بھارت میں خواتین کی مجبوری نے جسم فروشی کو روزگار بنادیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
بھارت کی تیز رفتار ترقی اور چمکتی سڑکوں کے پیچھے ایک ایسی دنیا چھپی ہے جہاں غربت، بھوک اور استحصال نے لاکھوں عورتوں کی زندگی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ یہ وہ عورتیں ہیں جو کبھی کسی فیکٹری میں کام کرتی تھیں، کسی دفتر میں صفائی کرتیں یا کسی دکان پر کپڑے سیتیں، مگر حالات نے انہیں اس مقام پر لا کھڑا کیا جہاں ’جسم‘ ہی ان کا ذریعہ معاش بن گیا۔
حال ہی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، کرناٹک، آندھرا پردیش، مہاراشٹر، دہلی اور تلنگانہ وہ ریاستیں ہیں جہاں جسم فروشی کرنے والی خواتین کی سب سے زیادہ تعداد پائی جاتی ہے۔ پروگراممیٹک میپنگ اینڈ پاپولیشن سائز ایسٹی میشن (PMPSE) رپورٹ کے مطابق، کرناٹک 15.
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اروناچل پردیش میں فی ہزار بالغ خواتین میں جسم فروشوں کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 17.24 ہے جبکہ دہلی 15.46 کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ بھارت دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں HIV کے متاثرین کی دوسری سب سے بڑی آبادی پائی جاتی ہے اور جسم فروشی کرنے والی خواتین، ہم جنس پرست مرد، خواجہ سرا اور منشیات کے استعمال کنندہ افراد اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے طبقات میں شمار کیے گئے ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارتی پولیس پر عدم اعتماد، اداکارہ نے گن لائسنس کے لیے اپلائی کردیا
یہ سب اعداد و شمار ایک ایسے بھارت کی تصویر پیش کرتے ہیں جہاں ترقی کے شور میں انسانیت کی بنیادی ضروریات دب گئی ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کی ماہر قانون پرابھا کوتیسوران نے بی بی سی ریڈیو فور کے پروگرام Thinking Allowed میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت کی کئی غریب خواتین کے نزدیک جنسی تعلق کوئی جذباتی عمل نہیں بلکہ محض ’کام‘ ہوتا ہے۔ ان کے بقول ’ہندی میں جنسی تعلق کے لیے جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ دراصل ’کام‘ ہی ہے۔ ان خواتین کے نزدیک یہ ایک فرض یا محنت جیسا عمل ہے یعنی جنس اور مزدوری کے درمیان لکیر بہت دھندلی ہوچکی ہے‘۔
کوتیسوران نے اپنی تحقیق میں سینکڑوں خواتین سے گفتگو کی جن میں سے ایک شادی شدہ عورت کی کہانی نے خاص طور پر توجہ حاصل کی۔ اس عورت کا شوہر ایک فرنیچر پینٹر تھا جس کی آمدنی غیر یقینی تھی۔ پہلے وہ خود ایک کپڑوں کی دکان میں کام کرتی تھی، مگر وہاں جنسی ہراسانی کا شکار ہونے کے بعد اس نے نوکری چھوڑ دی اور خفیہ طور پر جسم فروشی شروع کردی تاکہ گھر کا خرچ چل سکے۔
کوتیسوران کے مطابق، ’وہ عورت اپنے شوہر سے بے پناہ محبت کرتی تھی، اس نے کام اور گھر کے لیے الگ الگ ساڑھیاں رکھی ہوئی تھیں، اور اسے اس بات پر فخر تھا کہ وہ کسی رشتہ دار سے مدد لیے بغیر گھر کا خرچ خود چلا رہی ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کا شوہر 12 گھنٹے کام کرکے 100 روپے کماتا ہے جبکہ وہ محض 5 منٹ میں 200 روپے کما لیتی ہے‘۔
غریبی نے ان خواتین کو وہ راستہ دکھایا جو اخلاق اور وقار دونوں کو پامال کرتا ہے۔ جب کھانے کے لیے پیسے نہ ہوں، جب بچوں کو اسکول تک بھیجنے کے لیے روپیہ نہ ملے اور جب روزگار کے فریب سے نکلنے کی کوئی سہولت موجود نہ ہو، تو چند ایک ہی فیصلے بچتے ہیں اور ان میں سے ایک وہ ہے جو انسانیت کے بنیادی معیار کو چیلنج کرتا ہے یعنی اپنا جسم بیچنا۔
مزید پڑھیں: بھارتی فوج میں خودکشیوں کا تشویشناک اضافہ، ہر تیسرے دن ایک فوجی زندگی کا خاتمہ کر رہا ہے
گھروں کے اندر وہ کہانیاں ہیں جنہیں شہر کی روشن دکانیں کبھی اجاگر نہیں کرتیں۔ شوہر کی بگڑی کمائی، بے روزگاری، کسانوں کے قرض، یا صنعتی ڈھانچوں سے بے دخل ہونے کے بعد بہت سی عورتیں خود کو ایسی صورت حال میں پاتی ہیں جہاں گھر کا چولہا ہی مرکزِ فیصلہ بن جاتا ہے۔ ایک طرف بچوں کی بھوک، دوسری طرف معاشرتی بدنامی، یہ وہ انتخاب ہیں جسے کوئی ماں کبھی نہیں چاہتی، مگر مجبور حالات اسے وہاں پہنچا دیتے ہیں۔
بنیادی شہری سہولتوں جیسے صاف پانی، مناسب رہائش، بجلی اور صحتِ عامہ کی سہولیات کی عدم دستیابی نے اس مظلوم طبقے کی حالت بدتر کردی ہے۔ کئی بستیوں اور ریڈ لائٹ علاقوں میں خواتین ایک کمرے میں کئی افراد کے ساتھ رہتی ہیں، بیت الخلا مشترکہ، صفائی نہ ہونے کے برابر اور بیماری کا خطرہ ہر دم سر اٹھائے رہتا ہے۔ سیاسی وعدے انتخابات تک محدود رہ جاتے ہیں یعنی عملی اصلاحات اور مستقل بجٹ کے بغیر یہ عورتیں بدلنے والی تصویر کا حصہ نہیں بن سکتیں۔
جب ماں کو اپنی بقا کے لیے یہ قدم اٹھانا پڑے تو بچوں کا مستقبل بھی دائمی سیلاب میں بہہ جاتا ہے۔ کئی مرتبہ بچوں کو اسکول سے دور رکھا جاتا ہے، یا انہیں کام کے دائرے میں شامل کردیا جاتا ہے، جس سے غیر متوقع غربت ایک نسل در نسل مسئلہ بن جاتی ہے۔ بچے تعلیم، حفاظت اور خوشگوار بچپن سے محروم رہتے ہیں اور معاشرے کی ترقی کے بنیادی ستون کمزور پڑجاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارت کا 65 ہزار 400 کروڑ روپے کا فضائی منصوبہ، پاکستان سے شکست کا داغ دھونے کی کوشش
بھارت یوں تو دنیا کے سامنے خود کو ایک ابھرتی ہوئی معاشی طاقت، خلائی مہمات چلانے والا اور ترقی یافتہ ملک کہلوانے کے لیے پاپڑ بیل رہا ہے، مگر اپنی ہی سرزمین پر کروڑوں لوگ آج بھی بھوک اور افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں۔ چمکتی سڑکوں، بلند عمارتوں اور مصنوعی ترقی کے پیچھے وہ اندھیری حقیقت چھپی ہے جہاں ایک ماں صرف اس لیے اپنے جسم کی بولی لگوانے پر مجبور ہے کہ اس کے بچوں کو 2 وقت کی روٹی مل سکے۔ یہ وہ چہرہ ہے جسے بھارت دنیا سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے، ایک ایسا معاشرہ جہاں عورت اپنے پیٹ کے لیے لڑ رہی ہے، مگر اس کی مدد کے لیے کوئی ہاتھ آگے نہیں بڑھاتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کے ساتھ جاتا ہے کے لیے
پڑھیں:
کراچی، کاٹھور پل اور نیٹی جیٹی پل پر خوفناک ٹریفک حادثات، دو نوجوان جاں بحق، دو زخمی
کراچی:شہر قائد کے دو مختلف مقامات، کاٹھور پل اور نیٹی جیٹی پل پر پیش آنے والے افسوسناک ٹریفک حادثات میں دو نوجوان جاں بحق جبکہ دو شدید زخمی ہو گئے۔
تفصیلات کے مطابق پہلا حادثہ گڈاپ سٹی کے علاقے کاٹھور انصاری پل کے قریب پیش آیا، جہاں موٹرسائیکل سوار 30 سالہ انور ولد امام بخش ایک ڈمپر کی ٹکر سے جاں بحق ہو گیا۔
متوفی ملیر میمن گوٹھ کا رہائشی اور موٹرسائیکل مکینک تھا، جو واقعے کے وقت اپنی دکان بند کر کے گھر جا رہا تھا۔
ایدھی ایمبولینس کے ذریعے انور کی لاش سپرہائی وے پر واقع بقائی ٹول پلازہ اسپتال منتقل کی گئی۔
ایس ایچ او گڈاپ سٹی انسپکٹر سرفراز کے مطابق تحقیقات جاری ہیں کہ متوفی ڈمپر کی ٹکر سے جاں بحق ہوا یا موٹرسائیکل سلپ ہونے کے باعث حادثہ پیش آیا۔
حادثے کے بعد ڈمپر ڈرائیور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
دوسرا حادثہ جیکسن تھانے کی حدود میں کیماڑی کے نیٹی جیٹی پل کے قریب پیش آیا، جہاں نامعلوم گاڑی نے دو موٹرسائیکلوں کو ٹکر مار دی۔
حادثے میں ایک نوجوان، 17 سالہ عبداللہ موقع پر جاں بحق ہو گیا، جبکہ دو دیگر نوجوان، 19 سالہ زوہیب اور 20 سالہ امان اللہ زخمی ہو گئے۔
جاں بحق اور زخمیوں کو چھیپا ایمبولینسوں کے ذریعے سول اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔