لاہور (نیوزڈیسک) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ دیہی خواتین محنت، محبت، احساس ذمہ داری اور قربانی کی زندہ مثال ہیں، ایک مضبوط، خودکفیل اور خوشحال پنجاب کی تعمیر دیہی خواتین کے کردار کے بغیر ممکن نہیں۔

دیہی خواتین کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دیہی خواتین کے حقوق کا دن منانے کا مقصد دیہاتی خواتین کی محنت اور کاوشوں کا اعتراف کرنا ہے، دیہی خواتین کی عظمت، قربانی اور انتھک محنت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دیہی خواتین محنت، محبت، احساس ذمہ داری اور قربانی کی زندہ مثال ہیں، دیہی خواتین کی محنت سے پنجاب کی زمین لہلہاتی ہے، گھر آباد ہوتے ہیں اور معیشت مستحکم ہوتی ہے، دیہی عورت محض ایک محنت کش نہیں بلکہ پنجاب کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے، دیہی خاتون سمیت ہر عورت کا تحفظ میری ریڈ لائن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چاہتی ہوں کہ دیہی خواتین صرف فارمر نہ رہیں بلکہ خود فیصلہ ساز اور معاشی قوت بنیں، ایک مضبوط، خودکفیل اور خوشحال پنجاب کی تعمیر دیہی خواتین کے کردار کے بغیر ممکن نہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ حکومت پنجاب نے دیہی خواتین کیلئے نئے مواقع، آسان سہولیات، ہنر مندی کے پروگرام لانچ کئے ہیں، دیہی خواتین کسان کارڈ، لائیو سٹاک کارڈ، ہمت کارڈ سے مستفید ہو رہی ہیں، دیہی خواتین کیلئے تمام بنیادی مراکز صحت کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کاروبار کے لئے بلاسود قرضے، لیپ ٹاپ اور تعلیمی سکالرشپ سے دیہی بیٹیوں کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی آ رہی ہے۔

مریم نواز شریف نے مزید کہا کہ دیہی خواتین کو ترقی کے دور میں شریک کرنے کیلئے سکل ڈویلپمنٹ پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں، دیہی خواتین کے خود روزگارکیلئے مویشی مہیا کئے جا رہے ہیں، ورچوئل پولیس سٹیشن ہر طبقہ کی خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے قائم کیا گیا ہے۔

دیہی خواتین کا عالمی دن

خیال رہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی آج دیہی خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے جن کی بدولت معاشرے اور معیشت میں بہتری پیدا ہو رہی ہے۔

دیہی خواتین صرف گھروں تک محدود نہیں بلکہ محنت مزدوری کر کے مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں تاہم حالیہ سیلاب کے باعث زرعی شعبے میں نقصان ہونے کی وجہ سے خواتین کیلئے روزگار کا حصول مشکل ہوگیا ہے جبکہ سخت محنت کے باوجود مناسب اجرت نہ ملنے پر دیہی خواتین نے حکومت سے مؤثر اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

دیہی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دیہی خواتین ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں تاہم سیلاب سے متاثرہ خواتین کی ہر ممکن مدد کی جائے گی جبکہ نقصان کا تخمینہ لگانے کیلئے سروے کا عمل بھی مکمل کر لیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: دیہی خواتین کی دیہی خواتین کے مریم نواز پنجاب کی عالمی دن کا کہنا

پڑھیں:

گندم ،آٹا، سبزی مافیا…مریم نواز سرنڈر نہیں کریں گی

بانی پی ٹی آئی جن دنوں وزیر اعظم پاکستان تھے، تب انھوں نے حافظ آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں آلوٹماٹر کی قیمتیں دیکھنے کے لیے سیاست میںنہیں آیا۔‘‘ اس بیان پر ان کے سیاسی مخالفین اور عوامی حلقوں نے سخت تنقید کی تھی مگر ’’بانی‘‘ نے ’’سچ‘‘ کہا تھا کیونکہ انھیں ماضی کی اسٹیبلشمنٹ جن مقاصد کے لیے ’’لائی‘‘ تھی، ان میں سبزیوں، آٹا اور چینی کی قیمت کم رکھنے کا ٹاسک شامل نہیں تھا ۔پنجاب کی موجودہ وزیر اعلیٰ مریم نواز صاحبہ مسلسل یہ کہتی رہتی ہیں کہ میں عوام کے لیے سبزیاں، دالیں، آٹا، چینی سستی کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ بنی ہوں ۔

وزیر اعلیٰ پنجاب روزانہ کی بنیاد پر اشیائے خورونوش کی قیمتوں بارے معلومات حاصل کرتی ہیں، ان دنوں ٹماٹر کی مقامی فصل آنے میں کچھ دن باقی ہیں جس وجہ سے اس کی قیمت بڑھ رہی ہے ۔گزشتہ روز بھی وزیر اعلیٰ نے سبزیوں کی قیمتوں بارے اجلاس کی صدارت کی ہے۔ چند ہفتے قبل پنجاب میں آٹا قیمت2400 روپے فی تھیلا سے بھی زیادہ تک پہنچ گئی تھی جس پر وزیر اعلیٰ نے معاملات کی مکمل تطہیر اور سدھار کے لیے ڈاکٹر کرن خورشید کو سیکریٹری پرائس کنٹرول اور امجد حفیظ کو ڈی جی فوڈ تعینات کیا جس کے بعد معاملات میں بہتری آئی ہے۔

ان کے بعض فیصلوں پر تنقید کی جا سکتی ہے، کچھ معاملات میں یہ ممکن ہے کہ مریم نواز صاحبہ سے دانستہ یا نادانستہ غلط فیصلہ ہو گیا ہو یا پھر بیوروکریسی نے انھیں مکمل آگاہ نہ کیا ہو لیکن اشیائے خورونوش کی حد تک ان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا،اس معاملے میں وہ مضبوط ارادوں، پختہ یقین اور حقیقی عملدرآمد پر یقین رکھتی ہیں اور تمام غیر جانبدار حلقے تسلیم کرتے ہیں کہ پنجاب کے عوام کو سستی سبزیاں، آٹا، چینی دینے کے لیے ’’زیرو ٹالیرنس‘‘ پالیسی کے تحت کام ہو رہا ہے،یہ ایک روزانہ کی بنیاد پر لڑی جانے والی جنگ ہے جس میں مصنوعی مہنگائی اور قلت پیدا کرنے والے مافیاز وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم سے ٹکرا نے کے لیے آئے روز نیا ’’حملہ‘‘ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ مریم نواز نے مختلف حلقوں کی کوشش کے باوجود گندم کی سرکاری خریداری دوبارہ سے شروع کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے اپنا فیصلہ برقرار رکھا ہے کیونکہ تمام دستاویزی اور مالیاتی شواہد کی بنیاد پر مریم نواز صاحبہ یہ پختہ یقین رکھتی ہیں کہ ماضی (بشمول ن لیگ ادوار حکومت)پنجاب میں سرکاری گندم کی خریدو فروخت، رمضان پیکیج، سستی روٹی کے لیے دی جانے والی کھربوں روپے کی سبسڈی سے مستحق عوام سے کئی گنا زیادہ فلورملز، سرکاری محکموں ، کمرشل بینکوںکو فائدہ ہوا ہے۔

پنجاب کی سبسڈی والا آٹا اسمگل کر کے کروڑوں روپے روزانہ کمائے جاتے تھے ۔فعال فلورملز حکومت کی مقررہ شرح کے بجائے اپنے مفاد کے مطابق سرکاری گندم سے آٹا ،میدہ فائن چوکر تیار کرتی تھیں جب کہ غیر فعال فلورملز اپنے حصے کی سرکاری گندم فعال فلورملز کو فروخت کر کے دیہاڑی لگاتی تھیں۔رمضان پیکیج کے نام پر کئی سالوں تک میگا کرپشن کا بازار گرم رہا، عوام تو سرکاری سستا آٹا لینے کے لیے طویل قطاروں میں دھکے کھاتے اور جانیں گنواتے رہے لیکن فلورملز، آٹا ڈیلرز کی چاندی رہی،آج بھی نیب میں رمضان پیکیج آٹا کرپشن کیس التواء کا شکار ہے ، حیرت ہے کہ انتہائی باخبر اور متحرک وزیر اعلیٰ مریم نواز، ماضی کے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی ہیں ،آیا ان کے علم میں نہیں یا کوئی’’مصلحت‘‘ انھیں مجبور کر چکی ہے۔

سرکاری گندم کی قیمت اور اوپن مارکیٹ گندم کی قیمت میں ہوشربا فرق نے فلورملز کے مابین یہ دوڑ شروع کروادی تھی کہ کیسے نئی فلورمل لگا کر یا پرانی کی رولر باڈیاں بڑھا کر زیادہ مقدار میں سرکاری گندم کوٹہ حاصل کیا جائے ۔فائیو اسٹار ہوٹل میں ہزاروں روپے مالیت کا کھانا کھانے والا اور گلی محلے کے تندوری ہوٹل میں کھانا کھانے والا دونوں ہی سبسڈائزڈ آٹے سے بنی روٹی کھاتے تھے جو سرکاری وسائل کا بے دریغ ضیاع قرار دیا جاتا تھا۔

سرکاری گندم کوٹہ کے تاریک دور میں ہی یہ مناظر دیکھنے میں آتے تھے کہ دوکانوں سے آٹا غائب ہوتا تھا، ٹرک کھڑے کر کے سرکاری آٹا فروخت کروایا جاتا جہاں طویل قطاریں ہوتیں، خریدار کو ایک تھیلا خریدنے کے لیے بھی شناختی کارڈ کوائف نوٹ کروانے پڑتے تھے جب کہ کچھ ملیں تو اتنی’’استاد‘‘ تھیں کہ دن کو ٹرکنگ پوائنٹس یا دوکانوں پر آٹا بھیج کر شام کولوڈر رکشوں کے ذریعے واپس منگوا لیتی تھیں جب کہ اسی دور کی سچی کہانیاں ہیں کہ دس تھیلے بجھوا کر محکمہ خوراک کے کاغذوں میں 50 تھیلے لکھے جاتے تھے۔

آج ہمارے بہت سے کسان بھائی سرکاری گندم خریداری بند ہونے پر اعتراض کرتے ہیں مگر ان سے چند سوالات ضرور ہوچھنا چاہیے کہ جب سرکاری گندم خریداری ہوتی تھی تب کسانوں کا شکوہ ہوتا تھا کہ محکمہ خوراک ہم سے باردانہ دینے کے عوض بھی ’’اسپیڈ منی‘‘ لیتا ہے اور گندم خریدتے وقت بھی اضافی وزن لیا جاتا ہے ، کیا یہ سچ نہیں کہ 70فیصد گندم فروخت کرنے والے ’’آڑھتی‘‘ ہوتے تھے جو پہلے ہی کسان سے سستے داموں گندم کا سودا کرچکے ہوتے تھے ۔کیا کبھی کسی کسان کو اپنی گندم کی وہ قیمت فروخت ملی جو حکومت نے مقرر کی تھی، سارا منافع تو بیوپاری لے جاتا تھا، پھر آج کسان اعتراض کر رہا ہے یا پس پردہ اسی بیوپاری کی پرانی خواہشات زور مار رہی ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے گندم کی آیندہ فصل کے لیے علامتی قیمت خرید3500 روپے فی من مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے، اس کے کم ہونے پر تو بات ہو سکتی ہے مگر حکومت اگر کسانوں کو براہ راست فائدہ دینے کے لیے ’’ای ڈبلیو آر‘‘ سمیت دیگر پروجیکٹس لانا چاہ رہی ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔فلورمل مالک ، ٹریڈر یا بیوپاری کے بجائے کسان اپنی ہولڈنگ پاور کو کیوں نہیں بڑھاتا تاکہ خود براہ راست زیادہ سے زیادہ منافع کما سکے۔

گزشتہ ایک ماہ سے فلورملنگ انڈسٹری کا ایک گروپ محکمہ خوراک کو مسلسل قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پنجاب حکومت ’’پاسکو‘‘ سے گندم لے کر اسے فلورملز کو فراہم کرے، کبھی یہ گروپ تین ہزار والی گندم کی ’’مساوی‘‘ فراہمی کا مطالبہ کرتا ہے اور کبھی یہ لوگ آٹا کی بین الصوبائی ترسیل کے لیے ضلعی کوٹہ مقرر کرنے کے لیے حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تادم تحریر حکومت نے ان کے یہ تمام مطالبات تسلیم نہیں کیے ہیں کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ یہ لوگ انھیں ’’ٹریپ‘‘ کر کے دوبارہ سے سبسڈی والے سرکاری گندم کوٹہ کے تعفن زدہ اندھے کنویں میں دھکیلنا چاہتے ہیں جو حکومت کو کسی صورت قبول نہیں ہے۔

بین الصوبائی گندم آٹا ترسیل پر کسی قسم کی پابندی کے ہم بھی مخالف ہیں کیونکہ آئین پاکستان آزادانہ تجارت کی ضمانت دیتا ہے مگر ان دنوں حالات ایسے ہیں کہ دیگر صوبوں میں گندم آٹا کی قیمت بہت زیادہ ہے اور پنجاب میں آٹا سستا ہے، اس لیے اگر کسی چیک اینڈ بیلنس کے بغیر ترسیل ہونے دی گئی تو پنجاب بحران کا شکار ہوجائے گا، اسی لیے آیندہ 24 گھنٹوں میں محکمہ خوراک پرمٹ اجراء کا آغاز کرنے والا ہے۔

گزشتہ چند روز کے دوران ڈی جی فوڈ پنجاب امجد حفیظ نے محکمہ خوراک کی نقل کر کے بنائے گئے دو جعلی ویب پورٹل پکڑے ہیں جہاں سے بوگس پرمٹ جاری ہوتے تھے، مقدمات درج کیے جا چکے ہیں، گرفتاریاں متوقع ہیں ۔ ان مبینہ جعلسازوںمیں سے کچھ کا فلورملنگ انڈسٹری کے چند بڑے ناموں سے گہرا تعلق ہے لیکن یہی امتحان کا وقت ہے کہ جن رہنماوں سے تعلق ہے وہ ملک وقوم کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہیں یا صرف اپنی ملز کے جائز ناجائز مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔جو بڑے لیڈر ہوتے ہیں وہ اپنی ذات سے اوپر ہو کر سوچتے ہیں۔یہ بات طے ہے کہ پنجاب کے عوام کو سستا آٹافراہم یقینی بنانے کے لیے وزیر اعلیٰ مریم نواز صاحبہ گندم آٹا سبزی مافیا کے سامنے ’’سرنڈر‘‘ نہیں کریں گی۔

متعلقہ مضامین

  • دیہی خواتین ترقی کی حقیقی بنیاد ہیں، مریم نواز کا عالمی دن پر  خصوصی پیغام
  • ملکی معیشت کی ترقی میں دیہی خواتین کا کردار ناقابل فراموش ہے، مریم نواز
  • سبز یوں کے نرخ کم ‘ دستیا بی یقینی  بنانے کیلئے فوری اقدامات  کئے جائیں : مریم نواز 
  • پنجاب: پرچی سسٹم ختم، ٹول پلازوں کو ڈیجیٹلائز کرنے کا فیصلہ
  • گندم ،آٹا، سبزی مافیا…مریم نواز سرنڈر نہیں کریں گی
  • حکومت پنجاب کا کاروباری افراد کی سہولت کیلئے اہم اقدام
  • وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سبزیوں کے نرخ کم کرانے کیلئے متحرک ہوگئیں
  • تبلیغی جماعت کے شوری ارکان کی ملاقات : رائیونڈ احتماع کیلئے سہولت فراہم کرنے کا حکم ‘ بروقت تیاری کے ذریعے آفات سے بچائو ممکن : مریم نواز 
  • وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کارائے ونڈ اجتماع کیلئے الیکٹرو بس سروس چلانے کا اعلان