بھارت کو پاکستان کیخلاف افغان طالبان رجیم کی حمایت مہنگی پڑ گئی
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
خطے میں عدم استحکام کے لیے افغانستان میں دہشتگرد تنظیموں کی حمایت پر بھارت کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بھارت کو سرحد پار دہشت گردی اور طالبان نواز پالیسیوں پر ہزیمت کا سامنا، افغانستان کی مسلح تنظیم نیشنل موبلائزیشن فرنٹ نے بھارت کو طالبان کی حمایت پر سخت انتباہ جاری کر دیا۔
افغانستان کی نیشنل موبلائزیشن فرنٹ نے کہا کہ ہندوستان کو دوسری بار متنبہ کیا جاتا ہے کہ افغانستان میں طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی حمایت بند کرے۔
این ایم ایف کا کہنا تھا کہ افغانستان میں معصوم لوگوں کے قاتل طالبان کی حمایت ہندوستان کے دوغلے رویہ کو ظاہر کرتی ہے، دنیا میں جمہوریت کا دعویدار بھارت دہشت گردوں کو سہارا دے رہا ہے اور کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنا طالبان کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔
مسلح تنظیم نے سوال اٹھایا کہ کیا ہندوستان طالبان کے جرائم کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ہی ملک میں انتشار پھیلانے کا سبب بننا چاہتا ہے؟ اگر بھارت حمایت جاری رکھے گا تو طالبان افغانستان کے ساتھ ہندوستان کو بھی اپنے ہدف میں شامل کریں گے، افغان آزادی پسند تحریکیں ہندوستان میں خالصتان کی تحریک سے بھی مکمل تعاون بحال کریں گی۔
این ایم ایف کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی طالبان سے حمایت ان تحریکوں کے اتحاد کا باعث بنے گی۔ بھارت فوری طور پر طالبان، داعش اور ٹی ٹی پی جیسے گروہوں سے اپنے تعلقات منقطع کرے، اگر فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو آنے والے تمام منفی نتائج کی ذمہ داری ہندوستان پر عائد ہوگی۔
انتہا پسند بھارتی حکومت پورے خطے میں عدم استحکام اور دہشتگردی پھیلانے میں مصروف ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
افغان علماء، مشائخ کا مشترکہ اعلامیہ، بیرون ملک فوجی سرگرمیاں ممنوع قرار
کابل:افغانستان کی کابل یونیورسٹی میں علما، سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں ایک ہزار سے زائد علما نے شرکت کی۔
اس اجلاس کے دوران ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں بیرون ملک جا کر عسکری سرگرمیوں کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیا گیا۔
علماء نے کہا کہ کسی بھی شخص کو افغانستان سے باہر عسکری کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی اور جو بھی ایسا کرے گا، وہ باغی تصور ہوگا۔
اعلامیہ میں افغان حکومت کو واضح پیغام دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔
افغان علما نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ افغانستان کی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے اور کسی بھی بیرونی عسکری سرگرمی کو روکنے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔
افغان علماء اور عمائدین کا یہ اعلامیہ پاکستان کے دیرینہ مطالبے کی توثیق سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان نے کئی بار افغان طالبان سے کہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔
تاہم افغان طالبان کی جانب سے اس مطالبے پر کوئی واضح اقدام نہیں اٹھایا گیا، اور وہ سرحد پار سے پاکستان میں دراندازی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کے تین ادوار ہوئے تھے، لیکن افغان طالبان کی ہٹ دھرمی اور مذاکرات میں سنجیدگی کی کمی کی وجہ سے یہ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے۔
ان مذاکرات میں پاکستان نے افغان طالبان سے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کی تحریری ضمانت مانگی تھی، جو افغان طالبان دینے میں ناکام رہے۔
افغان علماء کا یہ اعلامیہ پاکستان کی تشویش کو مزید تقویت دیتا ہے، کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان سے اپنی سرزمین کو دہشت گردی اور عسکری کارروائیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کی درخواست کی ہے۔
اس اعلامیے کے ذریعے افغان علماء نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری کو بھی واضح پیغام دیا ہے کہ افغانستان کا امن اور خودمختاری غیر متنازعہ ہے، اور اسے کسی بیرونی مداخلت سے بچانے کے لیے افغان حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
افغان علماء کا مشترکہ اعلامیہ نہ صرف افغانستان کے داخلی حالات بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک اہم پیشرفت ہے۔
یہ اقدام افغان طالبان کے رویے پر بھی سوالات اٹھاتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان موجود سکیورٹی اور سیاسی تناؤ کی شدت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔
افغان میڈیا نے اس اجلاس اور اعلامیے کو اہمیت دیتے ہوئے اس کا بھرپور احاطہ کیا ہے اور اسے افغانستان کی سیاسی و سکیورٹی حکمت عملی میں ایک اہم موڑ قرار دیا ہے۔