احتجاج کی آڑمیں کسی کوغیرقانونی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائےگی،سی سی پی او
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
لاہور پولیس نے ہڑتال کی کال کے پیش نظر امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ نے واضح وارننگ دی ہے کہ شرپسند عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، اور احتجاج کی آڑ میں کسی کو بھی غیر قانونی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ شہریوں کی جان، مال اور املاک کا تحفظ لاہور پولیس کی اولین ترجیح ہے، اور کسی بھی صورت میں قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
مکہ مکرمہ میں تاریخی ’’کنگ سلمان گیٹ‘‘ منصوبے کا اعلان
سی سی پی او نے واضح کیا کہ آج تمام مارکیٹس اور کاروباری مراکز معمول کے مطابق کھلے رہیں گے اور اگر کسی نے سڑکیں، دکانیں یا ٹرانسپورٹ بند کروانے کی کوشش کی تو فوری ایکشن لیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نفرت انگیز تقاریر، غیر قانونی مواد اور لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال پر قانون حرکت میں آئے گا، اور ایسے عناصر قانون کی آہنی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔
ذریعہ: City 42
پڑھیں:
جیل میں ملاقات کی غیر قانونی ڈیمانڈپوری نہیں ہوگی : عطاتارڑ
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف اور شہید بے نظیر بھٹو نے ملک کے لئے میثاق جمہوریت کیا جس کے بعد سیاسی عمل بحال ہوا۔ ہم نے پی ٹی آئی دور کی تلخیاں برداشت کی ہیں۔ جیل میں ملاقات ملکی اداروں کے خلاف سازشوں کے لئے نہیں قانونی امور کے لئے ہوتی ہے۔ جیل میں ملاقات کا مینوئل موجود ہے۔ غیر قانونی ڈیمانڈ کبھی پوری نہیں ہوگی۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان کی تحقیق اچھی ہوتی ہے، ان کی تقاریر سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے کہ پارلیمانی عمل کو کیسے آگے بڑھانا ہے۔ ابھی بھی انہوں نے پاکستان کا جھنڈا اپنے سینے پر لگا رکھا ہے، ان کی بہت قدر ہے، مگر یہ سلیکٹو میموری کیوں ہے؟۔ علی محمد خان نے جیل میں ملاقات کا ذکر کیا مگر یہ کیوں نہیں بتایا کہ ان کے لیڈر بیرون ملک کھڑے ہو کر کہتے تھے کہ ’’میں ان کا اے سی اتار دوں گا، میں نے شاہد خاقان عباسی کو جیل میں ڈالا۔‘‘ عطاء اللہ تارڑ نے علی محمد خان کے پڑھے گئے شعر کے جواب میں شعر پڑھا ’’یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا، یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرنے کی روایت بھی ان کے دور میں ڈالی گئی۔ کس نے کہا تھا کہ فلاں کی بہن، بیٹی کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دو؟۔ کس نے صبح شام گرفتاریوں کی فہرستیں طلب کیں؟۔ یہ وہ لوگ تھے جو بار بار جیل انتظامیہ سے پوچھتے تھے کہ کہیں کھانا تو نہیں مل گیا، کوئی دوائی تو فراہم نہیں ہو گئی۔ آج بدنام زمانہ شہزاد اکبر یہاں موجود نہیں ہے۔ ہم اس وقت بھی کہتے تھے کہ ایسے افراد نے سیاسی ماحول میں شدید تلخیاں پیدا کی ہیں اور یہی لوگ سب سے پہلے ملک سے فرار ہوں گے جبکہ سختیاں دوسروں کو برداشت کرنا پڑیں گی اور آج یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے۔ جب یہ لوگ تلخیوں کو ہوا دے رہے تھے اور پارلیمنٹ کے ادارے پر حملہ آور ہوئے تو اس دوران اپوزیشن کی پوری صف جیلوں میں بند تھی جبکہ وزیراعظم ہائوس کے اندر روزانہ اجلاس ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جیل میں ملاقات کا مقصد قانونی مشاورت ہوتا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ افواج پاکستان کے خلاف بات کرنے والوں کو تھپکی دی جائے، نہ ہی اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ملکی اداروں کو بھارت کے ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر بدنام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جیل میں ملاقات اس لئے نہیں ہوتی کہ شہداء کی تضحیک کی جائے یا سوشل میڈیا پر فوج اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف مہم چلائی جائے۔