سال 2020ء میں 34 ہزار اسرائیلیوں نے ملک چھوڑا، جبکہ سال 2023ء میں 82,800 لوگوں کے ملک چھوڑنے کا ریکارڈ قائم ہوا، جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 40 فیصد کا اضافہ ہے۔ 2024ء کے آغاز سے یہ رجحان جاری ہے، جہاں اگست تک ہی تقریباً 50 ہزار افراد ملک چھوڑ چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ کنیسٹ ریسرچ اینڈ انفارمیشن سینٹر کی ایک نئی رپورٹ میں اسرائیل کی آبادی میں بے مثال کمی کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے، جس کی وجہ تیزی سے بڑھتا ہوا منفی نقل مکانی کا رجحان ہے۔ 2020ء سے 2024ء کے درمیان تقریباً 146,000 اسرائیلی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ کنیسٹ ریسرچ اینڈ انفارمیشن سینٹر کی ایک جامع رپورٹ جو پیر کے روز امیگریشن، ابزورپشن اینڈ ڈسپورا کمیٹی کی بحث سے پہلے سامنے آئی، صیہونی ریاست کیلئے ایک پریشان کن رجحان کو ظاہر کرتی ہے، اسرائیل مسلسل اور نمایاں منفی نقل مکانی کا سامنا کر رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، 2020ء سے 2024ء (اگست تک) کے درمیان طویل مدتی بنیادوں پر اسرائیل چھوڑنے والے اسرائیلیوں کی تعداد واپس آنے والوں کے مقابلے میں 145,900 زیادہ تھی، یہ فرق گذشتہ سالوں میں مسلسل بڑھا ہے۔

سال 2020ء میں 34 ہزار اسرائیلیوں نے ملک چھوڑا، جبکہ سال 2023ء میں 82,800 لوگوں کے ملک چھوڑنے کا ریکارڈ قائم ہوا، جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 40 فیصد کا اضافہ ہے۔ 2024ء کے آغاز سے یہ رجحان جاری ہے، جہاں اگست تک ہی تقریباً 50 ہزار افراد ملک چھوڑ چکے ہیں۔ اس کے برعکس، بیرون ملک سے واپس آنے والوں کی شرح میں مسلسل کمی ہو رہی ہے: 2022ء میں 29,600 سے گر کر 2023ء میں صرف 24,200 رہ گئی اور اس سال اگست تک صرف 12,100 رہ گئی ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین نے بحث کے دوران خبردار کیا کہ یہ "قومی استحکام کے لیے ایک خطرناک رجحان" ہے: "یہ اب صرف ایک رجحان نہیں رہا۔ یہ تو ملک چھوڑنے کا سونامی ہے۔ بہت سے اسرائیلی ملک سے باہر اپنا مستقبل بنا رہے ہیں اور کم لوگ واپس لوٹنے کا انتخاب کر رہے ہیں۔"

سی بی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک چھوڑنے والوں میں سے زیادہ تر کام کرنے اور پیداواری آبادی سے تعلق رکھتے ہیں: سب سے بڑی عمر والا گروپ 30-49 سال کا ہے (2024ء میں تقریباً 29 ہزار افراد)، اس کے بعد 19 سال تک کے بچے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پورے خاندان ملک چھوڑ رہے ہیں۔ تل ابیب ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں سرفہرست ہے (14 فیصد)، اس کے بعد حیفا (7.

7 فیصد) اور نیتنیاہ (6.9 فیصد) ہیں۔ سب سے کم شرح چھوڑنے والی بلدیات میں ہرزلیا، اشکیلون اور بیر شیبا شامل ہیں۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ملک چھوڑنے ملک چھوڑ اگست تک

پڑھیں:

ملک میں 20 سے 30 سال کے نوجوانوں کی بڑی تعداد ذیابیطس کا شکار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: ماہرینِ ذیابیطس نے خبردار کیا ہے کہ معاشی دباؤ، دو دو نوکریاں، غیر صحت مند غذا اور جسمانی سرگرمیوں میں کمی کے باعث 20 سے 30 سال تک کے نوجوان بڑی تعداد میں ذیابیطس کا شکار ہو رہے ہیں اور انہیں اپنی بیماری کا علم اُس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ دل کی شریانیں بند ہونے اور ہائی بلڈ پریشر جیسی پیچیدگیوں کے باعث اسپتال نہ پہنچ جائیں۔ ڈسکورنگ ڈائبٹیز کی پریس بریفنگ میں بتایا گیا کہ بڑے سرکاری و نجی اسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں ایسے نوجوانوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، جو انجیوگرافی کے دوران یہ جان کر حیران رہ جاتے ہیں کہ وہ عرصہ دراز سے ٹائپ ٹو ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہیں مگر لاعلمی کے باعث علاج نہیں کروا رہے تھے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ جب تک مرض کی تشخیص ہوتی ہے، اُس وقت تک خون کی نالیوں، گردوں اور دیگر اعضا کو نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔

پریس بریفنگ کے دوران ڈسکورنگ ڈائیابٹیز پروگرام کی 2024-25 کی کارکردگی رپورٹ بھی جاری کی گئی جس کے مطابق اب تک مہم کے ذریعے 85 لاکھ سے زائد افراد تک رسائی حاصل کی گئی، 9 لاکھ 66 ہزار افراد کے ذیابطیس رسک پروفائل کو ٹریک کیا گیا، 4 لاکھ 63 ہزار مشتبہ مریضوں کو ڈاکٹروں سے جوڑا گیا جبکہ 3 لاکھ 48 ہزار سے زائد افراد کو مفت اسکریننگ اور مشاورت فراہم کی گئی۔

ماہرین نے کہا کہ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک میں ذیابطیس کی لاعلمی کے ساتھ پھیلنے والی وبا خاموشی کے ساتھ نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔

پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے سابق صدر ڈاکٹر ابرار احمد نے کہا کہ ملک میں ہر چوتھا شخص ذیابطیس میں مبتلا ہے اور اگر طرزِ زندگی میں فوری تبدیلی نہ لائی گئی تو آنے والے برسوں میں صورتحال مزید سنگین ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وزن گھٹانے کے انجیکشنز نے لوگوں کی توجہ ذیابطیس کے اصل مسئلہ اور باقاعدہ شوگر مانیٹرنگ سے ہٹا دی ہے۔

ڈسکورنگ ڈائیابٹیز کے پروجیکٹ ڈائریکٹر سید جمشید احمد نے بتایا کہ ملک میں 3 کروڑ 30 لاکھ افراد باقاعدہ طور پر ذیابطیس کے مریض کے طور پر رجسٹرڈ ہیں جبکہ اندازوں کے مطابق تقریباً اتنی ہی تعداد لاعلم مریضوں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہزاروں افراد نے اسکریننگ کے دوران پہلی مرتبہ جانا کہ وہ ذیابطیس کے مریض ہیں۔ یہ سوچ کہ ایک کلو گلاب جامن کھا لینا کوئی بڑی بات نہیں، اسی مزاج نے نوجوانوں کو معذوری کی جانب دھکیل دیا ہے۔

فارمیوو کے ایم ڈی ہارون قاسم نے بتایا کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً 2 لاکھ 30 ہزار افراد ذیابطیس اور اس کی پیچیدگیوں کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک میں شکر والے مشروبات پر بھاری ٹیکس عائد کیا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی یہی قدم اٹھایا جانا چاہیے تاکہ عوام کا رجحان صحت مند غذا کی طرف بڑھے۔

ڈاکٹر صومیہ اقتدار اور ڈاکٹر خورشید احمد خان نے کہا کہ ذیابطیس اور ہائپر ٹینشن ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے امراض ہیں اور جب تک بنیادی سطح پر آگہی اور اسکریننگ کو نظام کا حصہ نہیں بنایا جاتا، یہ وبا تیزی سے پھیلتی رہے گی۔

ٹرائی فٹ کے سی ای او احمر اعظم نے کہا کہ ہم بطور قوم نظام پر نہیں بلکہ اتفاق پر چلنے کے عادی ہیں۔ اگر کوئی شخص ہفتے میں صرف ڈھائی گھنٹے ورزش کے لیے نہیں نکال سکتا تو صحت مند زندگی کی توقع رکھنا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔

انہوں نے اعلان کیا کہ ٹرائی فٹ کی تمام ڈیجیٹل اسکرینز پر ایک ہفتے تک ذیابطیس سے متعلق آگاہی پیغامات نشر کیے جائیں گے۔

ماہرین نے مطالبہ کیا کہ ذیابطیس کی آگہی کو قومی میڈیا، تعلیمی اداروں، موبائل نیٹ ورکس اور اوٹ آف ہوم میڈیا کے ذریعے مستقل بنیادوں پر مہم کی شکل دی جائے، ورنہ یہ خاموش بیماری پاکستان کی نوجوان ورک فورس کو مفلوج کردے گی۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • 2020 سے 2024ء تک 1 لاکھ 46 ہزار اسرائیلی ملک چھوڑ چکے ہیں، رپورٹ
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی
  • وفاقی حکومت کو دسمبر تک 4 ارب 86 کروڑ ڈالر کی بیرونی ادائیگیوں کا چیلنج درپیش
  • راولپنڈی میں ڈینگی کی سنگین صورتحال، جامع رپورٹ جاری
  • دنیا کے 80 فیصد غریب افراد موسمیاتی خطرات کا شکار‘ اقوام متحدہ
  • ملک میں 20 سے 30 سال کے نوجوانوں کی بڑی تعداد ذیابیطس کا شکار
  • راولپنڈی میں ڈینگی کے حملے جاری؛ 24 گھنٹوں میں 23 نئے کیسز رپورٹ
  • 24 گھنٹوں میں راولپنڈی میں ڈینگی کے تابڑتوڑ حملے، 23 نئے کیسز رپورٹ
  • پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں مزید کمی کا خدشہ