عطا تارڑ کی ٹی ایل پی کو وارننگ: ملکی حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے حالیہ بیانات اور ممکنہ احتجاجی سرگرمیوں پر سخت ردعمل دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ریاست کسی کو بھی ملک کے حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عطا تارڑ نے کہا کہ انتشار، شر انگیزی اور سڑکوں پر طاقت کا مظاہرہ کرکے ریاست کو بلیک میل کرنے کی روش اب برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کسی گروہ نے امن و امان کو چیلنج کرنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
عطا تارڑ نے کہا کہ موجودہ حالات میں ملک کو اتحاد، یکجہتی اور استحکام کی ضرورت ہے، نہ کہ نفرت، افراتفری اور تصادم کی سیاست کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے عناصر جو مذہب یا عقیدے کے نام پر عوام کو گمراہ کر کے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کے عزائم کو ناکام بنایا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ کو ہر حال میں یقینی بنائے گی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت دے دی گئی ہے کہ وہ کسی بھی ممکنہ قانون شکنی یا تشدد کے خلاف فوری اور فیصلہ کن کارروائی کریں۔
وفاقی وزیر نے واضح کیا کہ ریاستی رٹ پر سمجھوتہ ممکن نہیں، اور کوئی گروہ خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے۔ انہوں نے کہا کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے، مگر ملک کی سلامتی اور شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
عطا تارڑ نے وکلا، میڈیا اور سول سوسائٹی سے بھی اپیل کی کہ وہ اس معاملے میں ریاستی مؤقف کو سپورٹ کریں تاکہ پاکستان کو انتشار کی سیاست سے محفوظ رکھا جا سکے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: عطا تارڑ تارڑ نے کرنے کی کہا کہ
پڑھیں:
پاک افغان کشیدگی میں کمی کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہوں، اس کے لیے زمین ہموار کی جائے : مولانا فضل الرحمان
جمعیتِ علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے افغان اور پاکستانی حکومتوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان پیدا شدہ تنازع کے حل میں وہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ اس کے لیے زمینی راہ ہموار کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمان
کنونشن سینٹر اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ گرم جوشی کے ماحول میں بات چیت سے نتائج ممکنہ طور پر مثبت نہیں آئیں گے، اس لیے ضروری ہے کہ ابتدا میں کشیدگی کم کی جائے تاکہ باہمی رابطے اور گفت و شنید سے مسائل حل کیے جائیں۔
انہوں نے زور دیا کہ اب زبان بندی ہونی چاہیے، ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا اور سوشل میڈیا پر الزامات بازی روک دی جائے تو باہمی رابطوں کے ذریعے مسائل کے حل کا راستہ نکل آئے گا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وہ کوشش کریں گے کہ دونوں ممالک جلد رابطے میں آئیں اور بات چیت کے ذریعے شکایات دور کرکے مستقل دوست پڑوسیوں کی طرح تعلقات استوار کیے جائیں۔
عمران خان کے بعد مولانا فضل الرحمان نے بھی افغانستان اور پاکستان کشیدگی کو کم کرنے میں کردار ادا کرنے کی آفر کردی
عمران خان کی شرط: پے رول پر رہائی
مولانا فضل الرحمان کی شرط: ماحولpic.twitter.com/mK4Omp2JIh
— Kamran Ali (@akamran111) October 16, 2025
افغان وزیر خارجہ کے دورۂ بھارت اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے پس منظر کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ اس پورے معاملے کے پیچھے متعدد اسباب اور دعوے موجود ہیں، تاہم بنیادی نقطہ یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے لیے کتنے ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بھارت کی حالیہ جارحیت کے تناظر میں کیا مغربی محاذ کھولنا ریاستی مفاد میں ہے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے دفاع پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے، مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں اپنے مفادات میں پڑوسی ملکوں کے استحکام اور داخلی امن کو اہم سمجھنا ہوگا اور اسی دائرے میں حکمتِ عملی اپنانی چاہیے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ افغانستان میں نئی حکومت ابھی پوری طرح بالغ النظر نہیں ہوئی اور وہاں کے ادارے عالمی معیارات تک پہنچنے میں وقت لیں گے؛ انٹیلی جنس نیٹ ورک ابتدائی مراحل میں ہے۔
افغ انستان اور پاکستان سے کہنا چاہتا ہوں، ہم صرف جنگ بندی کے لیے نہیں زبان بندی کے لیے بھی کہہ رہے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف بولنا روکو ۔۔۔
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان #MuftiMehmoodLegacy pic.twitter.com/qAJQ2i3hii
— Muhammad Saleem sulemani (@iSaleem_khan34) October 16, 2025
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سیاسی، سفارتی اور دفاعی صلاحیتوں کے حوالے سے دنیا میں اہم مقام رکھتا ہے، اس لیے انہیں مشورہ دیں گے کہ اس معاملے میں شدید احتیاط، تحمل اور سنجیدگی سے کام لیا جائے۔ مولانا فضل الرحمان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جب سرحدی کشیدگی برقرار اور بھارت کی دھمکیاں موجود ہیں تو ہمیں اپنے پڑوسی کو بھارت کے قریب دھکیلنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
اختتامی طور پر انہوں نے کہا کہ امیر خان متقی کے دورے پر اعتراضات ہو سکتے ہیں، تاہم ایسے مواقع ہمیں دشمن کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کرنے چاہئیں بلکہ خارجہ پالیسی میں حکمتِ عملی اپنانا ضروری ہے تاکہ پڑوسی ملک پاکستان کے قریب رہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغانستان پاکستان جمعیت علمائے اسلام جنگ بندی مولانا فضل الرحمان