data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نیتن یاہو حکومت امریکی ثالثی سے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے اپنی ذمے داریوں سے انحراف کی کوشش کر رہی ہے۔

جرمن ایجنسی کی رپورٹ کی تفصیلات کے مطابق غزہ کی پٹی میں تمام قیدیوں کی لاشوں کی منتقلی کے قریب پہنچنے کے بعد، اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت جس کی قیادت بنیامین نیتن یاہو کر رہے ہیں، امریکی ثالثی سے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے اپنی ذمے داریوں سے انحراف کی کوشش کر رہی ہے۔

معاہدے کے دوسرے مرحلے کی طرف پیش رفت کے بجائے، عدم یقینی کی کیفیت قائم ہے اور تل ابیب وقتاً فوقتاً جنگ دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی دیتا رہا ہے۔ اس کے جواز میں حماس کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کے دعوے میں پیش کیے جاتے رہے ہیں۔

حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ رفح کراسنگ “صرف غزہ کے باشندوں کے مصر جانے کے لیے” کھولی جائے گی۔ بعد ازاں مصر نے ان خبروں کی تردید کی اور کہا کہ اگر کراسنگ کھلی تو دونوں طرف سے آمد و رفت ممکن ہو گی، جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ منصوبے میں درج ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی یہ کوشش معاہدے سے بچنے اور فلسطینیوں کو رضاکارانہ طور پر منتقل کرنے کی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔ اسرائیلی اہل کار نے مصر کو ذمے دار ٹھہراتے ہوئے کہا “اگر مصر انہیں قبول نہیں کرتا تو یہ اس کی ذمے داری ہے۔”

یہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی جب نیتن یاہو کے متوقع دورہ امریکہ سے قبل واشنگٹن کی جانب سے ان پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے تاکہ وہ معاہدے کے دوسرے مرحلے اور غزہ کی دوبارہ تعمیر کی طرف بڑھیں۔ ذرائع کے مطابق امریکی حکومت اگلے ہفتے سکیورٹی کمیٹی اور امن کونسل تشکیل دے گی، جس کی نگرانی خود ٹرمپ کریں گے جب کہ اسرائیل اب بھی چاہتا ہے کہ پہلے تمام لاشیں واپس لے لی جائیں۔

اس دوران اسرائیلی اپوزیشن کے رہنما یائیر لیپڈ نے 20 نکاتی امریکی منصوبے کی حمایت میں تحریک پیش کی، جسے اسرائیلی پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ تاہم اس میں حکومت کے اتحادی شامل نہیں ہوئے۔ یہ امر نیتن یاہو پر دباؤ بڑھانے اور داخلی غیر یقینی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔

حماس تنظیم نے بھی زور دیا کہ اسرائیل کو جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل کرنا ہو گا، رفح کراسنگ دونوں طرف سے کھولی جائے اور اسرائیل کسی ایک طرف کی کارروائی یا معاہدے میں چالاکی نہ کرے۔

فریقین اپنی مرضی کے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں مگر بین الاقوامی ارادے کی سنجیدگی ہی معاہدے کے عملی نفاذ یا ناکامی کا تعین کرے گی۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نیتن یاہو معاہدے کے کی کوشش

پڑھیں:

اسرائیل کا ایک وفد لبنان جائیگا

اپنی ایک رپورٹ میں صیہونی ٹی وی چینل 14 کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور "حزب‌ الله" کے درمیان تنازعے کے معاملے پر مصر نے غیر متوقع طور پر مداخلت کی تاکہ لبنان میں بڑے پیمانے پر تصادم کو روکا جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ صیہونی وزارت عظمیٰ کے دفتر نے اعلان کیا کہ وزیراعظم "بنجمن نیتن یاہو" نے ایک وفد کو لبنان کا دورہ کرنے اور وہاں کے سرکاری عہدیداروں سے ملاقات کرنے کی ذمے داری سونپی ہے۔ وفد میں اسرائیلی داخلی سلامتی کونسل کا ایک نمائندہ بھی شامل ہے جو اس دوران لبنان کے سرکاری اور اقتصادی عہدیداروں سے ملاقاتیں و مشاورتیں کرے گا۔ مذكورہ دفتر نے اعلان کیا کہ یہ اقدام دونوں فریقوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کو تشکیل دینے اور مضبوط بنانے کے سلسلے میں انجام دیا گیا۔ قبل ازیں، اسرائیلی ٹی وی چینل 14 نے رپورٹ دی کہ اسرائیل اور "حزب‌ الله" کے درمیان تنازعے کے معاملے پر مصر نے غیر متوقع طور پر مداخلت کی تاکہ لبنان کو وسیع پیمانے پر تصادم سے روکا جا سکے۔ چینل 14 نے مزید کہا کہ حزب‌ الله، اسرائیل کی نیت پر شک کے ساتھ ساتھ ثالثوں کی کوششوں کو بھی مسترد کر چکی ہے۔ ذرائع ابلاغ كا کہنا ہے کہ ثالثی كی یہ تازہ كوشش اس وقت ہو رہی ہے جب شمالی اسرائیل (فلسطین کے مقبوضہ علاقوں) کی سرحدوں پر صورت حال انتہائی خوفناک ہو چکی ہے۔

دوسری جانب اسرائیلی نیوز نیٹ ورک نے بتایا کہ حزب‌ الله نے اسرائیل پر عدم اعتماد اور لبنانی حکومت کو نظرانداز کرنے کے بہانے ثالثی کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ حزب‌ الله کا موقف ہے کہ کوئی بھی بات چیت، لبنانی حکومت کے ذریعے ہونی چاہئے۔ جس پر اسرائیلی ٹی وی چینل 14 نے کہا کہ مصر ایسے معاملات میں شاذ و نادر ہی مداخلت کرتا ہے۔ اس لئے اس بحران میں مصر کی مداخلت، خطے میں بڑھتے ہوئے خطرے کی علامت ہے۔ اسی سلسلے میں، لبنانی اخبار "الاخبار" نے لکھا کہ مصر کے وزیر خارجہ "بدر عبدالعاطی" نے اپنے حالیہ دورہ بیروت کے دوران خبردار کیا کہ موجودہ عیسوی سال کے اختتام سے قبل، اسرائیلی حملہ یقینی ہے اور یہ ہو کر رہے گا۔ انہوں نے لبنان میں حزب‌ الله کے ساتھ معاملے کا عملی حل تلاش کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ دریائے لیطانیہ کے جنوب میں حزب‌ الله کے ہتھیاروں میں واضح کمی کے باوجود، صیہونی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ ہے کہ لبنانی حکومت کے پاس حزب‌ الله کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کی کافی صلاحیت موجود نہیں، جس نے بحران کو اور پیچیدہ بنا دیا۔

متعلقہ مضامین

  • روسی نژاد جنگی مجنون موساد کا نیا سربراہ بننے کو تیار
  • اسرائیل کا ایک وفد لبنان جائیگا
  • ٹرمپ کانگو اور روانڈا کے امن معاہدے کی میزبانی کرینگے
  • جنگ بندی اور ٹرمپ کی ضمانتوں کے باوجود اسرائیلی جارحیت میں فلسطینی صحافی  شہید
  • اسرائیل کی خصوصی فوجی آپریشن اور غزہ پر مکمل قبضے کی منصوبہ بندی
  • ہم شام کے جنوبی حصے کو غیر مسلح کریں گے، نتن یاہو
  • نیتن یاہو، ٹرمپ ٹیلیفونک رابطہ، حماس کو غیر مسلح کرنے پر تبادلہ خیال
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل کو شام میں عدم استحکام سے گریز کی سخت تنبیہ
  • نیتن یاہو کی معافی اور عالمی انصاف کا بحران