Juraat:
2025-10-15@05:16:02 GMT

بھارت میں مسلم نفرت کی سیاست عروج پر

اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT

بھارت میں مسلم نفرت کی سیاست عروج پر

ریاض احمدچودھری

آر ایس ایس کے نظریے پر چلنے والی بی جے پی سرکار میں مسلمانوں کے مذہبی مقامات غیر محفوظ ہیں مودی کی ہندوتوا حکومت کامسلمانوں کی شناخت ، مذہبی روایات اور مذہبی آزادی پر ایک اور وار۔ مسلمانوں کیخلاف بھارت میں غاصب مودی کی ریاستی سرپرستی میں دہشت گردانہ کارروائیاں جاری ہیں۔ بھارتی جریدے دی ٹیلی گراف انڈیا کے مطابق اتر پردیش کے ضلع سنبھل کے رائے بزرگ گاؤں میں ایک اور مسجدکوشہید کر دیا گیا پچھلے چار ماہ میں ضلع سنبھل میں مسجد شہید کرنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے مسجد کو فوجی دستے اور بھاری پولیس کی نفری کی نگرانی میں گرایا گیا ۔مقامی افراد کا مؤقف ہے کہ مسجد تقریباً 10سال پہلے تعمیر کی گئی تھی۔ اتر پردیش کے ضلع سنبھل کی انتظامیہ نے تجاوزارت کا الزام لگا کر مسجدکو گرایا۔رضاء مصطفی مسجد کو بھی کچھ عرصہ پہلے سنبھل انتظامیہ نے گرایا تھا ۔اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے مسجد کو گرانے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ رام مندر کی تعمیر کے بعد ضلع ایودھیا ترقی اور روحانیت سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ضلع سنبھل کو بھی کاشی اور ایودھیا شہر کی طرح بنایا جائیگا۔ یوگی آدتیہ ناتھ آر ایس ایس کے نظریے کے تحت گجرات کے قتل عام کو پھر دہرانا چاہتا ہے ۔مودی سرکار میں ہندوتوا انتہا پسندوں کا مساجد گرانا مودی کی متعصبانہ پالیسیوں کا ثبوت ہیں ۔مسلم شناخت مٹانے کی سرکاری کوشش بھارتی سیکولرازم کے تابوت میں آخری کیل ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت، امتیازی سلوک اور تشدد کو منظم طور پر ہوا دینے کے واقعات دستاویزی شکل میں موجود ہیں۔ امتیازی شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) سے لے کر گھروں کو بلڈوز کرنے تک ،2002 کے گجرات قتل عام سے لے کر 2020 کے دہلی فسادات تک ،1992 میں بابری مسجد کی شہادت سے لے کر 2024 میں اس کے ملبے پر مندر کی تعمیر تک، گاؤ کے تحفظ کی آڑ میں تشدد اور پر ہجوم تشدد کے واقعات سے لے کر مساجد اور مزارات پر حملے—ہندوستان کا ریکارڈ مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں سے داغدار ہے۔
یو ایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم (یو ایس سی آئی آر ایف) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024ء میں بھارت میں اقلیتوں کے خلاف حملوں اور امتیازی سلوک میں اضافہ ہونے کی وجہ سے مذہبی آزادی میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔رپورٹ کے مطابق جون میں ہونے والے قومی انتخابات سے قبل حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین بشمول وزیرِ اعظم نریندر مودی نے سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی کی اور غلط معلومات پھیلائیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کی بیان بازی نے مذہبی اقلیتوں پر حملوں کو ہوا دی جو انتخابات کے بعد بھی جاری رہے۔ بھارتی حکومت بیرون ملک مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر سکھ برادری کے لوگوں اور ان کے حامیوں کو نشانہ بنانے کے لیے اپنے اوچھے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتی رہی۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کینیڈین حکومت کی بین الاقوامی رپورٹنگ اور انٹیلی جنس نے ان الزامات کی تصدیق کی ہے جو ‘را’ کے ایک اہلکار اور 6 سفارت کاروں کو 2023ء میں نیویارک میں ایک سکھ رہنما کے قتل کی کوشش سے جوڑتے ہیں۔ بھارتی حکام نے مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے ریاستی سطح کے امتیازی تبدیلی مخالف قوانین اور گائے کی قربانی کے خلاف بنائے گئے قوانین کا استعمال کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت بھر میں انسانی حقوق کے ناقص ریکارڈ پر نئی دہلی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ”اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے لیے بھارت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو کیوں اہمیت دینی چاہیے ” کے عنوان سے ایمنسٹی کی رپورٹ میں بھارت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کا احترام کرے۔ مودی حکومت کے زیر سایہ بھارت میں فاشزم اور اقلیتوں پر ریاستی جبر اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ بھارت میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے ہیں، جن میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کانپور سے 4 ستمبر کو شروع ہونے والے فسادات نے تیزی سے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
بھارتی مسلمانوں نے مودی حکومت کو کھلا چیلنج دیا ہے کہ اگر مقدسات کی گستاخی ہوئی تو پورے ملک میں مسلمان سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ مظاہرین نے کہا کہ اگر نیپال میں عوام 15 دن میں حکومت گرا سکتے ہیں تو بھارت کے 25 کروڑ مسلمان بھی چند دنوں میں نظام بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔فسادات کے دوران بھارتی مسلمانوں نے مودی سرکار کے خلاف سخت نعرے لگائے اور کہا کہ "ہزاروں مساجد ہیں، تم کتنی توڑو گے؟ ہم چاہیں تو مزید تعمیر کر لیں گے۔”
ان واقعات کے بعد انسانی حقوق تنظیموں نے تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت کے زیر سایہ بھارت میں فاشزم اور اقلیتوں پر ریاستی جبر اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ ناقدین کے مطابق مودی کا ہندوتوا نظریہ مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے لیے کھلا خطرہ بن گیا ہے۔
٭٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: مذہبی اقلیتوں اقلیتوں کے ضلع سنبھل بھارت میں رپورٹ میں گیا ہے کہ سے لے کر کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

بدلے کی آگ میں سلگتا مودی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251013-03-7

 

 

انجینئر افتخار چودھری

 

 

مودی کا یہ کہنا کہ ’’میں بدلے کی آگ میں جل رہا ہوں، پاکستانی آرمی چیف میرا اصل ٹارگٹ ہے‘‘۔ اْس کے ذہنی انتشار، نفرت اور شکست خوردگی کی واضح علامت ہے۔ یہ جملہ صرف سیاسی غصے کا اظہار نہیں بلکہ اْس احساسِ ہزیمت کی جھلک ہے جو پاکستان کی عسکری کامیابیوں نے بھارت کے دل میں پیدا کی ہے۔ بھارت کے حکمرانوں کے لیے سب سے بڑا صدمہ یہ ہے کہ وہ ہر سازش، ہر پروپیگنڈا اور ہر دباؤ کے باوجود پاکستان کو کمزور نہیں کر سکے۔ رافیل کا غرور خاک میں ملنا مودی کے تکبر کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ پاکستان ایک ذمے دار ریاست ہے۔ ہماری فوج اور سیاسی قیادت ہمیشہ امن چاہتی ہے، لیکن امن کمزوری سے نہیں، طاقت سے قائم ہوتا ہے۔ مودی کی حکومت نے جب بھی پاکستان پر الزام تراشی کی، اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی اندرونی سیاسی مقصد چھپا ہوتا ہے۔ کبھی وہ کشمیر میں ناکامی چھپانے کے لیے پاکستان پر حملے کی بات کرتا ہے، کبھی انتخابی سیاست میں فائدہ اٹھانے کے لیے جنگی جنون بھڑکاتا ہے۔ مگر پاکستان نے ہمیشہ تحمل اور تدبر کے ساتھ جواب دیا۔ تاہم، جب دشمن نے حد پار کی، تو ہماری افواج نے وہ جواب دیا جو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔

پاکستانی قوم جانتی ہے کہ بھارت کا اصل مسئلہ پاکستان کی جغرافیائی نہیں بلکہ نظریاتی طاقت ہے۔ دو قومی نظریہ آج بھی بھارت کے سینے میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ایک مسلمان قوم اپنی الگ شناخت کے ساتھ دنیا کے نقشے پر موجود ہے، جو اسلام، غیرت اور خودداری پر یقین رکھتی ہے۔ یہی نظریہ آج بھارت کی آنکھوں میں چبھن بن کر ہے۔ بدقسمتی سے، ہمارے ملک کے اندر بھی کچھ ایسے طبقات ہیں جو بھارت کے بیانیے کو دانستہ یا نادانستہ تقویت دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو امن کے نام پر دشمن کی مکاری کو بھول جاتے ہیں۔ کبھی وہ ’’امن کی آشا‘‘ کے نغمے گاتے ہیں، کبھی بھارت کو ’’موسٹ فیورٹ نیشن‘‘ قرار دینے کی بات کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مذاکرات سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات ہمیشہ یکطرفہ رہے ہیں۔ وہ ہمیں دھوکا دیتا ہے، اور ہم اس کے فریب کو امن کا نام دیتے ہیں۔

78 سال میں بھارت نے کبھی پاکستان کے وجود کو دل سے قبول نہیں کیا۔ اْس نے ہر ممکن کوشش کی کہ ہمیں سیاسی، عسکری اور سفارتی طور پر کمزور کیا جا سکے۔ اْس نے مشرقی پاکستان کو علٰیحدہ کیا، کشمیر پر قبضہ جمایا، سیاچن پر حملہ کیا، کارگل کا جھوٹا شور مچایا، اور ہر بار پاکستان کو عالمی دباؤ میں لانے کی کوشش کی۔ مگر جب پاکستان نے دشمن کے خلاف عملی جواب دیا، تو وہ چیخ اٹھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے اندر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی۔ بلوچستان، کراچی، اور گلگت بلتستان میں بھارتی خفیہ ایجنسیاں تخریب کاری کے منصوبے بناتی رہیں۔ مگر ان تمام سازشوں کے باوجود پاکستان قائم ہے اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ خبریں گردش میں رہیں کہ بھارت نے کچھ پاکستانی سیاسی حلقوں سے خفیہ طور پر رابطے کیے۔ اور دہشت گرد تنظیموں کے مبینہ ٹھکانوں پر حملوں کے سلسلے میں تعاون کی بات کی گئی۔ اگر یہ درست ہے تو یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے، جو قومی خودمختاری پر سوال اٹھاتا ہے۔ اسی تناظر میں رانا ثناء اللہ کا بیان یاد آتا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’بھائی، اگر انڈیا نے ہم پر حملہ نہ کیا تو ہم کوئی جواب نہیں دیں گے‘‘۔ اس قسم کے جملے دشمن کو شہہ دیتے ہیں اور قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف غیر ذمے دارانہ ہے بلکہ اس سے پاکستان کا دفاعی موقف کمزور دکھائی دیتا ہے۔ اسی دوران آئی ایس پی آر کے ایک افسر کا دو ٹوک بیان آیا: ’’جواب دینا ہمارا حق ہے۔ کب اور کیسے دیں گے، یہ مودی کو پتا چل جائے گا‘‘۔ یہ جملہ صرف ایک بیان نہیں بلکہ پوری قوم کی آواز تھا۔ یہ اعلان تھا کہ پاکستان کسی کے دباؤ میں آنے والا ملک نہیں۔ ہم اپنی سلامتی اور خودمختاری کا تحفظ ہر قیمت پر کریں گے۔

مودی کے یار آج بھی مختلف چہروں میں چھپے ہوئے ہیں۔ کبھی وہ لبرل ازم کے نام پر بولتے ہیں، کبھی جمہوریت کی آڑ میں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کا خواب محض ایک فریب ہے۔ ہر بار بھارت نے مذاکرات کے نام پر وقت ضائع کیا، اور کشمیر کے مسئلے کو دبانے کی کوشش کی۔ مودی نے خود اعتراف کیا کہ وہ آر ایس ایس کے نظریے کا پیروکار ہے۔ اْس کے نزدیک پاکستان سے دشمنی ایمان کا حصہ ہے۔ ایسے شخص سے خیر کی توقع رکھنا خود فریب کے سوا کچھ نہیں۔ اور یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے، جو بطور پاکستانی، بطور محب وطن، میرے دل میں مسلسل گونجتا ہے۔

راقم کا ایک سوال: اس مختصر وقفے کی جنگ میں نواز شریف کا کوئی ایک بیان نہیں ملتا جو انڈیا کے خلاف دیا گیا ہو۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنی بڑی جارحیت، اتنی کھلی دھمکیوں کے دوران بھی ان کی زبان پر ایک لفظ نہیں آیا۔ ہاں، اگر وہ اس وقت بہت مصروف ہوں، شاید جنگ کا پلان بنا رہے ہوں، تو پھر یہ خاموشی سمجھ میں آتی ہے! ہمیں اب فیصلہ کرنا ہے کہ ہم بطور قوم کہاں کھڑے ہیں۔ کیا ہم دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار بنیں گے یا اپنے نظریے پر قائم رہیں گے؟ پاکستان کو آج سیاسی انتشار سے زیادہ خطرہ کسی بیرونی دشمن سے نہیں۔ ہم نے اپنی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف صرف کر رکھی ہیں۔ سیاست دان اقتدار کے لیے ایک دوسرے کو غدار، چور، ڈاکو اور لٹیرا کہتے ہیں۔ عوام میں نفرت اور تقسیم بڑھ رہی ہے۔ دشمن یہی چاہتا ہے کہ پاکستانی ایک دوسرے سے لڑتے رہیں تاکہ اسے فائدہ ہو۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ آزادی کسی دشمن کے سامنے جھک جانے کا نام نہیں۔ آزادی قربانی، عزم اور غیرت کا تقاضا کرتی ہے۔ مذاکرات اْس وقت ہی معنی رکھتے ہیں جب دونوں فریق برابری کی بنیاد پر بیٹھیں۔ بھارت نے ہمیشہ مذاکرات کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، مگر پاکستان نے ہر بار وقار کے ساتھ جواب دیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ ہمیں اختلاف رائے کے باوجود ایک بات پر متحد ہونا ہوگا۔ پاکستان سب سے مقدم ہے۔ ذاتی مفادات، جماعتی سیاست اور اقتدار کی ہوس کو قومی سلامتی پر ترجیح دینا بدترین غداری کے مترادف ہے۔

مودی بدلے کی آگ میں جل رہا ہے، کیونکہ اْس نے پاکستان کو کمزور سمجھا اور ہر بار شکست کھائی۔ اْس کی فوج نفسیاتی دباؤ کا شکار ہے۔ اْس کا میڈیا پاکستان کے خوف میں زندہ ہے۔ اور اْس کے سیاسی مخالفین جانتے ہیں کہ مودی کا سیاسی مستقبل صرف پاکستان دشمنی پر کھڑا ہے۔ مگر پاکستان اب وہ ملک نہیں رہا جو دباؤ میں آئے۔ ہمیں اپنی خودی، اپنے ایمان اور اپنے نظریے کو پہچاننا ہوگا۔ دشمن ہماری صفوں میں انتشار دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم متحد رہیں، اور اپنی ریاست کی خودمختاری کا ہر سطح پر دفاع کریں۔ مودی اور اْس کے حواری ہمیشہ پاکستان کے خلاف نفرت کا بیانیہ بناتے رہیں گے، لیکن ہمیں اپنے کردار اور عمل سے دنیا کو دکھانا ہے کہ پاکستان امن چاہتا ہے مگر کمزوری نہیں دکھائے گا۔ پاکستان کے دشمنوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ملک کسی مصلحت پر نہیں بلکہ ایک نظریے پر قائم ہوا تھا، اور نظریے کو گولیوں، دھمکیوں یا پروپیگنڈے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان ان شاء اللہ قائم رہے گا، اور مودی جیسے لوگ اپنے ہی نفرت کے شعلوں میں جلتے رہیں گے۔

 

انجینئر افتخار چودھری

متعلقہ مضامین

  • رابطہ عالم اسلامی مسلم اُمہ کے اتحاد، دانائی اور رہنمائی کی علامت ہے، وزیر مذہبی امور
  • ریاستی دہشتگردی میں ملوث بھارت کا افغان طالبان کے ساتھ گٹھ جوڑ بے نقاب
  • مودی سرکارجہاد کےباپ طالبان کو گلے لگا رہی ہے،محبوبہ مفتی
  • مودی حکومت جہاد کےباپ طالبان کو گلے لگا رہی ہے،محبوبہ مفتی
  • بی جے پی طالبان کیساتھ تعلقات استوار کرکے ہندوستان میں مسلمانوں کو نشانہ بنارہی ہے، محبوبہ مفتی
  • بدلے کی آگ میں سلگتا مودی
  • پی پی پی، (ن) لیگ سیز فائر
  • کیا افغان حکومت کو نظر نہیں آرہا کہ بھارتی حکومت اپنے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے ؟ تجزیہ کار عثمان شامی 
  • مودی حکومت وقف بورڈ کی جائیدادوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، اسد الدین اویسی