Islam Times:
2025-10-20@22:30:42 GMT

ایران جوہری معاہدہ (JCPOA) ایک خلاصہ

اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT

ایران جوہری معاہدہ (JCPOA) ایک خلاصہ

اسلام ٹائمز: بارہ روزہ جنگ کے دوران امریکہ کے ایران کے ایٹمی پلانٹ نطنز اور فردو پر حملوں کو دیکھا جائے تو واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ برجام معاہدہ ایران کے ایٹمی پلانٹ کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ برجام معاہدے کی شرائط تھیں کہ افزودگی نطنز میں ہوگی، فردو میں کام معطل کر دیا جائے گا، عالمی ایٹمی ایجنسی ان سب امور کی مسلسل نگرانی کر رہی تھی۔ امریکا اور اسرائیل کے پاس ایران کے ایٹمی پلانٹ اور سائنسدانوں کے حوالے سے درست معلومات تھیں، جو عالمی ایٹمی ایجنسی نے نگرانی کے دوران جمع کیں۔ تحریر: سید اسد عباس

JCPOA جسے فارسی میں برجام بھی کہا جاتا ہے، ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے میں ایران پر عائد تجارتی اور اقتصادی پابندیوں میں کمی کا  معاہدہ تھا، جو 14 جولائی 2015ء کو ویانا میں ایران اور P5+1 ممالک (اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین چین، فرانس، روس، برطانیہ، امریکہ اور جرمنی) کے درمیان یورپی یونین کے ساتھ مل کر طے پایا۔ معاہدے کی باقاعدہ بات چیت کا آغاز نومبر 2013ء میں ایران اور P5+1 ممالک کے درمیان ایک عبوری معاہدے، جوائنٹ پلان آف ایکشن پر دستخط سے ہوا۔ اگلے 20 مہینوں تک مذاکرات جاری رہے، جس کے نتیجے میں اپریل 2015ء میں ایران جوہری معاہدے کا فریم ورک طے پایا اور بالآخر JCPOA اور عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ ایک روڈ میپ معاہدہ ہوا۔ برجام، عالمی ایٹمی ایجنسی کے روڈ میپ نیز ایران کے عمل درآمد کے آغاز کی توثیق کے بعد جنوری 2016ء کو نافذ ہوا۔ JCPOA کے تحت، ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو نمایاں طور پر محدود کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، تاکہ ہتھیاروں کے درجے کا یورینیم یا پلوٹونیم تیار کرنے کی صلاحیت کو کم کیا جا سکے۔

ایران نے اس معاہدے میں جو پابندیاں قبول کیں، درج ذیل تھیں: ایران 15 سال کی مدت میں اپنے کم افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو 10,000کلو گرام سے 300 کلو گرام تک کم کرے گا۔ افزودگی کی سطح کو 3.

67 فیصد تک محدود کیا جائے گا، 5 فیصد اور 20 فیصد کے درمیان افزودہ شدہ یورینیم کو پگھلا دیا جائے گا، بیچا جائے گا یا تہران ریسرچ ری ایکٹر کے لیے ایندھن کی پلیٹوں میں تبدیل کیا جائے گا۔ معاہدے کے مطابق 10 سال کی مدت میں، ایران اپنے فعال سینٹری فیوجز کو 6,104 تک کم کرے گا، جن میں سے صرف 5,060 کو یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت ہوگی۔ افزودگی صرف نطنز پلانٹ تک محدود ہوگی اور صرف ایران کے پرانے اور کم کارگر IR-1 سینٹری فیوجز استعمال کیے جائیں گے۔ جدید سینٹری فیوجز کو گوداموں میں محفوظ کیا جائے گا اور IAEA کی نگرانی میں رکھا جائے گا۔ اراک ہیوی واٹر ریسرچ ری ایکٹر کو جدید بنایا جائے گا، تاکہ یہ 20 میگا واٹ تک محدود رہے، جس سے پلوٹونیم کی پیداوار کم ہو اور ہتھیاروں کے درجے کا پلوٹونیم حاصل نہ ہوسکے۔ استعمال شدہ ایندھن ملک سے باہر بھیجا جائے گا۔ فردو پلانٹ 15 سال تک یورینیم کی تحقیق اور افزودگی روک دے گا۔ اسے جوہری فزکس اور ٹیکنالوجی سینٹر میں تبدیل کیا جائے گا، جہاں چھ میں سے صرف دو سینٹری فیوجز مستحکم ریڈیو آئسوٹوپس کی پیداوار کے لیے استعمال ہوں گے۔

ایران نے معاہدے کے مطابق اپنے جوہری ایندھن سے متعلق سرگرمیوں کے لیے IAEA کے زیادہ سخت نگرانی کو قبول کیا۔ IAEA کو نطنز اور فردو جیسی جوہری تنصیبات تک 24 گھنٹے رسائی اور مسلسل نگرانی حاصل ہوئی۔ ایک جامع معائنہ نظام لاگو کیا گیا، جس میں ایڈیشنل پروٹوکول کا عارضی نفاذ شامل تھا۔ معاہدے کے مطابق IAEA کو ایران کی پوری جوہری سپلائی چین کی نگرانی کا حق حاصل تھا۔ ان وعدوں اور ان پر عمل کے بدلے میں، ایران کو اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکہ کی جانب سے عائد ایٹمی پابندیوں سے ریلیف ملنا تھا۔ ریلیف کے نتیجے میں ایران کو بیرون ملک منجمد اپنے تقریباً 100 بلین ڈالر کے اثاثے حاصل کرنے کا موقع ملا، تاہم امریکہ کی غیر جوہری پابندیاں جیسے میزائل پروگرام، دہشت گرد گروہوں کی حمایت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عائد پابندیاں برقرار رہیں، جس سے ریلیف کا اقتصادی اثر محدود ہوا۔

اگر دیکھا جائے تو برجام معاہدہ ایٹمی عدمِ پھیلاؤ کے معاملات کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ تھا۔ یہ معاہدہ  159 صفحات پر مشتمل تھا، جس میں پانچ ضمیمے شامل تھے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلی بار کسی ترقی پذیر ملک کے جوہری افزودگی پروگرام کو تسلیم کیا اور ایک قرارداد (2231) کے فریم ورک کے اندر کثیر القومی معاہدے کی حمایت کی۔ معاہدے میں "اسنیپ بیک" طریقہ کار بھی شامل تھا، جس کے تحت اگر ایران معاہدے کی نمایاں طور پر خلاف ورزی کرتا ہے تو P5+1 ممالک میں سے کوئی بھی یکطرفہ طور پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کو خودکار طور پر دوبارہ نافذ کرسکتا ہے۔ 2018ء ٹرمپ کے پہلے دور اقتدار میں امریکہ یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکل گیا۔ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اگرچہ ایران حکومت کی جانب سے معاہدے میں قبول کردہ پابندیوں سے اختلاف رکھتے تھے، تاہم امریکا کے انخلاء کے بعد انھوں نے یورپ کو JCPOA کو جاری رکھنے کے لیے سات شرائط پیش کیں۔

ان میں سب سے اہم یہ تھی کہ یورپی طاقتیں ایرانی بینکوں کے ساتھ کاروباری تعلقات کو برقرار رکھنے اور ایرانی تیل کی خریداری کے لیے اقدامات کریں۔ اسی طرح ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور علاقائی سرگرمیوں کے بارے میں کوئی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی۔ یورپ نے  برجام معاہدے کو بچانے یا امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے، 7 اگست 2018ء کو "بلاکنگ اسٹیٹیوٹ" نافذ کیا، تاکہ ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک کو امریکی پابندیوں سے بچایا جا سکے، تاہم امریکی پابندیاں نافذ ہوئیں اور ایران کو وہ اقتصادی و تجارتی فوائد حاصل نہ ہوسکے جو کہ برجام معاہدے کے تحت طے پائے تھے۔ جواب میں ایران نے دوسرے ممالک کو اضافی افزودہ یورینیم اور ہیوی واٹر کی فروخت روک دی اور دھمکی دی کہ اگر دیگر فریق اسے JCPOA کے اقتصادی فوائد سے مستفید ہونے کی اجازت نہیں دیتے تو وہ 3.67 فیصد سے زیادہ افزودگی دوبارہ شروع کر دے گا۔ برجام معاہدے میں درج اقتصادی فوائد کے حصول میں رکاوٹوں اور مشکلات کے سبب یکم جولائی 2019ء کو، ایران نے اعلان کیا کہ اس نے کم افزودہ یورینیم کے ذخیرے کی حد کو توڑ دیا ہے، جس کی IAEA نے تصدیق کی۔

5 نومبر 2019ء کو ایران نے فردو ایٹمی پلانٹ میں 5 فیصد تک یورینیم کی افزودگی کا اعلان ان الفاظ میں کیا کہ اس کے پاس پہلے ہی 20 فیصد تک افزودگی کی صلاحیت موجود ہے۔ 5 جنوری 2020ء کو، ایران نے اعلان کیا کہ وہ مزید معاہدے کی حدود پر عمل نہیں کرے گا، لیکن IAEA کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ بائیڈن دور اقتدار میں ایران اور امریکا میں مختلف ذرائع سے برجام کو دوبارہ نافذ کرنے کے حوالے سے مذاکرات ہوتے رہے، ایران کی پارلیمان نے بھی سابق صدر ایران رئیسی کو برجام معاہدہ کے دوبارہ نفاذ پر عمل درآمد کرنے کا کہا، تاہم ایسا نہ ہوسکا۔ برجام معاہدہ دس برس کی مدت کے لیے تھا، اس کے اختتام کی تاریخ 18 اکتوبر 2025ء مقرر تھی۔ اس روز سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے خاتمے کا دن تھا، یعنی اب کوئی ملک اسنیپ بیک یا یکطرفہ پابندیاں از سر نو لاگو نہیں کرسکتا تھا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یورپی ٹرائکا یعنی برطانیہ، جرمنی اور فرانس پہلے ہی اسنیپ بیک کے لیے درخواست کرچکے تھے۔ امید تو یہی ہے کہ ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ سے لاگو کر دی جائیں گی۔ فروری 2025ء میں سپریم لیڈر ایران آیت اللہ خامنہ ای نے جوہری معاہدے (JCPOA) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی مذاکراتی ٹیم نے ضرورت سے زیادہ نرمی دکھائی، جبکہ امریکہ نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے اور آخرکار معاہدے سے نکل گیا۔ ان کے مطابق JCPOA نے ایران پر سنیپ بیک کی صورت میں خطرے کی تلوار کو لٹکائے رکھا۔ سپریم لیڈر نے کہا کہ ایسی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا نہ دانائی ہے، نہ عقلمندی، نہ ہی باعث عزت۔ ایران کے اصول پسند قائدین اور گروہ ابتداء سے ہی برجام معاہدے کے خلاف تھے۔ میرے علم کے مطابق ان کی مخالفت کی وجہ معاہدے کا کوئی تکنیکی پہلو یا سقم نہیں بلکہ امریکہ اور یورپ پر عدم اعتماد تھا۔ اس کے باوجود ایرانی پارلیمان اور اعلیٰ قیادت نے اس معاہدے کو قبول کیا اور اس پر ریاستی سطح پر عملدرآمد کا آغاز بھی ہوا۔

معاہدے میں یہ سقم ابتداء سے موجود تھا کہ تمام شرائط اور پابندیاں ایران کے لیے تھیں، دیگر ممالک فقط شرائط کے پورے ہونے کی صورت میں پابندیاں ہٹانے کے ذمہ دار تھے۔ برجام میں کسی پارٹی بالخصوص امریکا اور یورپ کو پابند نہیں کیا گیا تھا کہ ایک مرتبہ دستخط کی صورت میں وہ معاہدے کو مکمل کرنے کے پابند ہوں گے۔ اسی سبب امریکا دستخط کرنے کے باوجود برجام سے نکل گیا اور ایران پر پابندیاں نافذ کر دیں۔ یورپ امریکی پابندیوں کے مقابل گھٹنے ٹیک گیا اور ایران کو برجام کے وہ فوائد حاصل نہ ہوسکے، جو اصل معاہدے میں درج تھے۔ بارہ روزہ جنگ کے دوران امریکہ کے ایران کے ایٹمی پلانٹ نطنز اور فردو پر حملوں کو دیکھا  جائے تو واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ برجام معاہدہ ایران کے ایٹمی پلانٹ کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ برجام معاہدے کی شرائط تھیں کہ افزودگی نطنز میں ہوگی، فردو میں کام معطل کر دیا جائے گا، عالمی ایٹمی ایجنسی ان سب امور کی مسلسل نگرانی کر رہی تھی۔ امریکا اور اسرائیل کے پاس ایران کے ایٹمی پلانٹ اور سائنسدانوں کے حوالے سے درست معلومات تھیں، جو عالمی ایٹمی ایجنسی نے نگرانی کے دوران جمع کیں۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: عالمی ایٹمی ایجنسی اقوام متحدہ کی سینٹری فیوجز برجام معاہدہ برجام معاہدے کی پابندیوں کیا جائے گا معاہدے میں معاہدے کے اور ایران معاہدے کی میں ایران ایران کو ایران پر کے دوران کے مطابق ایران نے کے ساتھ کرنے کے کیا گیا کے لیے

پڑھیں:

دس سالہ پابندیوں کا خاتمہ

اسلام ٹائمز: ایرانی جوہری مسئلے کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ڈالنے کا مقصد یہ تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت کو یقینی بنایا جائے اور اسے ہتھیاروں کی تیاری کی طرف نہ موڑا جائے۔ یہ ہدف مکمل طور پر حاصل کر لیا گیا ہے کیونکہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی طرف سے اس کے برعکس کوئی رپورٹ شائع نہیں کی گئی ہے۔ تین یورپی ممالک اور امریکہ کی طرف سے ایجنسی پر ایران کی جانب سے حفاظتی ذمہ داریوں کی عدم تعمیل کو ثابت کرنے کے لیے دباؤ کے باوجود، ایران کے عدم تعاون کی تصدیق کبھی نہیں کی گئی۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
                
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی میعاد ختم ہونے کے حوالے سے اسلامی جمہوری ایران کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر متوقع پابندیاں 18 اکتوبر کو ختم ہو جائیں گی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے بارے میں 20 جولائی 2015ء کی JCPOA اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 میں بیان کردہ 10 سالہ مدت ہفتہ 18 اکتوبر 2025ء کو ختم ہو جائے گی۔ یعنی اس قرارداد کی تمام دفعات بشمول جوہری پروگرام سے متعلق مجوزہ پابندیاں اس تاریخ کو ختم ہو جائیں گی۔ لہذا وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق اب ایرانی جوہری مسئلے کو جو  "عدم پھیلاؤ" کے عنوان سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں شامل ہے، اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے زیر غور مسائل کی فہرست سے نکال دینا چاہیئے اور قرارداد 2231 کی میعاد ختم ہونے کے بعد ایران کے جوہری پروگرام کو عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل کسی بھی غیر جوہری ہتھیار نہ رکھنے والے ریاست کے جوہری پروگرام کی طرح ہی سمجھا جانا چاہیئے۔ ایرانی جوہری مسئلے کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ڈالنے کا مقصد یہ تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت کو یقینی بنایا جائے اور اسے ہتھیاروں کی تیاری کی طرف نہ موڑا جائے۔ یہ ہدف مکمل طور پر حاصل کر لیا گیا ہے کیونکہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی طرف سے اس کے برعکس کوئی رپورٹ شائع نہیں کی گئی ہے۔ تین یورپی ممالک اور امریکہ کی طرف سے ایجنسی پر ایران کی جانب سے حفاظتی ذمہ داریوں کی عدم تعمیل کو ثابت کرنے کے لیے دباؤ کے باوجود، ایران کے عدم تعاون کی تصدیق کبھی نہیں کی گئی۔

یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، JCPOA کے تحت تحفظات سے ہٹ کر وعدوں کو قبول کرنے کے باوجود، بیک وقت جابرانہ پابندیوں کی زد میں رہا اور یہی تین یورپی ممالک، یورپی یونین اور امریکہ تھے جنہوں نے پابندیاں ہٹانے کے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی۔ قرارداد 2231 اور اس سے ملحقہ، JCPOA، کثیر جہتی سفارت کاری کی ایک بڑی کامیابی تھی جس نے اس کی تشکیل کے ابتدائی سالوں میں اس کی ساکھ کو قائم رکھا۔ بدقسمتی سے امریکہ نے 2018ء میں  غیر ذمہ دارانہ کردار  ادا کیا ہے اور تین یورپی ممالک بھی اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے جے سی پی او اے کے رکن تین یورپی ممالک (انگلینڈ، فرانس، جرمنی) کے ان سابقہ اقدام کے غیر قانونی ہونے کا اعادہ کیا ہے جو بغیر کسی قانونی بنیاد یا منطقی وجہ کے امریکہ کی حمایت پر مشتمل تھے۔ بیان کے مطابق سلامتی کونسل نے تنازعات کے از سر نو حل کے لیے کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ دو مستقل ارکان چین اور روس کی واضح مخالفت کی وجہ سے قراردادوں کی میعاد ختم ہوئی ہے۔

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق JCPOA کی مسلسل خلاف ورزی کرنے والوں کے طور پر جرمنی، انگلینڈ اور فرانس نے اگر اپنے برے ارادوں کے ساتھ  متعلقہ قانونی طریقہ کار کا مشاہدہ کیے بغیر، منسوخ شدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بحال کرنے کی کوشش کی تو اسے قانونی نہیں سمجھا جائے گا۔ سلامتی کونسل کے سیکرٹریٹ کو بھی ان تینوں ممالک کے غیر قانونی اقدام کی توثیق اور اسے تسلیم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے ایک بار پھر اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ سلامتی کونسل کے چھ رکن ممالک جن میں دو مستقل ارکان بھی شامل ہیں، نے تین یورپی ممالک اور امریکہ کی غیر قانونی نقل و حرکت سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ بیان میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل سے پرزور درخواست کی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 100 کے مطابق، ایران کے خلاف میعاد ختم ہونے والی قراردادوں کو واپس کرنے کے مبینہ عمل کے بارے میں اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر موجود غلط معلومات کو فوری طور پر درست کیا جائے۔

بیان میں کہا گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران سلامتی کونسل کی جانب سے ایران کی علاقائی سالمیت اور قومی خودمختاری کے خلاف اسرائیلی اور امریکی حکومتوں کی فوجی جارحیت اور حفاظتی اقدامات کے تحت پرامن ایٹمی تنصیبات پر حملے کی مذمت کرنے میں ناکامی کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ایران کی جوہری تنصیبات پر وحشیانہ اور جارحانہ حملے، جو کہ امریکہ کے ساتھ سفارتی مذاکرات کے دوران ہوئے، سفارت کاری کے ساتھ سخت خیانت اور بین الاقوامی قانون کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ ایران کے پرامن جوہری بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کے علاوہ، ان حملوں نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ ایران کے معمول کے تعاون کو متاثر کیا۔ قاہرہ مفاہمت کے نتیجے میں ہونے والی مصروفیات کو بحال کرنے کی ایران کی کوششوں کو بھی تین یورپی ممالک کے غیر ذمہ دارانہ اور جانبدارانہ اقدامات نے، JCPOA کے تنازعات کے حل کے طریقہ کار کا غلط استعمال کرتے ہوئے ناکام بنایا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے تین یورپی ممالک کی جانب سے JCPOA کے تنازعات کے حل کے طریقہ کار کے غلط استعمال کی مسلسل مخالفت کرنے پر سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی حیثیت سے چین اور روس کے ذمہ دارانہ موقف کو سراہا۔ اسی طرح الجزائر اور پاکستان کے ان اقدامات کو بھی سراہا جن کے ذریعے انہوں نے کونسل کے دو غیر مستقل ارکان کی حیثیت سے  سلامتی کونسل میں تین یورپی ممالک کے غیر قانونی اقدامات کی مخالفت کی۔ وزارت خارجہ نے کونسل کے دیگر دو غیر مستقل ارکان جنوبی کوریا اور گیانا کے اس فیصلے کا بھی خیر مقدم کیا جس کے تحت انہوں نے تین یورپی ممالک کے اس اقدام کی توثیق نہیں کی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کا بھی شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے کمپالا (یوگنڈا) میں وزرائے خارجہ کے 19ویں عبوری اجلاس کے بیان میں قرارداد 2231 کو اس کے پیراگراف 8 کے مطابق ختم کرنے پر زور دیا۔ بیان کے آخر میں کہا گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران پرامن ایٹمی توانائی کے استعمال سمیت تمام شعبوں میں ایرانی قوم کے جائز حقوق اور قانونی مفادات پر تاکید کرتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایرانی سپریم لیڈر نے ٹرمپ کی مذاکرات کی بحالی کی پیشکش مسترد کردی
  • خواب دیکھتے رہو: آیت اللہ علی خامنہ ای کا ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ردعمل
  • دس سالہ پابندیوں کا خاتمہ
  • ایٹمی پروگرام سے متعلق کیا گیا معاہدہ اپنی مدت مکمل کر چکا، اب ہم کسی کے پابند نہیں، ایران
  • ’تمام پابندیوں سے آزاد ہیں‘، ایرانی جوہری پروگرام پر 10 سالہ عالمی معاہدہ باضابطہ ختم
  • جوہری پروگرام کسی عالمی معاہدے کے پابند نہیں ہیں، ایران کا دوٹوک اعلان
  • تمام پابندیوں سے آزاد ہیں، ایرانی جوہری پروگرام پر 10 سالہ عالمی معاہدہ باضابطہ ختم
  • JCPOA ختم ہوگیا، 10 سال بعد ایران کو کیا ملا؟
  • ایران: جوہری معاہدہ ختم، اب کسی پابندی کے پابند نہیں