سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا
اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسماء نام، قبیلہ خثعم سے تھیں۔ سیدنا جعفرؓ سے ہوا جو سیدنا علیؓ کے بڑے بھائی تھے اور دس برس بڑے تھے۔
آنحضرتؐ کے خانہ ارقم میں مقیم ہونے سے قبل مسلمان ہوئیں، سیدنا جعفرؓ نے بھی اسی زمانے میں اسلام قبول کیا تھا (سیرت ابن ہشام)۔
حبشہ کی ہجرت کی، اور کئی سال تک مقیم رہیں، سن سات ہجری میں جب خیبر فتح ہوا، تو مدینہ آئیں، سیدنا حفصہؓ کے گھر گئیں تو سیدنا عمرؓ بھی آگئے، پوچھا یہ کون ہیں، جواب ملا اسماء۔ بولے: ہاں وہ حبش والی وہ سمندر والی۔ سیدہ اسماءؓ نے کہا ہاں وہی۔ سیدنا عمرؓ نے کہا ہم کو تم پر فضیلت ہے، اس لیے کہ ہم مہاجر ہیں، سیدہ اسماءؓ کو یہ فقرہ سن کر غصہ آیا، بولیں: کبھی نہیں! تم آنحضرتؐ کے ساتھ تھے، آپ بھوکوں کو کھلاتے اور جاہلوں کر پڑھاتے تھے، لیکن ہماری حالت بالکل جدا نہ تھی، ہم نہایت دور دراز مقام میں صرف خدا اور رسول کی خوشنودی کے لیے پڑے رہے اور بڑی بڑی تکلیفات اٹھائیں۔ آنحضرتؐ مکان پر تشریف لائے تو انہوں نے سارا قصہ بیان کیا، ارشاد ہوا:
انہوں نے ایک ہجرت کی اور تم نے دو ہجرتیں کیں۔ اس لیے تم کو زیادہ فضیلت ہے۔ سیدہ اسماءؓ اور دوسرے مہاجرین کو اس سے اس درجہ مسرت ہوئی کہ دنیا کی تمام فضیلتیں ہیچ معلوم ہوتی تھیں۔ مہاجرین حبشہ جوق درجوق سیدہ اسماءؓ کے پاس آتے اور یہ واقعہ دریافت کرتے تھے (صحیح بخاری)۔
سن آٹھ ہجری غزوۂ موتہ میں سیدنا جعفرؓ نے شہادت پائی، آنحضرتؐ کو خبر ہوئی۔ سیدہ اسماءؓ فرماتی ہیں کہ میں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی دیکھا کہ حضور آبدیدہ تھے، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ غمگین کیوں ہیں۔ کیا جعفرؓ کے متعلق کوئی اطلاع آئی ہے، حضور نے ارشاد فرمایا کہ ہاں وہ شہید ہوگئے ہیں۔ بچوں کو نہلا دھلا کر ہمراہ لے گئی تھی، حضور نے بچوں کو اپنے پاس بلایا اور میں چیخ اٹھی۔ آنحضرتؐ اپنے اہل بیت کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: جعفرؐ کے بچوں کے لیے کھانا پکاؤ، کیونکہ وہ رنج و غم میں مصروف ہیں (مسند)۔
اس کے بعد مسجد میں جا کر غم زدہ بیٹھے، اور اس خبر کا اعلان کیا، اسی حالت میں ایک شخص نے آکر کہا کہ جعفرؓ کی مستورات ماتم کر رہی ہیں اور رو رہی ہیں۔ آپ نے ان کو منع کرا بھیجا، وہ گئے اور واپس آکر کہا کہ میں نے منع کیا لیکن وہ باز نہیں آتیں۔ آپ نے دوبارہ بھیجا، وہ دوبارہ گئے اور واپس آکر عرض کی کہ ہم لوگوں کی نہیں چلتی، آپ نے ارشاد فرمایا: تو ان کے منہ میں خاک بھردو۔ یہ واقعہ سیدہ عائشہؓ سے صحیح بخاری میں منقول ہے، صحیح بخاری میں یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہؓ نے اس شخص سے کہا کہ: خدا کی قسم تم یہ نہ کرو گے (منہ میں خاک ڈالنا) تو آنحضرتؐ کو تکلیف سے نجات نہ ملے گی (صحیح بخاری)۔
تیسرے دن آنحضرتؐ سیدہ اسماءؓ کے گھر تشریف لائے، اور سوگ کی ممانعت کی، (جس عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے اس کو چار ماہ دس دن سوگ کرنا چاہیے، مسئلہ یہی ہے سیدہ اسماءؓ کی اس روایت سے شبہہ میں نہ پڑنا چاہیے، اس لیے کہ یہ روایت تمام صحیح احادیث کے خلاف ہے اور شاذ ہے۔ اور اجماع اس کے مخالف۔ امام طحاوی کے نزدیک یہ روایت منسوخ ہے اور امام بیہقی کے نزدیک منقطع ہے، ملاحظہ ہو فتح الباری، ان کے سوا اور بہت سے جوابات ہیں جن کی تفصیل کا موقع یہاں نہیں ہے۔) تقریبا چھ مہینے کے بعد شوال سن آٹھ ہجری میں جو غزوہ حنین کا زمانہ تھا۔ آنحضرتؐ نے سیدنا ابوبکرؓ سے ان کا نکاح پڑھا دیا (اصابہ)۔ جس کے دو برس بعد ذوقعدہ سن دس ہجری میں محمد بن ابوبکرؓ پیدا ہوئے، اس وقت سیدہ اسماءؓ حج کی غرض سے مکہ آئیں تھیں، چونکہ محمد ذوالحلیفہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اسماءؓ نے دریافت کرایا کہ میں کیا کروں؟ ارشاد ہوا نہا کر احرام باندھیں (صحیح مسلم)
آنحضرتؐ کے مرض الموت میں سیدہ ام سلمہ اور اسماءؓ نے ذات الجنب تشخیص کر کے دوا پلانی چاہی، چونکہ گوارہ نہ تھی، آپ نے انکار فرمایا۔ اسی ممانعت میں غشی طاری ہو گئی، انہوں نے منہ کھول کر پلادی، افاقہ کے بعد آپ کو احساس ہوا تو فرمایا، یہ مشورہ اسماء (رضی اللہ تعالی عنہا) نے دیا ہو گا۔ وہ حبشہ سے اپنے ساتھ یہی حکمت لائی ہیں، عباسؓ کے علاوہ سب کو دوا پلائی جائے چنانچہ تمام ازواج مطہراتؓ کو دوا پلائی گئی (صحیح بخاری)
سن تیرہ ہجری میں سیدنا ابوبکرؓ نے وفات پائی تو وصیت کی کہ اسماء غسل دیں (اصابہ بحوالہ ابن سعد) ابوبکرؓ کے بعد سیدہ اسماءؓ سیدنا علیؓ کے نکاح عقد میں آئیں، محمد بن ابوبکرؓ بھی ساتھ آئے اور سیدنا علی کے آغوش تربیت میں پرورش پائی۔ ایک دن عجیب لطیفہ ہوا، محمد بن جعفرؓ اور محمد بن ابوبکرؓ نے باہم فخراً کہا کہ ہم تم سے بہتر ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے باپ تمھارے باپ سے بہتر تھے۔ علیؓ نے سیدہ اسماءؓ سے کہا کہ اس جھگڑے کا فیصلہ کرو۔ بولیں کہ تمام نوجوانوں پر جعفرؓ کو اور تمام بوڑھوں پر ابوبکرؓ کو فضیلت حاصل ہے۔ سیدنا علیؓ بولے: پھر ہمارے لیے کیا رہا؟ (اصابہ)۔ سن 38 ہجری میں محمد بن ابوبکر مصر میں قتل ہوئے اور گدھے کی کھال میں ان کی لاش جلائی گئی، سیدہ اسماءؓ کے لیے اس سے تکلیف دہ واقعہ کیا ہو سکتا تھا؟ ان کو سخت غصہ آیا، لیکن نہایت صبر سے کام لیا، اور مصلے پر کھڑی ہو گئیں (اصابہ)۔
سن چالیس ہجری میں سیدنا علیؓ نے شہادت پائی اور ان کے بعد سیدہ اسماءؓ کا بھی انتقال ہوگیا (خلاصہ تہذیب)
جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے، سیدہ اسماءؓ نے تین نکاح کیے تھے۔ سیدنا جعفرؓ سے محمد، عبداللہ، عون، سیدنا ابوبکرؓ سے محمد، اور سیدنا علیؓ سے یحیی پیدا ہوئے (استیعاب)۔
مولانا سعید انصاری
گلزار
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سیدہ اسماء سیدنا علی کہا کہ کے بعد اس لیے
پڑھیں:
قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251119-03-1
ق، قسم ہے قرآن مجید کی۔ بلکہ اِن لوگوں کو تعجب اس بات پر ہوا کہ ایک خبردار کرنے والا خود اِنہی میں سے اِن کے پاس آگیا پھر منکرین کہنے لگے ’’یہ تو عجیب بات ہے۔ کیا جب ہم مر جائیں گے اور خاک ہو جائیں گے (تو دوبارہ اٹھائے جائیں گے)؟ یہ واپسی تو عقل سے بعید ہے‘‘۔ زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے۔ بلکہ اِن لوگوں نے تو جس وقت حق اِن کے پاس آیا اْسی وقت اْسے صاف جھٹلا دیا اِسی وجہ سے اب یہ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں۔ (سورۃ ق:1تا5)
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ ارشاد فرماتے ہیں ’’یہ قرآن ،اللہ تعالیٰ کا بچھا ہوا دستر خوان ہے ،جتنی بار ہوسکے خدا کے اس دستر خوان سے سیراب ہوتے رہو ،بلاشبہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے،یہ تاریکیوں کو ختم کرنے والی روشنی اور شفا دینے والی دواہے،یہ مضبوطی سے تھامنے والوں کا محافظ اور عمل کرنے والوں کے لیے ذریعہ نجات ہے،یہ کتاب کسی سے بے رخی اختیار نہیں کرتی کہ اسے منانے کی ضرورت پڑے،اس میں کوئی ٹیڑا پن نہیں کہ اسے سیدھا کرنے کی ضرورت پیش آئے،اس میں کبھی ختم نہ ہونے والے عجیب معانی کا خزانہ ہے اور یہ ایسا لباس ہے جو کثرت استعمال سے پْرانا نہیں ہوتا(مستدرک )