Jasarat News:
2025-11-21@03:50:04 GMT

بنگلا دیش کی سیاسی تاریخ کا نیا باب

اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بنگلا دیش کی سیاسی تاریخ میں ایک اور غیر معمولی باب اس وقت رقم ہوا جب انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اور سابق وزیر داخلہ اسدالزماں خان کمال کو انسانیت کے خلاف سنگین جرائم میں سزائے موت سنادی۔ سابق پولیس چیف عبداللہ ال مامون، جنہوں نے عدالت میں جرم قبول کیا، کو پانچ برس قید کی سزا دی گئی۔ فیصلے نے نہ صرف ڈھاکا بلکہ پورے خطے میں ایک سیاسی ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس محمد غلام مرتضیٰ نے 453 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ فیصلے میں تحریر ہے کہ ایک لیک آڈیو کال اور دیگر شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ شیخ حسینہ نے مظاہرہ کرنے والے طلبہ کے خلاف طاقت کے استعمال کی ہدایات دیں، ان کی آواز دبانے کے لیے ’’توہین آمیز اور جابرانہ اقدامات‘‘ کیے، اور ان کے مطالبات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے تحریک کو مزید بھڑکایا۔ عدالت نے مزید کہا کہ جس سیاسی جماعت نے ریاستی تشدد میں مرکزی کردار ادا کیا ہو، وہ آئندہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی مجاز نہیں رہتی۔ اس بنیاد پر عوامی لیگ کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی سفارش بھی سامنے آئی ہے۔ یہ اقدام جنوبی ایشیا کی سیاست میں ایک مثال بن سکتا ہے، جہاں حکمران جماعتوں پر ریاستی قوت کے بیجا استعمال کے الزامات اکثر دہرائے جاتے ہیں۔ فیصلے کے بعد عدالت کے اندر اور باہر کا منظر ایک سیاسی و سماجی کیفیت کی بھرپور عکاسی کرتا تھا۔ کورٹ روم کے اندر موجود افراد نے تالیاں بجا کر فیصلے کا خیرمقدم کیا، جبکہ ڈھاکا کی شاہراہوں پر لوگوں نے قومی پرچم لہراکر جشن منایا۔ کئی مظاہرین نے بنگلا دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کے گھر کے باہر جمع ہو کر اس کی مسماری کا مطالبہ بھی کیا یہ قدم اس بات کا غماز ہے کہ حالیہ واقعات نے ملکی جذبات کو کس حد تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے فیصلے کو ’’تاریخی سنگ ِ میل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بنگلا دیش نے پہلی مرتبہ ریاستی تشدد اور طاقت کے ناجائز استعمال کے خلاف جرأت مندانہ پیش رفت کی ہے۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ نہ صرف انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے بلکہ اگلی نسلوں کے لیے ایک اخلاقی مثال بھی قائم کرتا ہے۔ حیران کن طور پر فیصلے کے فوری بعد بنگلا دیشی وزارت خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ مفرور سزا یافتہ شیخ حسینہ اور اسدالزماں خان کو ڈھاکا کے حوالے کرے۔ وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ: ’’انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کو کسی دوسرے ملک میں پناہ دینا نہ صرف غیر دوستانہ رویہ ہے بلکہ انصاف کی توہین بھی ہے‘‘۔ یہ مطالبہ جنوبی ایشیا کی سفارت کاری میں ایک نیا موڑ ہے۔ بھارت کا ردِعمل کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ آنے والے ہفتوں میں ہوگا، لیکن یہ حقیقت واضح ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئی کشمکش نے جنم لے لیا ہے۔

جماعت ِ اسلامی بنگلا دیش نے فیصلے کو متاثرہ خاندانوں کے لیے ’’جزوی تسکین‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ برسوں سے انصاف کے منتظر افراد آج سکون کا سانس لے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس نیشنل سٹیزن پارٹی (NCP) کے کنوینر ناہید اسلام نے ڈھاکا میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ شیخ حسینہ کو ایک ماہ کے اندر واپس لا کر سزا پر عمل درآمد کیا جائے۔ ان کے بقول: ’’جولائی انقلاب کے ہزاروں شہیدوں اور زخمیوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا آج ازالہ ہو گیا ہے‘‘۔ یہ بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک کی ایک بڑی آبادی اس فیصلے کو ریاستی استحکام اور قومی تطہیر کی جانب اہم قدم سمجھتی ہے۔

اس فیصلے کے قانونی پہلو نہایت پیچیدہ مگر اہم ہیں۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کا قیام اگرچہ عالمی قوانین سے متاثر ضرور ہے، مگر اس کی حیثیت مکمل طور پر ملکی عدلیہ کے دائرۂ اختیار میں آتی ہے۔ اس وجہ سے چند بین الاقوامی حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا سزائے موت جیسے انتہائی اقدام کو بین الاقوامی قانونی معیار کے مطابق سمجھا جا سکتا ہے؟ لیکن بنگلا دیشی حکام کا مؤقف ہے کہ جب معاملہ ریاستی تشدد، قتل ِ عام اور مظاہرین کے خلاف دانستہ کارروائیوں کا ہو تو سزا میں نرمی انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہوگی۔

شیخ حسینہ واجد کے خلاف مقدمے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ آیا ریاست کے اعلیٰ ترین عہدوں پر موجود افراد کو ان کے فیصلوں، احکامات یا ’’غفلت‘‘ پر کس طرح جواب دہ ٹھیرایا جائے۔ دنیا بھر میں اس پر اختلافات موجود ہیں، مگر اس مقدمے نے اس بحث کو نئی توانائی دی ہے۔ اگر باضابطہ شواہد یہ ثابت کریں کہ ریاستی مشینری کو سیاسی مخالفین یا مظاہرین پر جبر کے لیے استعمال کیا گیا، تو یہ صرف قانون کی نہیں بلکہ جمہوریت کی اخلاقی بنیادوں کی بھی نفی ہے۔ بنگلا دیشی ٹریبونل کے حالیہ فیصلے نے اس حد کو واضح کر دیا ہے کہ ریاستی طاقت کے استعمال کی ’’سرخ لکیر‘‘ کہاں کھڑی ہے۔

عدالت کی آبزرویشن کہ عوامی لیگ آئندہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتی، ایک بہت بڑے سیاسی دھماکے سے کم نہیں۔ عوامی لیگ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک بنگلا دیشی سیاست کی محرک قوت رہی ہے۔ اگر اس جماعت کی تحلیل کا قانونی عمل شروع ہوتا ہے تو بنگلا دیش کا سیاسی نقشہ سرے سے بدل سکتا ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ بنگلا دیش کی سیاست میں ایک نئے عہد کے آغاز کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ کچھ حلقے اسے انصاف کی جیت قرار دے رہے ہیں تو کچھ اسے سیاسی انتقام کا شائبہ بھی سمجھتے ہیں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ بنگلا دیشی معاشرے میں ’’ریاستی تشدد‘‘ کے خلاف حساسیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اگر حکومت نے شفافیت، قانون کی حکمرانی اور عوامی شمولیت کو یقینی بنایا تو یہ فیصلہ ملک کو ایک زیادہ مضبوط، زیادہ ذمے دار اور زیادہ جمہوری ریاست کی سمت لے جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ریاستی تشدد بنگلا دیشی بنگلا دیش کے خلاف میں ایک سکتا ہے کے لیے

پڑھیں:

شیخ حسینہ اور طاقت کا اژدھا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251121-03-6
مطلق اور بے محابا طاقت کا شوق جنون میں ڈھل کر ایک ایسے پالتو اژدھے کی شکل اختیار کرتا ہے جو ایک روز پلٹ کر اپنے مالک ہی کو ہضم کرتا ہے۔ طاقت کے جنون میں طاقتور حماقتیں کرتا جاتا ہے۔ اس کے کان مخالف آوازوں کو سننے اور اس کی آنکھیں مخالفت میں بلند ہاتھوں کو دیکھنے کی روادار نہیں رہتیں۔ آئینہ خانے کے مکین کی طرح اسے چارں طرف اپنا ہی عکس نظر آتا ہے اور اس مسحور کن کیفیت میں وہ خالق کے قانون مکافات عمل کو یا مخلوق کے جذبات اور بگڑ جانے کی خو کو بھول بیٹھتا ہے۔ کچھ مخالف آوازوں کو جیلوں میں ڈال دیتا ہے کچھ ناپسندیدہ چہروں کو شہر خموشاں کا مکین بنا دیتا ہے۔ کچھ کے لب طاقت کی سوئی سے سی لیے جاتے ہیں اور باقی ماندہ زندہ لاشوں میں ڈھل کر رہ جاتے ہیں اور یوں آئینہ خانے کے مکین کو ہر طرف اپنا ہی عکس دکھائی دیتا ہے۔ اس عالم ِ مستی میں ہونے والا ہر فیصلہ حماقت ثابت ہوتا ہے۔ بنگلا دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کا اقتدار بھی مطلق طاقت کے اژدھے نے چاٹ کھایا اور اب وہ بھارت میں اس عالم میں جلاوطنی کے دن گزار رہی ہیں کہ ملک کی ہوائیں اور فضائیں انہیں بلارہی ہیں نہ عوام ان کی آمد کی راہ تک رہے ہیں بلکہ ملک کی عدالتیں قانون اور انصاف ان کا بے تابی سے انتظار کر رہی ہیں۔ ملک میں قتل وغارت کی بنا پر عدالت نے انہیں سزائے موت سنا دی ہے۔ شیخ حسینہ وطن سے بہت دور بھی نہیں بلکہ بنگلا دیش کے پہلو میں بھارت کے ایک مہمان خانے میں براجمان ہیں۔ ابھی مودی حکومت ایک اثاثہ سمجھ کر ان کی میزبانی کررہی ہے مگر وقت بدلتے دیر نہیں لگتی بنگلا دیش نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو حسینہ کی حوالگی کے ساتھ مشروط کیا تو یہی شیخ حسینہ بھارت کے لیے بوجھ بن جائیں گی۔

بھارت نے ستر سال قبل تبت کے لیڈر دلائی لامہ کو اپنے ہاں پناہ دے کر چین کے ساتھ مستقل مخاصمت کی بنیاد رکھی تھی۔ اب وہ شیخ حسینہ کی اسی انداز سے میزبانی پر مْصر رہا تو بنگلا دیش کے ساتھ اس کے تعلقات میں مستقل خرابی کا ایک خودکار نظام وجود میں آئے گا۔ بین الاقوامی اور بین الممالک تعلقات میں یوں بھی ایک وقت آتا ہے جب ملکوں کوافراد کے مقابلے میں ریاستی سطح کے تعلقات کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو عراق، لیبیا اور یاسر عرفات کی جلاوطن حکومت سمیت کئی ملکوں نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا مگر بعد میں وہ حالات کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کرتے چلے گئے۔ یہی معاملہ بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان شیخ حسینہ کیس کا ہے۔ اس لیے اب پھانسی کا پھندہ جھول جھول کر شیخ حسینہ کا انتظار کرتا رہے گا۔ شیخ حسینہ کے مظالم کا تعلق دو ادوار سے تھا۔ اس کا نیا پہلو یہ تھا کہ وہ اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھی جانے والی ہر قوت کو مٹا ڈالنا چاہتی تھی۔ اپنی قریب ترین حریف خالدہ ضیاء کو وہ جیل میں ڈال کر بھول ہی گئی تھیں۔ خالدہ ضیاء جیل گئی تھیں تو صحت اور توانائی کی اچھی حالت میں تھیں منظر اور موسم بدلا اور جیل کا پھاٹک اور طاقت کی پہنائی زنجیریں ٹوٹ گئیں تو وہ نحیف ونزار ویل چیئر کے ساتھ لگ چکی تھیں۔

یہ تو موجودہ حریفوں سے ان کا انتقام تھا ماضی کے زخم مندل کرنے کے لیے انہوں نے معاشرے کو نئے زخم لگانا ضروری سمجھا اور مشرقی پاکستان میں متحدہ پاکستان کے حق میں بلند ہونے والی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے پھانسیوں کا نیا سلسلہ شروع کیا۔ حالانکہ ان کے والد شیخ مجیب الرحمن ایک غیر تحریری معاہدے کے تحت ماضی کو دفن کرنے اور کسی سے انتقام نہ لینے کی یقین دہانی کر چکے تھے مگر شیخ حسینہ نے اپنے والد کی محبت سے سرشار ہو کر اپنے والد کے وعدوں کو ہی خلیج بنگال میں ڈبونے کا راستہ اختیار کیا۔ یوں اکہتر میں متحدہ پاکستان کی حمایت میں وزن ڈالنے والے جماعت اسلامی مسلم لیگ اور بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈروں کو پھانسیاں دے کر اپنی انا کی تسکین کا راستہ چن لیا گیا۔ جس سے بنگلا دیش میں حالات کے تالاب کا پانی مزید گدلا ہو کر رہ گیا۔ انہوں نے آخری وار کے طور پر اپوزیشن کی تمام آوازوں کو خاموش کرنے کے بعد انتخابات میں کامیابی کا سہرہ بھی اپنی جماعت عوامی لیگ کے سر سجالیا اور یوں وہ تاحیات حکمرانی کی راہوں پر تیزی سے بڑھتی چلی گئیں۔ وہ کسی وقت کی دیوار اور شاہراہ یا کسی گاڑی پر لکھی ہوئی یہ عبارت اور جملہ تو نہ پڑھ بھی سکیں کہ ’’تیز رفتاری باعث ہلاکت ہے‘‘ مگر عملی طور پر وہ اس حقیقت کا شکار ہوگئیں۔ انہوں نے بنگلا دیش کے عوام کی مزاحمانہ خْو بْو اور ماضی کو قطعی نظر انداز کیا۔ بنگال برصغیر کا وہی خطہ تھا جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف تاریخی اور یادگار مزاحمت کی۔ یہی وہ علاقہ تھا جس کی مٹی سے آل انڈیا مسلم لیگ کی صورت میں ایسی جماعت نے جنم لیا جو قائم تو ایک سماجی اور تاج برطانیہ کی وفادار کے طور پر ہوئی تھی مگر آگے چل کر اس نے بر صغیر کے وجود کے اندر سے ایک نیا وجود تراشنے کا کارنامہ سر انجام دیا۔ وہ یہ بات بھول گئیں کہ جس بنگال نے مغربی پاکستان کے غلبے کو قبول نہ کر کے اندھے کنویں میں چھلانگ لگانا پسند کیا وہ آزادیوں کا مزہ چکھنے کے بعد بھارت کی بالادستی اور غلامی کیونکر قبول کر سکتا ہے؟

بنگلا دیش کے عوام کا جمہوری شعور بھی جنوبی ایشیا میں سب سے مضبوط رہا۔ جس دور میں پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا ڈنکا بجتا تھا۔ انہی دنوں بنگلا دیش کے منظر پر جنرل حسین محمد ارشاد کی آمریت کا سورج بھی نصف النہار پر تھا۔ حسین محمد ارشاد باغیانہ مزاج کے حامل بنگالیوں پر تاحیات حکمرانی کا خواب دیکھ رہے تھے۔ بنگلا دیش جاتیہ پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنا کر وہ اپنے تاحیات اقتدار کو سیاسی چھتری فراہم کرنے اور اس کے ذریعے پارلیمانی تحفظ دینے کا سامان کرچکے تھے۔ جب جمہوریت کے لیے بنگلا دیشی عوام کی طلب کا پیمانہ چھلک پڑا تو حسین محمد ارشاد جیل میں تھے اور ان کی سیاسی شناخت جاتیہ پارٹی تاش کے پتوں کی مانند بکھر چکی تھی۔ یوں وہ جنوبی ایشیا کے پہلے طاقتور آمر تھے جنہیں بنگلا دیش کے عوام کے جذبہ ٔ جمہوریت اور حریت نے قانون کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا۔ یہ اعزاز بھی بنگلا دیش کے عوام نے اپنے نام کیا اور جب مغربی پاکستان کے غلبے اور غلامی کے نام پر بنگلا دیشی عوام کو بھڑکانے اور اْکسانے والے شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ نے حسین محمد ارشاد بننا شروع کیا تو طاقت کے ٹائی ٹینک کے آگے طلبہ نے اپنی نقد جاں کا آئس برگ سجادیا۔ پھر وہی ہوا جو ایسے کھیل کا ابدی انجام ہوتا ہے۔

عارف بہار سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • شیخ حسینہ اور طاقت کا اژدھا
  • اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی بتوں کی تعمیر و تخریب کی تاریخ
  • اجتماع پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگا، جاوید قصوری
  • بھارت کے خلاف جنگ میں فیلڈ مارشل نے میری مشاورت سے فیصلے کیے، وزیر اعظم
  • ویسٹ انڈیز کے کپتان شے ہوپ کا کرکٹ کی تاریخ میں نیا ریکارڈ
  • شیخ حسینہ کی سزائے موت کا فیصلہ؛ بھارت کیا کرے گا؟
  • شیخ حسینہ: سزائے موت کا فیصلہ!
  • بنگلا دیش کا سیاسی بحران؛ جماعت ِ اسلامی کا ابھرتا ہوا کردار
  • حسینہ واجد کو سزائے موت، بنگلہ دیش میں کہیں جشن، کہیں ہلچل