انڈیا الائنس پارلیمانی الیکشن تک ہی تھا اب ختم ہوگیا، پون کھیڑا
اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT
کانگریس لیڈر نے کہا کہ الگ الگ ریاستوں کی صورتحال کے حساب سے کانگریس ہو یا علاقائی پارٹیاں ہوں وہ فیصلہ کرتی ہیں کہ ہمیں متحد ہوکر لڑنا ہے یا الگ الگ ہوکر لڑنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پارلیمانی الیکشن 2024ء میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے ارادے سے بنایا گیا "انڈیا الائنس" کیا ختم ہوچکا ہے۔ یہ سوال اس وقت عوام کی طرف سے بھی پوچھا جا رہا ہے کیونکہ راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر تیجسوی یادو کے بعد کانگریس لیڈر پون کھیڑا نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ الائنس صرف پارلیمانی الیکشن تک ہی تھا۔ انڈیا الائنس سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں پون کھیڑا نے کہا کہ یہ الائنس پارلیمانی الیکشن کے لئے تھا اور قومی سطح پر تھا۔ انہوں نے کہا کہ الگ الگ ریاستوں کی صورتحال کے حساب سے جو پارٹیاں ہیں، کانگریس ہو یا علاقائی پارٹیاں ہوں وہ فیصلہ کرتی ہیں کہ ہمیں متحد ہو کر لڑنا ہے یا الگ الگ ہوکر لڑنا ہے۔
اس سے پہلے بکسر میں ورکر درشن کم ڈائیلاگ پروگرام میں راشٹریہ جنتا دل (آرجے ڈی) لیڈر اور سابق نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو نے بھی واضح طور پر کہا کہ ہندوستان اتحاد ختم ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اتحاد صرف پارلیمانی انتخابات 2024ء تک تھا اور الیکشن ختم ہونے کے بعد الائنس بھی ختم ہوگیا ہے۔ دراصل عام آدمی پارٹی اور کانگریس دونوں ہی انڈیا الائنس کا حصہ ہیں، لیکن دونوں پارٹیاں دہلی الیکشن الگ الگ لڑرہی ہیں اوراس دوران دونوں کے درمیان سخت نوک جھونک بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ دہلی الیکشن سے پہلے عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان تلخ نوک جھونک پر جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ اپوزیشن متحد نہیں ہے، اس لئے انڈیا الائنس کو تحلیل کردینا چاہیئے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
ریاست آسام میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ آف انڈیا برہم، توہین عدالت کا نوٹس جاری
ریاستی انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست آسام کے گولپاڑہ ضلع کے ہسیلا بیلا گاؤں میں مبینہ طور پر غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کی گئی بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ریاست کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے۔ یہ نوٹس اس وقت جاری کیا گیا جب اس کارروائی سے متاثرہ افراد کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ درخواست گزاروں کے وکیل عدیل احمد نے عدالت کو بتایا کہ 13 جون 2025ء کو انتظامیہ نے ایک عمومی نوٹس جاری کیا تھا، جس میں 15 جون تک علاقہ خالی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، تاہم نہ تو کسی کو ذاتی طور پر مطلع کیا گیا اور نہ ہی کوئی سنوائی کا موقع دیا گیا۔ 667 خاندانوں کے گھروں اور 5 اسکولوں کو منہدم کر دیا گیا، جس سے بچوں کے بنیادی تعلیمی حقوق بھی متاثر ہوئے۔
وکیل نے مزید کہا کہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے 13 نومبر 2024ء کے اس حکم کی صریح خلاف ورزی ہے، جس میں بلڈوزر کارروائی سے قبل قانونی ضابطوں کی مکمل تعمیل پر زور دیا گیا تھا۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 60 برسوں سے اس علاقے میں آباد ہیں اور ان کے آبا و اجداد دریائے برہم پتر کے کٹاؤ کے سبب اپنی زمینیں کھو چکے تھے۔ لہٰذا وہ سبھی بے دخل شدہ افراد "پرانے باشندے" اور بازآبادکاری کے مستحق ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے جمعرات کو اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے آسام کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا اور آئندہ سماعت میں جواب طلب کیا۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جن افسران نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی، ان کے خلاف کارروائی کی جائے، متاثرہ خاندانوں کو مناسب معاوضہ اور متبادل رہائش فراہم کی جائے، نیز منہدم شدہ اسکولوں کی فوری تعمیر نو کا حکم دیا جائے۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہے اور آئندہ سماعت میں حکومت آسام کو اس کارروائی کی وضاحت دینی ہوگی کہ آخر کس بنیاد پر بغیر مناسب ضابطے کی تکمیل کے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بے دخل کیا گیا۔ اس کارروائی کو لے کر انسانی حقوق کے ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں اور سیاسی سطح پر بھی اس پر تنقید جاری ہے۔