میں افراط زر کے لیے
پڑھیں:
اسکرین ٹائم: بچوں کی تعلیمی کارکردگی پر اثرات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251015-03-2
نت نئی برقی ایجادات بالخصوص ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور اسمارٹ ڈیوائسز نے جہاں ایک جانب زندگی میں آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں دوسری جانب ان آلات کے بے جا استعمال نے ذہنی، جسمانی، اعصابی، سماجی اور نفسیاتی مسائل میں بھی اضافہ کیا ہے۔ ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ زیادہ اسکرین ٹائم بچوں کی ابتدائی تعلیمی کارکردگی پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ مطالعے سے پتا چلا ہے کہ جن بچوں نے روزانہ زیادہ وقت اسمارٹ فون، ٹیبلٹ یا ٹی وی اسکرین پر گزارا، ان کی ریاضی اور مطالعے کی کارکردگی دیگر بچوں کے مقابلے میں کم تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلسل اسکرین کے استعمال سے بچوں کی توجہ کی صلاحیت، نیند کے معمولات اور ذہنی ارتکاز متاثر ہوتے ہیں، جس کا اثر براہِ راست سیکھنے کی رفتار پر پڑتا ہے۔ طبی ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ بچوں میں توجہ کی کمی اور روزمرہ کی سرگرمیوں سے دوری دماغی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہے۔ ڈیجیٹل آلات تعلیم کو بہتر بنانے کا باعث بن سکتے ہیں مگر کسی بھی چیز کا حد سے زیادہ استعمال مضمرات کا باعث بنتا ہے یقینا یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو تشویش کا باعث ہے، جدید ٹیکنالوجی ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈیجیٹل آلات کے استعمال کی حد مقرر کی جائے، اس کے مثبت استعمال کو فروغ دیا جائے، اور بچوں کی اچھی ذہنی صحت کے لیے انہیں جسمانی سرگرمیوں میں مشغول کیا جائے تاکہ بچوں کی دماغی صلاحیت متاثر نہ ہو۔