شمشان گھاٹ سے متعلق کیس، اب تو کابینہ بھی نہیں ہے تو کیسے منظوری ملے گی، پشاور ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
بابا گرپال سنگھ نے کہا کہ جی میں اقلیت کی نشست پر اپوزیشن سے ممبر اسمبلی ہوں۔ جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ ابھی تو کابینہ نہیں ہے، اس لیے مہینہ سے پہلے تاریخ نہیں دے سکتے۔ اسلام ٹائمز۔ پشاور ہائیکورٹ میں شمشان گھاٹ سے متعلق کیس میں جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ اب تو کابینہ بھی نہیں ہے تو کیسے منظوری ملے گی۔ جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل دو رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔ وکیل درخواست گزار تیمور خان نے دلائل دیے کہ خیشگی بالا میں شمان گھاٹ کے لیے زمین کی نشاندہی کی گئی ہے، جس زمین کی نشاندہی کی گئی ہے وہ محکمہ ٹورازم کی ملکیت ہے، شمان گھاٹ تک میت لے جانے کے لیے بس کے لیے بھی درخواست دی ہے۔
جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ اب تو کابینہ بھی نہیں ہے تو کیسے منظوری ملے گی، آپ خود بھی ممبر صوبائی اسمبلی ہے۔ بابا گرپال سنگھ نے کہا کہ جی میں اقلیت کی نشست پر اپوزیشن سے ممبر اسمبلی ہوں۔ جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ ابھی تو کابینہ نہیں ہے، اس لیے مہینہ سے پہلے تاریخ نہیں دے سکتے۔ عدالت نے صوبائی حکومت سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 3 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ تو کابینہ نہیں ہے
پڑھیں:
خیبر پختونخوا کابینہ نے 9 مئی کے مقدمات ختم کرنے کی منظوری دے دی
وزیر اعلیٰ کے پی سہیل آفریدی : فائل فوٹوخیبر پختونخوا کابینہ نے 9 مئی کیسز کے خاتمے کی منظوری دے دی ہے، کابینہ نے 9 مئی واقعات کی انکوائری کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کی بھی منظوری دی۔
پشاور میں ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا شاہ فیصل اتمان خیل نے جیو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ صوبائی کابینہ اجلاس میں 9 مئی کیسز کے خاتمے کی منظوری دے دی گئی ہے اور 51 مقدمات میں ریاست کابینہ کی منظوری کے بعد دستبردار ہوگی۔
ایڈووکیٹ جنرل کے مطابق 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کابینہ اجلاس میں شرکت کے لیے وزیر اعلیٰ نے انہیں خصوصی طور پر طلب کیا تھا۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس نے 51 مقدمات واپس لینے کی سفارشات بھیج دیں، پی ٹی آئی اراکین اور کارکنان 9 اور 10 مئی کے مقدمات میں نام زد ہیں، مقدمات میں سزا کی صورت میں اراکین اسمبلی کو نااہلی کا خدشہ ہے۔