— تصویر بشکریہ رپورٹر

فرانسیسی سفارتخانے نے سندھ طاس کے فرانسیسی آثار قدیمہ کے مشن (MAFBI) کے تعاون سے 2 تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔

مذکورہ تقریبات سندھ کے چنوں دڑو میں آثار قدیمہ کی کھدائی کی 10ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد کی گئیں جو کہ فرانسیسی و پاکستانی تعاون کی تاریخ میں ایک قابل ذکر سنگ میل ہے۔

پہلی کانفرنس ٹیکسلا انسٹی ٹیوٹ آف آرکیالوجی اینڈ سولائزیشنز (TIAC)، قائداعظم یونیورسٹی میں منعقد ہوئی۔ TIAC کی کامل تنظیم اور بھرپور پروگرام کو اس سائنسی کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام طلبہ اور پروفیسرز نے سلام پیش کیا۔

منگل کو منعقدہ دوسرے پروگرام میں پاکستانی اور فرانسیسی ماہرین کو ایک وسیع بحث کے لیے اکٹھا کیا۔ سیشن کا آغاز پاکستان میں فرانسیسی سفیر ایچ ای نکولس گیلی اور حکومت پاکستان کے محکمہ آثار قدیمہ اور عجائب گھر کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر امان اللّٰہ نے کیا۔

ایم اے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اورور ڈیڈیئر نے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف نوادرات اور آثار قدیمہ کے تعاون سے چنوں دڑو میں ایک دہائی کی کھدائی میں دریافت ہونے والے نمونے پیش کی جبکہ ڈاکٹر مرجان مشکور نے حیاتیاتی تحقیق اور تربیتی پروگرامز کے بارے میں بتایا۔

.

ذریعہ: Jang News

پڑھیں:

حماس کے قیام کی سالگرہ، فلسطین میں مزاحمت کی گہری جڑیں (1)

اسلام ٹائمز: فلسطین میں تشکیل پانے والے نمایاں مزاحمتی گروہوں میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، تحریکِ فتح، فلسطینی اسلامی جہاد، عوامی محاذ برائے آزادیٔ فلسطین، جمہوری محاذ، عوامی مزاحمتی کمیٹیاں اور تحریکِ مزاحمتِ اسلامی (حماس) شامل ہیں۔ ان میں سے بعض گروہ، جیسے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، وقت گزرنے کے ساتھ مزاحمتی اور جہادی فکر سے بتدریج دور ہوتے گئے، جبکہ کچھ دیگر، بالخصوص تحریکِ حماس اور اسلامی جہاد، فلسطین کی آزادی کے مقصد اور اپنے اصولی مؤقف پر ثابت قدم رہے۔ اگرچہ فلسطینی عوام کی مزاحمتی کارروائیاں، چاہے وہ منظم تحریکوں کی صورت میں ہوں یا انفرادی مزاحمت کی شکل میں، 1948 سے صہیونی قبضے کے ساتھ ساتھ جاری رہیں اور ایک کٹھن و نشیب و فراز سے بھرپور مرحلے سے گزریں، تاہم اس مزاحمت کا سب سے نمایاں اور واضح اظہار ان انتفاضوں میں سامنے آیا جو فلسطینی قوم نے تاریخ کے مختلف ادوار میں برپا کیں۔ خصوصی رپورٹ:

فلسطین کی مزاحمتی اسلامی تحریک حماس اور مجموعی طور پر فلسطینی مزاحمت نے صہیونیوں کی جانب سے اس سرزمین پر قبضے کے آغاز سے ہی ایک نہایت نشیب و فراز سے بھرپور راستہ طے کیا ہے، یہاں تک کہ وہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کو پتھروں کی انتفاضہ سے تاریخی حماسہ طوفانُ الاقصیٰ تک لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ تاریخ کے ہر دور میں دنیا کے جس خطے میں بھی ظلم اور قبضہ جمایا گیا ہے، وہاں اس کے ساتھ ساتھ مزاحمت بھی وجود میں آئی ہے، جو مختلف شکلوں اور سطحوں میں ظاہر ہوتی رہی ہے۔ تاہم مغربی ایشیا کے خطے میں مزاحمت کا مفہوم ایک خاص انداز میں فلسطین کے ساتھ جُڑا ہوا ہے، اور جب بھی مزاحمت، اس کے مفہوم اور اس کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے فلسطین اور اس سرزمین کے عوام کی جدوجہد ذہن میں آتی ہے۔

فلسطین میں مزاحمت کی تاریخ:
سنہ 1940 کی دہائی سے، جب صہیونیوں نے مغرب اور امریکہ کی حمایت سے باضابطہ طور پر فلسطینی سرزمین پر قبضے کا آغاز کیا اور بعد ازاں اسے دیگر عرب علاقوں تک وسعت دی، اسی کے ساتھ فلسطین میں مزاحمت نے بھی جنم لیا، جو مختلف طریقوں اور سطحوں میں ظاہر ہوتی رہی۔ فلسطین پر صہیونی قبضے کے ابتدائی برسوں میں مختلف عوامی گروہ اور سیاسی جماعتیں تشکیل پائیں، جن میں سے ہر ایک کی اپنی مخصوص نظریاتی بنیاد اور عملی حکمتِ عملی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ انفرادی مزاحمت بھی فلسطینی عوام کی جدوجہد کی ایک نمایاں خصوصیت رہی۔ تاہم اُس دور میں فلسطینی مزاحمت کا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ مختلف مزاحمتی گروہوں کے درمیان عمومی طور پر کوئی مضبوط اتحاد موجود نہیں تھا، جس کے باعث وہ اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے ایک متحد، منظم اور ہم آہنگ حکمتِ عملی وضع کرنے میں ناکام رہے۔

فلسطین میں تشکیل پانے والے نمایاں مزاحمتی گروہوں میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، تحریکِ فتح، فلسطینی اسلامی جہاد، عوامی محاذ برائے آزادیٔ فلسطین، جمہوری محاذ، عوامی مزاحمتی کمیٹیاں اور تحریکِ مزاحمتِ اسلامی (حماس) شامل ہیں۔ ان میں سے بعض گروہ، جیسے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، وقت گزرنے کے ساتھ مزاحمتی اور جہادی فکر سے بتدریج دور ہوتے گئے، جبکہ کچھ دیگر، بالخصوص تحریکِ حماس اور اسلامی جہاد، فلسطین کی آزادی کے مقصد اور اپنے اصولی مؤقف پر ثابت قدم رہے۔ اگرچہ فلسطینی عوام کی مزاحمتی کارروائیاں، چاہے وہ منظم تحریکوں کی صورت میں ہوں یا انفرادی مزاحمت کی شکل میں، 1948 سے صہیونی قبضے کے ساتھ ساتھ جاری رہیں اور ایک کٹھن و نشیب و فراز سے بھرپور مرحلے سے گزریں، تاہم اس مزاحمت کا سب سے نمایاں اور واضح اظہار ان انتفاضوں میں سامنے آیا جو فلسطینی قوم نے تاریخ کے مختلف ادوار میں برپا کیں۔

پتھروں کی انتفاضہ سے الاقصیٰ تک:
فلسطین کی پہلی انتفاضہ، جو „انتفاضۂ سنگ“ کے نام سے معروف ہوئی، 8 دسمبر 1987 کو شروع ہوئی اور سنہ 1993 تک جاری رہی، جب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن نے صہیونیوں کے ساتھ بدنام زمانہ اوسلو معاہدے پر دستخط کیے۔ پہلی انتفاضہ کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک اسرائیلی ٹرک نے چند فلسطینی مزدوروں کو کچل دیا، جس کے نتیجے میں چار فلسطینی شہید ہو گئے۔ فلسطینی عوام نے اس واقعے کو ایک دانستہ قتل قرار دیا۔ اگلے دن شہداء کے جنازے کے موقع پر جب لوگ جبالیا میں صہیونی فوج کے اڈے کے قریب پہنچے تو انہوں نے فوجیوں پر پتھراؤ کیا۔ اس کے جواب میں صہیونی فوجیوں نے ہوائی فائرنگ کی، جبکہ فلسطینیوں نے پتھروں اور مولوتوف کاک ٹیلوں کی بارش کر کے اس کا جواب دیا۔ یہی واقعہ فلسطین کی پہلی انتفاضہ کی ابتدائی چنگاری تھا، لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ یہ انتفاضہ شہر بہ شہر پھیلتا چلا گیا۔ اس انتفاضہ کے دوران تقریباً 1300 فلسطینی شہید ہوئے۔

قبائلی جدوجہد کی ناکامی اور عرب دنیا سے مایوسی:
جیسا کہ ذکر کیا گیا، فلسطینیوں کی مزاحمتی سرگرمیاں کسی ایک متحد اور مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت انجام نہیں پا رہی تھیں، اسی لیے وہ مؤثر نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ مزید یہ کہ صہیونی قبضے کے آغاز کے بعد ابتدائی دو دہائیوں تک فلسطینی عوام کو اس بات کی بڑی امید تھی کہ دیگر عرب ممالک انہیں نجات دلائیں گے، مگر عرب دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں، صہیونی رجیم کے مقابلے میں عرب افواج کی شکست، اور بعد ازاں عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل کے آغاز نے فلسطینی قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیا کہ انہیں ان ممالک کی حمایت پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ فلسطین کی پہلی انتفاضہ ایسے وقت میں ابھری جب عرب ممالک اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ عرب حکمرانوں نے فلسطین کے مسئلے کو اپنی ترجیحات کے مرکز سے ہٹا دیا تھا اور اسے ایک ثانوی مسئلے کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا۔

صہیونیوں کا فلسطینیوں پر دوہرا دباؤ:
انتفاضہ کے ظہور کی ایک اہم وجہ یہ بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کو دوسرے درجے کے شہری کے طور پر مسلسل تحقیر کا سامنا تھا۔ دنیا بھر سے یہودیوں کی بڑے پیمانے پر مقبوضہ سرزمین کی طرف ہجرت اور صہیونیوں کی جانب سے آبادی کا تناسب یہودیوں کے حق میں بدلنے کی کوششیں، نیز فلسطینی عربوں سے حقوق، سہولیات اور مراعات چھینے جانے کے اقدامات نے فلسطینی عوام میں یہ احساس مزید گہرا کر دیا کہ ان پر ظلم اور ناانصافی دوگنی ہو چکی ہے۔

انقلابِ اسلامی ایران سے الہام:
فلسطینی عوام نے جبر و استبداد کے برسوں میں عملی طور پر یہ سیکھ لیا کہ ان کی مزاحمت اور کامیابی کا اصل راز اس کی اسلامی بنیاد میں مضمر ہے، نہ کہ کسی اور عنصر میں۔ اسی لیے انہوں نے اسلامی نقطۂ نظر اپناتے ہوئے اور انقلابِ اسلامی ایران سے الہام حاصل کر کے میدانِ جدوجہد میں قدم رکھا۔ خطے کے طاقتور ترین ملک میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام واضح طور پر طاقت کے توازن کو مسلمانوں کے حق میں بدلنے کا سبب بنا اور یہ امر فلسطینی عوام کے لیے ایک مضبوط محرک ثابت ہوا۔ فلسطینیوں نے ایران کے انقلاب سے متاثر ہو کر اپنی سیاسی، اقتصادی اور سماجی صورتحال کے مطابق جدوجہد کا آغاز کیا اور اپنی مزاحمت کو عرب سیاسی معادلات کے محدود دائرے سے باہر نکال لیا۔ فلسطین میں دیگر مزاحمتی تحریکوں کے مقابلے میں انتفاضہ کا امتیاز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایرانی مسلم قوم کی برحق جدوجہد اور اس کی قیادت سے الہام پا کر فلسطینیوں کو یہ ادراک حاصل ہوا کہ امریکہ اور اسرائیل ناقابلِ شکست نہیں ہیں اور ان کا مقابلہ کرنا ممکن ہے۔

فلسطین کی دوسری انتفاضہ؛ انتفاضۂ الاقصیٰ:
پچیس سال قبل، 28 ستمبر 2000 کو، مقبوضہ بیت المقدس کے اس وقت کے وزیرِ اعظم آریل شارون کی جانب سے بڑی تعداد میں صہیونی فوجیوں کے ہمراہ مسجدِ اقصیٰ میں داخل ہونے کے بعد فلسطین کی دوسری انتفاضہ، جسے انتفاضۂ الاقصیٰ کہا جاتا ہے، بھڑک اٹھی۔ شارون کے مسجدِ اقصیٰ میں داخل ہونے اور اس کے صحنوں میں گشت کرنے سے فلسطینیوں کے جذبات شدید طور پر مجروح ہوئے، جس کے نتیجے میں مسلمان نمازیوں اور صہیونی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں میں سات فلسطینی شہید ہوئے اور 250 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جبکہ اس دوران 13 صہیونی فوجی بھی زخمی ہوئے۔ اس وقت مقبوضہ شہر بیت المقدس میں شدید جھڑپیں شروع ہو گئیں جن کے نتیجے میں درجنوں فلسطینی زخمی ہوئے۔ یہ جھڑپیں بہت تیزی سے مغربی کنارے کے تمام شہروں اور غزہ کی پٹی تک پھیل گئیں اور اسی تحریک کو بعد میں „انتفاضۂ الاقصیٰ“ کا نام دیا گیا۔

محمد الدرّہ، وہ فلسطینی شہید بچہ جو انتفاضۂ الاقصیٰ کے دوسرے دن شہید ہوا، دوسری فلسطینی انتفاضہ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 30 ستمبر 2000 کو فرانسیسی ٹیلی وژن نیٹ ورک کی جانب سے ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں واضح طور پر اس 11 سالہ بچے کے قتل کے مناظر دکھائے گئے ہیں، جب وہ غزہ شہر کے جنوب میں شارعِ صلاح الدین پر اپنے والد کے ساتھ ایک کنکریٹ کی رکاوٹ کے پیچھے پناہ لیے ہوئے تھا۔ صہیونی فوج کے ہاتھوں اس فلسطینی بچے کے قتل نے فلسطینی قوم کے جذبات کو شدید طور پر بھڑکا دیا اور مختلف علاقوں میں غم و غصے پر مبنی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان مظاہروں کے دوران صہیونی فوجیوں اور فلسطینی شہریوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں، جن کے نتیجے میں درجنوں فلسطینی شہید یا زخمی ہو گئے۔

فلسطین کی دوسری انتفاضہ، پہلی انتفاضہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید جھڑپوں، فوجی کارروائیوں میں اضافے اور فلسطینی مزاحمت اور صہیونی فوج کے درمیان براہِ راست تصادم کی حامل رہی۔ دونوں فریقوں کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اس انتفاضہ کے دوران 4412 فلسطینی شہید ہوئے جبکہ 48 ہزار 322 افراد زخمی ہوئے۔ دوسری جانب 1069 صہیونی ہلاک اور 4500 سے زائد زخمی ہوئے۔ انتفاضۂ الاقصیٰ کے دوران پیش آنے والے اہم ترین واقعات میں سے ایک، صہیونی رجیم کے اس وقت کے وزیرِ سیاحت رحبعام زئیفی کا فلسطین کی عوامی محاذ برائے آزادیٔ فلسطین کے مجاہدین کے ہاتھوں قتل تھا، جو اس انتفاضہ کے نمایاں واقعات میں شمار ہوتا ہے۔

(جاری ہے۔۔)

متعلقہ مضامین

  • حماس کے قیام کی سالگرہ، فلسطین میں مزاحمت کی گہری جڑیں (2)
  • حماس کے قیام کی سالگرہ، فلسطین میں مزاحمت کی گہری جڑیں (1)
  • بیماری پر گایوں کے ذبح کے حکومتی فیصلے کیخلاف فرانسیسی کسان سڑکوں پر آگئے
  • بشار اسد کے زوال کی پہلی سالگرہ، ایک سال میں شام انہدام کے دہانے پر
  • اٹلی: آثار قدیمہ کے خزانے لوٹنے والے درجنوں چور گرفتار
  • کھرمنگ، ایم ڈبلیو ایم کے زیر اہتمام امید سحر کنونشن
  • کیلیفورنیا کی خاتون نے سالگرہ سے ایک دن قبل لاکھوں ڈالرز کی لاٹری جیت لی
  • برادر اسلامی ملک  ترکیہ کے تعاون سے ہری پور میں 41 اجتماعی شادیوں کا اہتمام
  • فرانسیسی ترقیاتی ایجنسی کے وفد کا این جی سی ہیڈ کوارٹرز لاہور کا دورہ
  • سابق فرانسیسی صدر نے جیل کی زندگی کو جہنم قرار دے دیا