تاریخ کا فیصلہ کیا؟ مذاکرات یا جنگ؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے ایک بار پھر سیاست دانوں کی طرح دھڑلے سے پریس کانفرنس کی ہے۔ پریس کانفرنس میں انہوںنے کہا کہ دہشت گردی میں اضافے کی مختلف وجوہات ہیں جن میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ ہونا بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کا ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ اس حوالے سے ایک بیانیہ بنایا جائے گا مگر ایسا بیانیہ کبھی نہ بن سکا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کی جاتی ہے لیکن کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہے۔ اگر دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے ہیں تو پھر جنگیں کبھی نہ ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ سرور کونینؐ پھر غزوۂ بدر میں جنگ نہ کرتے۔ (روزنامہ جسارت 11 اکتوبر 2025ء)
اقبال نے کہا تھا:
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
مگر پاکستانی جرنیلوں کی تاریخ یہ ہے کہ حریف طاقت ور ہو تو وہ مذاکرات کی بات کرتے ہیں لیکن حریف کمزور ہو تو وہ جنگ پر اصرار کرتے ہیں۔ تاریخ کا پورا سفر ہمارے سامنے ہے۔ اس سفر میں مذاکرات، بات چیت اور مکالمے نے بڑے بڑے تاریخی تغیراّت کو جنم دیا ہے اور جنگ نے بہت کم مسائل کو حل کیا ہے۔ پاکستان کی تخلیق کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کے مطالبے کو قائداعظم جیسا سیاسی رہنما میسر تھا چنانچہ قائداعظم نے حصول پاکستان کے کسی بھی مرحلے پر جنگ و جدل برپا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے انگریزوں سے بھی مکالمہ کیا اور ہندو اکثریت سے بھی گفت و شنید کی۔ قائداعظم 1940ء سے 1947ء تک کے کسی بھی مرحلے پر جنگ کرتے تو پاکستان کی تخلیق ناممکن ہوجاتی۔ چنانچہ قائداعظم نے دلیل کو رہنما بنا کر پاکستان کا مقدمہ لڑا اور انہوں نے تن تنہا یہ مقدمہ جیت کر دکھادیا۔
اس کے برعکس جرنیلوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ طاقت ور حریفوں کی قوت سے لرزہ براندام رہے ہیں۔ جنرل ایوب نے 1965ء میں بھارت سے جنگ لڑی۔ جنرل احمد شریف چودھری کی دلیل کو مان لیا جائے تو جنرل ایوب کو کبھی بھارت کے ساتھ جنگ بندی نہیں کرنی چاہیے تھی بلکہ انہیں کشمیر کے حصول اور بھارت کی مکمل تباہی تک بھارت کے ساتھ جنگ جاری رکھنی چاہیے تھی کیونکہ ہمارا بیانیہ یہ تھا کہ بھارت جارح ہے مگر جنرل ایوب نے نہ صرف یہ کہ جنگ بندی قبول کرلی بلکہ وہ تاشقند میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بھی بیٹھ گئے۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے نہایت شرمناک انداز میں بھارت کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ ظاہر ہے یہ کام انہوں نے خود نہیں کیا بلکہ ہتھیار ڈالنے کا حکم انہیں جرنیلوں نے دیا تھا۔ جنرل احمد شریف چودھری کی دلیل کو دیکھا جائے تو پاکستان کے 90 ہزار فوجیوں کو بھارت سے لڑتے ہوئے مرجانا چاہیے تھا مگر انہیں بھارت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئیں تھے۔ لیکن پاکستان کے جرنیلوں نے 90 ہزار فوجیوں سے بھارت کے آگے ہتھیار ڈالوائے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہوئی کہ جرنیلوں نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مجبور کیا کہ وہ قیدیوں کی رہائی کے لیے بھارت سے شملہ میں ’’مذاکرات‘‘ کریں۔ اور ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ میں بھارت سے مذاکرات کیے۔ جنرل احمد شریف چودھری کی دلیل کے مطابق تو یہ ایک شرمناک بات تھی۔
جنرل پرویز مشرف ’’کارگل کے ہیرو‘‘ تھے۔ انہوں نے کارگل ایجاد کیا تھا اور انہوں نے کارگل میں بھارت کے سیکڑوں فوجیوں کو پھنسا دیا تھا۔ مگر کارگل کا یہی ہیرو کچھ عرصے بعد بھارت سے مذاکرات کو بھیک مانگتا ہوا پایا گیا اور بالآخر ایک دن وہ آیا جب وہ آگرہ میں بھارت کے ساتھ ’’مذاکرات‘‘ کرتے ہوئے پائے گئے۔ جنرل احمد شریف چودھری کی دلیل اور اصول کے اعتبار سے یہ یقینا ایک شرمناک منظر تھا۔
جرنیلوں کی ’’بہادری‘‘ اور ’’جنگ پسندی‘‘ کا یہ واقعہ ہمیں ممتاز دانش ور اور جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر خورشید احمد نے خود سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ 1980ء کے اوائل میں خانہ کعبہ کے سائے میں جنرل ضیا الحق اور مقبوضہ کشمیر کے رہنمائوں کا ایک اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں جنرل ضیا الحق نے کشمیریوں سے کہا کہ اگر آپ اپنی تحریک کو مسلح بنا لیں اور اسے تحرّک کی بلند سطح پر لے آئیں تو پھر پاکستان مقبوضہ کشمیر میں فوج داخل کردے گا۔ خورشید صاحب کے بقول جب کشمیریوں نے اپنی تاریخ کے برعکس مسلح جدوجہد شروع کردی اور اسے تحرّک کی بلند سطح پر لے آئے تو انہوں نے جنرل ضیا الحق کو ان کا وعدہ یاد دلایا۔ اس کے جواب میں جنرل ضیا الحق نے فرمایا کہ ہم کشمیر کے لیے پاکستان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ اس کے برعکس جنرل ضیا الحق بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئے اور ان کے دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات کے 8 ادوار ہوئے۔ اور یہ واقعہ تو کل ہی کی بات ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا ’’خصوصی اسٹیٹس‘‘ ختم کیا تو پاکستان کے دو درجن سے زیادہ صحافیوں نے جنرل باجوہ سے کہا کہ پاکستان کو فوجی سطح پر کچھ کرنا چاہیے۔ جنرل باجوہ نے جو جواب دیا وہ ہم جیسے ’’لاعلم‘‘ فرد تک پہنچا تو بھارت تک بھی ضرور پہنچا ہوگا کہ جنرل باجوہ نے صحافیوں سے کہا کہ ہمارے پاس تو ٹینکوں میں پٹرول ڈالنے کے بھی پیسے نہیں۔ ہم بھارت سے جنگ نہیں کرسکتے۔ جنرل احمد شریف چودھری اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟۔
پاک امریکا تعلقات کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے ہمارے مطالبات نہ مانے تو ہم پاکستان کو پتھر کے دور میں داخل کردیں گے۔ اس کے جواب میں جنرل پرویز کو کہنا چاہیے تھا کہ ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں ہم بھی امریکا کو سبق سکھادیں گے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جنرل پرویز نے امریکا کی دھمکی پر کھڑے کھڑے سارا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ ہمیں یاد ہے کہ امریکا نے 2011ء میں سلالہ پوسٹ پر حملہ کرکے پاکستان کے دو درجن فوجیوں کو شہید کردیا۔ پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا مگر پاکستان نے کچھ دنوں کے لیے افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی سپلائی لائن کاٹ دی۔ کچھ دنوں کے بعد پاکستان امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ گیا اور بات آئی گئی ہوگئی۔ افسوس کہ اس موقع پر بھی جرنیلوں نے مذاکرات پر جنگ کو ترجیح نہیں دی۔
جرنیلوں کی ’’ایک تاریخ‘‘ تو یہ تھی۔ جرنیلوں کی ’’دوسری تاریخ‘‘ یہ ہے کہ وہ کسی اور کو کیا خود اپنی ہی کمزور قوم کو طاقت کے زور پر بار بار فتح کرتے رہتے ہیں۔ بنگالی قوم کا 56 فی صد تھے۔ چنانچہ انہیں پاک فوج کے اندر 56 فی صد کی سطح پر موجود ہونا چاہیے تھا مگر پاکستانی جرنیلوں نے 1947ء سے 1962ء تک ایک بنگالی کو بھی فوج میں داخل نہ ہونے دیا۔ پنجابی آبادی کا 25 فی صد تھے مگر وہ فوج میں 75 فی صد تھے۔ پشتون آبادی کا 5 فی صد تھے مگر وہ فوج کا 20 فی صد تھے۔ 1962ء کے بعد فوج میں بنگالیوں کو لینے کا عمل شروع ہوا مگر 1971ء میں جب پاکستان دولخت ہوا تو فوج میں بنگالیوں کی موجودگی 8 سے 10 فی صد تھی حالانکہ وہ آبادی کا 56 فی صد تھے۔ 1970ء میں بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے تو شیخ مجیب کی عوامی لیگ اکثریتی پارٹی بن کر ابھر آئی۔ چنانچہ اقتدار شیخ مجیب کو مل جانا چاہیے تھا مگر جنرل یحییٰ خان نے ایسا کرنے کے بجائے بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جرنیلوں کو ’’دوستوں‘‘ اور ’’اتحادیوں‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ جرنیلوں کو ’’دوستوں‘‘ اور ’’اتحادیوں‘‘ کی نہیں ’’ایجنٹوں‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ 1971ء کے بحران میں جرنیلوں نے البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو اپنا دوست اور اتحادی نہیں ایجنٹ سمجھا۔ ایسا نہ ہوتا تو جرنیل البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو مکتی باہنی کے رحم و کرم پر نہ چھوڑتے۔ مشرقی پاکستان میں بہاریوں کی آبادی نے پاک فوج کا ساتھ دیا مگر جرنیلوں نے انہیں بھی اپنا ’’دوست‘‘ اور ’’اتحادی‘‘ نہیں اپنا ’’ایجنٹ‘‘ سمجھا۔ جرنیل انہیں اپنا ’’دوست‘‘ اور ’’اتحادی‘‘ سمجھتے تو فوج بہاریوں کو کبھی تنہا نہ چھوڑتی اور بہاری آج بھی بنگلا دیش کے کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی نہ بسر کررہے ہوتے۔ آج جرنیل طالبان کی شکایت کررہے ہیں، طالبان بھی جرنیلوں کی ’’ایجاد‘‘ تھے۔ انہیں تسلیم کرانے کے لیے جرنیلوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے کہا تھا کہ یہ ’’ہمارے بچے‘‘ ہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ جرنیلوں نے طالبان کو بھی کبھی اپنا ’’دوست‘‘ اور ’’اتحادی‘‘ نہیں سمجھا۔ انہوں نے طالبان کو اپنا ’’ایجنٹ‘‘ سمجھا۔
طالبان کیا پاکستانی جرنیلوں نے گل بدین حکمت یار تک کو اپنا ’’دوست‘‘ اور ’’اتحادی‘‘ سمجھنے کے بجائے اپنا ’’ایجنٹ‘‘ سمجھا۔ چنانچہ تاریخ کے ایک خاص دور میں گلبدین اور پاکستان کے تعلقات بھی خراب رہے۔ بدقسمتی سے جرنیلوں کو پاکستانی سیاست تک میں ’’اتحادی‘‘ درکار نہیں ہوتے۔ انہیں ’’ایجنٹ‘‘ درکار ہوتے ہیں۔ کبھی بھٹو صاحب جنرل ایوب کے ایجنٹ تھے اور وہ جنرل ایوب کو ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ مگر پھر ایک وقت آیا کہ جنرل ضیا نے بھٹو کو جھوٹے مقدمے میں پھانسی پر لٹکا دیا۔ میاں نواز شریف بھی کبھی جرنیلوں کے ’’ایجنٹ‘‘ تھے۔ آج شہباز شریف اور آصف زرداری جنرل عاصم منیر کے ’’دوست‘‘ اور ’’اتحادی‘‘ نہیں ان کے ’’ایجنٹ‘‘ ہیں۔ چنانچہ ممکن ہے کہ آنے والے کل میں ان کے تعلقات بھی جرنیلوں سے خراب ہوجائیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بھارت کے ساتھ جنرل ضیا الحق میں بھارت کے بھی جرنیلوں پاکستان کو جرنیلوں کی مذاکرات کی سے مذاکرات پاکستان کے جرنیلوں نے جنرل ایوب چاہیے تھا فی صد تھے نے کہا کہ بھارت سے انہوں نے یہ ہے کہ فوج میں تھا کہ کے لیے سے کہا
پڑھیں:
دُکھ ہے ۔۔۔
حمیداللہ بھٹی
پاک افغان سرحد پر جو ہوا وہ دونوں کے لیے نقصان دہ ہے لیکن اِن جھڑپوں کا ذمہ دار پاکستان نہیں کیونکہ وہ تو مسلسل صدائے احتجاج بلندکررہا ہے کہ دہشت گردوں کو افغان سرزمین پر محفوظ اڈے حاصل ہیں اور افغان انتظامیہ دہشت گردوں کی سہولت کارہے ۔اِس بابت چین ،روس اور ایران کوبھی شکایات ہیں مگرطالبان نے شکایات کبھی رفع کرنے کی کوشش نہیں کی۔ محض سرزمین کے استعمال ہونے کی تردید اور دہشت گردوں سے روابط کے الزام کو جھٹلاتے ہیں حالانکہ اِس بارے ناقابلِ تردید شواہد پیش کیے جا چکے ۔
افغان وزیرِ خارجہ ملا امیر متقی بھارتی دورے پر ہیں جوخطے میں دہشت گردی کامنبع ہے۔ اپنے ہمسایہ ممالک کا اعتماد حاصل کرنے کی بجائے بھارت سے راہ و رسم بڑھانا ثابت کرتاہے کہ بھارت اور طالبان انتظامیہ کے اہداف میں خطے کاامن نہیں کچھ اور ہے ۔جتنی جلدی افغانستان فتح ہوتا ہے اس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ یہ ملک درجنوں بار تاراج ہوا روسی قبائل اِسے فتح کرتے رہے۔ تیمور نے بھی فتح کیا ازبک بھی قابض رہے۔ ایرانیوں نے کئی بار یہ ملک محکوم بنایا۔فارسی علاقے یا شمالی اتحادکی وجہ ایرانی قبضے ہیں ۔تاجکوں کابھی یہ ملک غلام رہا۔اشوکِ اعظم نے اِس ملک کا آدھے سے زیاد ہ حصہ اپنی سلطنت میں شامل رکھا ۔اُسی نے بامیان میں بدھ مت کا مجسمہ بنوایا جبکہ بقیہ ملک تاجک اور اُزبک حکومتوں کے تابع رہا ۔یہاں سکھوں نے بھی طویل عرصہ قبضہ کیے رکھااورحکومت کی۔ انگریزبھی قابض رہے ۔ امریکی بھی ماضی میں کئی علاقوں پر قابض رہے اور اپنے حمایتیوں کو پاسپورٹ بھی دیے 2021 میںجب امریکی جانے لگے تومایوس افغان شہری ملک سے نکلنے کے لیے جہازوں کے ساتھ دوڑتے دیکھے گئے۔ افغان شہری اپنا ضمیر اور عزت بیچنے میں بڑے فراخ دل ہیں اور ملک کی اکثریت محکومی میں جینے کی عادی اور طبعاََ اِتنے بے چین ہیں کہ آزادی ملے تو آپس میں ہی لڑنے لگتے ہیں ۔
طالبان کو طاقتور ہونے کا زعم ہے حالانکہ تہذیبی پیش قدمی سے انسان امن پسند ہواہے مگر طالبان آج بھی انگریز ،روس اور امریکہ کو شکست دینے کی جھوٹی باتیں کرتے ہیں ۔دراصل انگریزوںکو ہندوستان کے وہی علاقے پسند رہے جہاں اناج و دیگر ضروریاتِ زندگی وافرتھیں جہاںحکومت کرنا دشوارہوئی وہاں کسی معتمدخاص کو عنانِ اقتدار سونپ کر دولت وصول کرتے یاپھر لڑائیاں لڑ کر باجگزاربنالیتے مگر افغان علاقہ پتھریلا اور دشوار گزار ہونے کی وجہ سے اُن کے لیے غیر اہم تھاکیونکہ دولت تو ایک طرف زرعی جناس بھی محدود تھیں۔ تقسیمِ ہند سے ہندوئوں کو بھارت اورمسلمانوں کو پاکستان مل گیا۔ ہمسائیگی کے ناطے بہتر تو یہ تھاکہ نوزائیدہ مملکت پاکستان سے تعلقات استوار کیے جاتے لیکن افغانوں کی لالچی سرشت تبدیل نہ ہوسکی ۔آج بھی دولت کا حصول ہی اُن کی اولیں ترجیح ہے ۔
سرد جنگ کے ایام میں معدنیات کے وسیع ذخائر کی بدولت افغانستان میں دنیا کی دلچسپی بڑھی ۔روس نے افغانستان کے ذریعے گرم پانیوں تک رسائی کامنصوبہ بنایا اور کابل حکومتیں توڑنے اور بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ضمیر فروش افغانوں نے روس نواز صدر تک منتخب کیے آخرکارروس نے براہ راست حملہ کرکے قبضہ کر لیا اِس قبضے کے خلاف جب کوئی بولنے کی جرات نہیں کررہا تھاتوپاکستان نے فراخ دلی سے اپنے افغان بھائیوں کے لیے نہ صرف سرحدیں کھول دیں بلکہ آزادی کی جنگ لڑنے والوں سے تعاون کیااور اِس فراخ دلی کے عوض دسمبر 1979 سے لیکرفروری 1989تک کے عشرے میں منشیات اور کلاشنکوف کلچر کا سامنا کیا اور اسی لاکھ مہاجرین کی مہمان نوازی کی روسی افواج نے قبضے کے دوران افغان خواتین کی بے دریغ عصمت دری سے ایک نئی نسل پیداکی ۔
نو گیارہ واقعات کوجواز بناکر امریکہ نے نیٹو افواج کے ساتھ کابل پر چڑھائی کردی اور2002سے لیکر2021تک بمباری سے لاکھوں افغانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ یوں روسی حملے کی وجہ سے آنے والے مہاجرین ا بھی واپس بھی نہیں گئے تھے کہ دوبارہ بڑی تعداد میں اور افغان شہری پاکستان آنے لگے۔ اِس دوران افغان خواتین قابض افواج کے بُرے سلوک سے ملک کے اندراور دنیا بھرکے بازاروں میں رسوا ہوتیں رہیں لیکن پاکستان میں افغان شہریوں کو باعزت زندگی گزارنے کے ساتھ کاروبار اور رشتہ داریاں کرنے کی آزادی رہی۔ چالیس لاکھ سے زائدافغان ابھی تک پاکستان میں ہیں لیکن بے لوث مہمان نوازی کا صلہ یہ ہے کہ بھارتی ایما پرافغان انتظامیہ ٹی ٹی پی،داعش اور بی ایل اے جیسے دہشت گردوں کی سہولت کار ہے جوپاکستان کے دوصوبوں کے شہریوں کی زندگی اجیران بنا رہے اور پاک فوج کوبھی نشانہ بناتے ہیں۔ یہ گروہ بھارت سے پیسے لیکرعلیحدگی پسندوں کو افرادی قوت اور ہتھیار دیتے ہیں ۔افغان انتظامیہ بھی پیسے لیکر دہشت گردوں کی سرپرستی کرتی اور پاکستان کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنے کے بھارت کو مواقع فراہم کرتی ہے۔
ہر دورمیں افغانوں کاحشر نشر ہوا۔روس اور امریکہ نے افغانوں کو شہر اور دیہات چھوڑ کر جنگلوں اور ویرانوں میں رہنے پر مجبورکیے رکھا جس طرح روسی فواج نے نئی افغان نسل پیدا کی۔ امریکی قیادت میں قابض افواج بھی ایسے مکروہ فعل کی مرتکب رہیں۔ افغان اپنی طاقت کے قصے سناتے ہوئے شایدبیرونی حملہ آوروں اور عالمی طاقتوں کے قبضے بھول جاتے ہیں ۔روس نے ایک عشرہ جبکہ امریکہ نے دوعشرے قیام میں افغانوں کا ڈی این اے ہی بدل دیا ہے۔ یہ عجیب طاقتورلوگ ہیں کہ بیرونی حملہ آور جب چاہتے ہیں افغانستان پر قبضہ کر لیتے ہیں تو کیا بہتر نہیں کہ افغان اپنی طاقت کے قصے سنانے کی بجائے شرمناک ماضی فراموش کردیں ۔ویسے بھی اگر پاکستان بڑے بھائی کا کردار ادا نہ کرتاتو افغانستان شایدآج بھی محکوم ہوتا مگرطالبان یہ احسان تسلیم نہیں کرتے جسے احسان فراموشی اور نمک حرامی کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ افغان قیادت ڈھٹائی سے کہتی ہے کہ بھارت سے تعلقات بڑھا نے کی وجہ یہ ہے کہ اُس کاوفد دورے پر آتاہے توبریف کیس میں نوٹ لاتاہے جبکہ پاکستانی وفددورے پر آئے تو بریف کیس میں وعدے اور نصیحتیں ہوتی ہیں۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا یہ طرزِ عمل اسلامی یا اخلاقی لحاظ سے درست ہے؟طالبان خودکو امام مہدی کے سپاہی کہتے ہیں لیکن ہمسایہ اسلامی ملک پر بھارت کو ترجیح دینے اور مسلم اکثریتی علاقے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کو جائز کہنے کا مطلب تویہ ہے کہ اِن کا ایمان پیسہ اور امام مودی ہے۔ تہذیبی ارتقا بڑی تبدیلیاں لیکر آیا ہے مگرطالبان کودیکھ کر تو لگتاہے تہذیبی ارتقا انسانی جبلت پر اثرا انداز نہیں ہو سکا کیونکہ وہ آج بھی خیر وشر میں فرق کرنے سے قاصر ہیں۔ شاید تخلیقی ذہن سے محروم ہیں، اسی لیے دنیا سے الگ تھلگ ہیں ۔رواں ماہ گیارہ اور بارہ اکتوبر کی شب پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز کارروائی سے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ قابلِ اعتبار نہیں اور پیسے کی ہوس میں بدنامی کی پاتال میں گرنا بھی عزیزہے جس پر ہم جیسے حُسن ظن والوں کو بہت دُکھ ہے۔
٭٭٭٭