اسلام آباد:

پاکستان کی مقامی آٹو انڈسٹری اس وقت شدید دباؤ کا سامنا کر رہی ہے، بھاری ٹیکسیشن، درآمدی پالیسیوں میں عدم توازن اور استعمال شدہ گاڑیوں کی بے لگام درآمد نے اس اہم صنعتی شعبے کو مشکلات کی گہری دلدل میں دھکیل دیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق یہ صورتحال اس لیے بھی تشویش ناک ہے کہ یہ شعبہ نہ صرف ملکی جی ڈی پی میں دو فیصد حصہ ڈالتا ہے بلکہ ہر سال بیرونِ ملک کام کرنے والے تربیت یافتہ پاکستانی ٹیکنیشنز کی بدولت 600 ملین ڈالر سے زائد زرمبادلہ بھی ملک بھیجتا ہے۔ مالی سال 2025ء میں انڈسٹری نے 700 ارب روپے سے زیادہ کے ٹیکس ادا کیے، جو اس کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اسمبلی لائنوں پر ٹھہرتی ہوئی روبوٹکس، سست روی کا شکار پروڈکشن اور کم ہوتی ہوئی ورک فورس اس بحران کی کھلی تصویر پیش کرتی ہے۔

گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ٹیکسیشن کو معقول سطح پر لے آئے اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات کو منظم کرے تو پیداوار نہ صرف بحال ہو سکتی ہے بلکہ لاکھوں خاندانوں کا روزگار بھی محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

پاکستان اب ایشیا کا واحد آٹو مینوفیکچرنگ ملک بن گیا ہے جہاں استعمال شدہ گاڑیاں مقامی مارکیٹ میں نمایاں حصہ رکھتی ہیں، دسمبر 2024ء سے دسمبر 2025ء کے درمیان یہ حصہ مقامی فروخت کا تقریباً 25 فیصد رہا۔ دسمبر 2024ء سے اکتوبر 2025ء تک مرتب کردہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات ایک بار پھر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس کے برعکس، خطے کے دیگر ممالک میں استعمال شدہ گاڑیوں کا حصہ انتہائی کم ہے اور بھارت میں یہ شرح تقریباً صفر ہے، ویتنام میں 0.

3 فیصد اور تھائی لینڈ میں 1.2 فیصد ہے۔

صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی تضاد کو ظاہر کرتا ہے خطے کی دیگر معیشتوں نے آٹو ویلیو چین کو تحفظ دینے کے لیے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد محدود کر رکھی ہے جبکہ پاکستان نے اس کے برعکس راستہ اختیار کیا، خصوصاً وزارتِ تجارت کے 30 ستمبر 2025ء کو جاری کردہ نوٹیفکیشن 1895 کے بعد جس کے تحت پانچ سال تک پرانی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت مل گئی۔

اطلاعات کے مطابق جون 2026 کے بعد یہ حد مکمل طور پر ختم بھی ہوسکتی ہے جس سے پرانی گاڑیوں کی بڑی مقدار میں آمد کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ پاکستان کا آٹو سیکٹر اس وقت تقریباً بارہ سو فیکٹریوں پر مشتمل ہے، 25 لاکھ سے زائد لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے، حکومت کو سالانہ تقریباً پانچ سو ارب روپے ریونیو دیتا ہے اور اس میں تقریباً 5 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری موجود ہے۔

پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ ایسیسریز مینوفیکچررز  کے سینئر نائب چیئرمین شہریار قادر نے کہا کہ درآمد دوست پالیسیاں ایسے وقت میں صنعت کے حاصل شدہ فوائد کو کمزور کردیں گی جب صنعتی بحالی اور مقامی ساخت (لوکلائزیشن) کو ریاستی ترجیح قرار دیا جاچکا ہے، دسمبر 2024ء سے دسمبر 2025ء کے درمیان پاکستان میں درآمد کی گئی 45,758 گاڑیوں میں سے تقریباً 99 فیصد جاپان سے آئیں جو رائٹ ہینڈ ڈرائیو ہیں، باقی ممالک سے مقدار نہایت کم تھی، تھائی لینڈ سے 130 یونٹس، امریکا سے 55، جمیکا سے 49، جرمنی سے 47، آسٹریلیا سے 22، چین سے 20 اور صرف 5 گاڑیاں متحدہ عرب امارات سے درآمد ہوئیں۔

پاپام کے سابق چیئرمین عبد الرحمن عزیز کے مطابق اسٹیٹ بینک، ایف بی آر اور صوبائی ایکسائز ڈیپارٹمنٹس میں ہم آہنگی کا فقدان ہے اور ایسے معاملات سامنے آئے ہیں جہاں گاڑی ایک شخص کے نام پر درآمد تو ہوتی ہے مگر رجسٹریشن دوسرے کے نام پر کرائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 99فیصد استعمال شدہ گاڑیاں پورٹ سے سیدھی شو رومز تک چلی جاتی ہیں کیونکہ کوئی ایسی شرط نہیں رکھی گئی کہ برآمدگان کچھ عرصے ان گاڑیوں کو استعمال کریں اس طرح اوورسیز پاکستانیوں کو سہولت دینے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔

صنعتی تخمینوں کے مطابق اس عرصے میں مقامی آٹو وینڈر انڈسٹری کو تقریباً 50 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا غیر ملکی زرِمبادلہ کھاتوں پر اثر بھی واضح ہے، مقامی مینوفیکچررز فی گاڑی تقریباً 10,138 ڈالر کی دستاویزی بینکنگ امپورٹس کرتے ہیں، جبکہ استعمال شدہ گاڑی درآمد کرنے والا طبقہ فی گاڑی تقریباً 14,010 ڈالر خرچ کرتا ہے جس کا بڑا حصہ غیر رسمی ذرائع سے آتا ہے، اگرچہ حکومت نئی آٹو پالیسی تشکیل دے رہی ہے جس کا مقصد مقامی پیداوار کو مستحکم کرنا ہے لیکن اسٹیک ہولڈرز اس بات پر منقسم ہیں کہ کیا لوکلائزیشن اس وقت ممکن ہوگی جب درآمدی گاڑیوں پر پالیسی نرم رہےاعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان آٹو مینوفیکچرنگ ملکوں میں ایک منفردبلکہ مخالف سمت اختیار کیے ہوئے ہے خواہ بات پالیسی کی ہو یا مارکیٹ کے نتائج کی۔

ماہرین اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ پالیسی سازوں کے سامنے اصل بحث یہ نہیں کہ درآمد ہونی چاہیے یا نہیں بلکہ یہ کہ درآمدات کا حجم کتنا ہو اور کیا موجودہ رجحان ملک کے صنعتی، روزگار اور مالی اہداف سے مطابقت رکھتا ہے۔

اس بارے میں کار امپورٹر و ڈیلر نوید مدثر کا کہنا ہے کہ اگر پانچ سال پرانی درآمد شدہ گاڑیوں کے غلط استعمال پر قابو پا لیا جائے تو مقامی صنعت کو بحالی کا ایک مضبوط موقع مل سکتا ہے۔

سابق چیئرمین پاپام نبیل ہاشمی کا کہنا ہے کہ ٹیکسز کو ریشنلائز کر کے اور درآمدی نظام کو بہتر بنا کر آٹو انڈسٹری نہ صرف اپنی کھوئی ہوئی جگہ واپس حاصل کر سکتی ہے بلکہ مستقبل میں گاڑیاں برآمد کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کر سکتی ہے، جس سے اربوں ڈالر کی نئی سرمایہ کاری اور روزگار کے بڑے مواقع سامنے آسکتے ہیں۔

ان کے مطابق اندرونی چیلنجز کے باوجود اس شعبے نے قومی خزانے میں 700 ارب روپے سے زائد ٹیکس دیا، مجموعی ریاستی ٹیکس آمدن میں چھ فیصد حصہ ڈالا اور ملک بھر میں 25 لاکھ سے زیادہ روزگار فراہم کیے تاہم کم ہوتی پیداوار، غیر یقینی پالیسیاں اور سرمایہ کاروں کی بڑھتی ہوئی تشویش صورتحال کو مزید حساس بنا رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک واضح، مضبوط اور طویل المدتی آٹو پالیسی ہی اس شعبے کے استحکام کی ضمانت بن سکتی ہے ایسی پالیسی نہ صرف مقامی مینوفیکچررز کو تحفظ دے گی بلکہ پاکستان کو عالمی مارکیٹ میں اپنی گاڑیاں متعارف کرانے کا موقع بھی فراہم کر سکتی ہے جو مستقبل میں اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کما کر دے سکتی ہیں۔

صنعتی ماہرین کے مطابق آٹو انڈسٹری ملک کی معیشت کا اہم ستون ہے اور اس وقت حکومتی توجہ اور پالیسی کے تسلسل کی شدت سے منتظر ہےدرست سمت میں بروقت اقدامات نہ صرف اس شعبے میں نئی جان ڈال سکتے ہیں بلکہ ملکی معیشت کے پہیوں کو بھی پوری رفتار سے گھما سکتے ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: استعمال شدہ گاڑیوں کی استعمال شدہ گاڑی گاڑیوں کی درآمد کا کہنا ہے کہ کے مطابق ارب روپے سکتی ہے ہیں کہ رہی ہے ہے اور اور اس

پڑھیں:

ایوی ایشن سکیورٹی اقدامات: سعودی ایئرلائنز کے 51 طیارے متاثر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایوی ایشن سکیورٹی اقدامات سے سعودی ایئر لائنز کے 51 طیارے متاثر ہوئے ہیں۔

عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سعودیہ گروپ کے کارپوریٹ کمیونیکیشن کے ڈائریکٹر جنرل انجینئر عبداللہ الشہرانی نے انکشاف کیا کہ گروپ کے ایئربس A320 ماڈل کے طیاروں کی تعداد تقریباً 108 ہے، یورپی کمپنی ا کی طرف سے عائد کئے گئے ہنگامی اقدامات سے تقریباً 51 طیارے متاثر ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ گروپ نے یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی کے فیصلے سے قبل ہی فوری طور پر مسئلہ حل کرنا شروع کر دیا تھا، انہوں نے اسی وقت نشاندہی کی کہ اسی ماڈل کے سعودی ایئرلائنز کے چند طیاروں میں اس وقت لازمی سافٹ ویئر کی مرمت ہو رہی ہے اور یہ جلد ہی مکمل ہو جائے گی۔

سعودی ایئرلائن کمپنیوں نے ایئربس کی تاریخ میں سب سے بڑے ری کال آپریشن کے نتیجے میں A320 ماڈل کی یورپی مینوفیکچرنگ کمپنی کی جانب سے تکنیکی خرابی کی دریافت کے بعد فوری اقدامات کا ایک سلسلہ شروع کیا، شدید شمسی تابکاری فلائٹ کنٹرول سسٹمز کے لئے اہم ڈیٹا کو خراب کر سکتی ہے۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ

متعلقہ مضامین

  • غربت، پابندیاں اور سفاک حکمرانی، طالبان کی پالیسیوں نے افغانستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا
  • الخدمت سندھ کے تحت یوم معذوراں کے حوالے سے تقریبات
  • نوجوان تبائی کے دہانے پر ہیں لیکن بی جے پی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، راہل گاندھی
  • حکومت کا استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے متعلق اسکیم میں تبدیلی پر غور
  • حکومت کا استعمال شدہ گاڑیوں کی در آمد اسکیم میں تبدیلی پر غور
  • استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر نئے قواعد متعارف کرانے کا امکان
  • بے کار آلو بھی کارآمد ہو سکتے ہیں: بیوٹی انڈسٹری میں حیران کن تحقیق
  • ایوی ایشن سکیورٹی اقدامات: سعودی ایئرلائنز کے 51 طیارے متاثر
  • سندھ بلڈنگ، ماڈل کالونی میں عمارتی مافیا بے لگام ، تعمیراتی لاقانونیت کا راج