Express News:
2025-07-26@06:32:29 GMT

شمس الدین جبار اور امریکی مسلمانوں کی شرمندگی

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

آج سے24برس قبل امریکی شہر، نیویارک، میں نائن الیون کے نام سے جو عظیم المیہ جنم لیا، امریکا اور امریکی شہری اِسے فراموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ۔ اِس تاریخی المناک سانحہ میں تین ہزار امریکی شہری ہلاک ہو گئے تھے ۔ نائن الیون سانحہ میں ملوث دہشت گردوں کے بارے میں امریکی تفتیش کاروں کا الزام ہے کہ اِس میں مسلمان شامل تھے ۔

اِن دہشت گردوں کے پس منظر بارے جو داستانیں منصہ شہود پر آئیں، ان میں یہ صراحت سے بتا دیا گیا تھا کہ یہ لوگ بنیادی طور پر کن مسلمان ممالک سے تعلق رکھتے تھے ۔

اِن معلومات کی بنیاد پر امریکی مسلمان کمیونٹی کو کئی آزمائشوں سے گزرنا پڑا ۔ یہ مراحل جانگسل بھی تھے اور حوصلہ شکن بھی ۔ امریکی شہریوں کے لیے بھی اور امریکی مسلمان کمیونٹی کے لیے بھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مگر فریقین میں مفاہمت کے جذبات نے جنم لیا ۔ امریکی شہریوں نے انتقام کے جذبے کو دبایا اور آگے بڑھ کر زیر عتاب آئی امریکی مسلمان کمیونٹی کے ساتھ رہنا سہنا سیکھ لیا ۔

مگر آئے دن امریکا میں کسی نہ کسی المناک سانحہ میں ملوث ، بدقسمتی سے، نئے سرے سے کوئی مسلمان شناخت رکھنے والا شخص ہی نکل آتا ہے ۔ ایسا شخص پوری امریکی مسلمان کمیونٹی کے لیے بدنامی اور شرمندگی کا باعث بن جاتا ہے ۔ یعنی ایک گندی مچھلی اپنے گندے کردار سے پوری امریکی مسلمان برادری کے جَل کو گندا اور پراگندہ کردیتی ہے ۔

ایسا ہی ایک المناک سانحہ یکم جنوری کی رات امریکا میں پیش آیا ۔ اُس رات امریکی شہری، ہر سال کی روائت کے تحت، مشہور امریکی ریاست ’’لوزیانا‘‘(Louisiana) کے مشہور شہر ’’ نیو اورلینز‘‘(New Orleans) میں نئے سال2025ء کو خوش آمدید کہنے کے لیے موج مستی کررہے تھے۔

اچانک ایک طرف سے ایک تیز رفتار گاڑی (جسے ہم پاکستانی زبان میں ویگو گاڑی یا ڈالا بھی کہہ سکتے ہیں)آئی اورموج میلہ کرتے امریکی ہجوم کو روندتی چلی گئی ۔ ساتھ ہی ڈرائیور نے وہاں لوگوں اور پولیس نفری پر گولیاں بھی برسائیں ۔ جواباً پولیس نے بھی نامعلوم حملہ آور پر گولیاں چلا دیں ۔ چیخ و پکار اور شوروغوغا رُکا تو معلوم ہوا کہ حملہ آور بھی پولیس کے ہاتھوں مارا جا چکا ہے اورہلاکت سے قبل اُس نے 15بے گناہ انسانوں کو اپنی بھاری گاڑی کے نیچے کچل کر مارڈالا ہے ۔ پولیس اہلکاروں سمیت جو عام لوگ اُس کے حملے سے شدید زخمی ہوئے ، اُن کی تعداد تین درجن سے زائد بتائی گئی ہے ۔

پولیس نے ہلاک ہونے والے حملہ آور کی شناخت اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ(1) وہ امریکی مسلمان ہے (2) اُس کا نام شمس الدین جبار ہے (3) عمر42سال ہے (4) یکے بعد دیگرے تین شادیاں کر چکا ہے (5) دو شادیوں سے تین بچے ہیں ( 6) سیاہ فام داڑھی رکھے ہے(7) وہ امریکی ریاست ٹیکساس میں پیدا ہوا (8) دو امریکی جامعات کا فارغ التحصل تھا(9)انفرمیشن ٹیکنالوجی کا ماہر تھا (10)امریکی فوج میں رہا ۔

افغانستان، تاجکستان اور یوکرائن میں فوجی خدمات انجام دیتا رہا (11)امریکی فوج سے سبکدوشی کے بعد وہ کئی چوریوں میں بھی ملوث پایا گیا ۔ کئی بار بغیر لائسنس مہلک گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے گرفتار بھی ہوا (12)اُس کی طلاق یافتہ بیویوں نے مقامی پولیس کو شکائت لگائی کہ وہ منصوبہ بندی سے ہمیں ہلاک کرنا چاہتا ہے (13) ایک بیوی نے اعتراف کیا کہ فوج سے نکلنے کے بعد وہ زیادہ متشدد مسلمان ہو گیا تھا ( 14) ہلاک کیے جانے کے بعد اُس کی گاڑی سے عالمی شہرت یافتہ دہشت گرد تحریک ’’داعش‘‘ کے پرچم بھی برآمد ہوئے (15)اُس کے ایک ای میل سے منکشف ہوا کہ وہ خود بھی’’داعش‘‘ میں شامل ہونا چاہتا تھا ۔

شمس الدین جبار نے یہ قاتلانہ فعل انفرادی حیثیت میں کیا ۔ اُس کے اقدام سے مگر امریکا کی چار ملین مسلم آبادی شدید متاثر بھی ہُوئی ہے اور ایک بار پھر مقامی امریکیوں کی سخت تنقید اور تنقیص کا ہدف بن رہی ہے ۔ وہ امریکی جو بوجوہ امریکی مسلمانوں بارے سخت تحفظات رکھتے ہیں ، شمس الدین جبار کے قاتلانہ فعل سے اُن کے منہ پھر کھل گئے ہیں ۔امریکی مسلمانوں سے مقامی امریکیوں کے شکوے شکایات اور ناراضیاں پھر بڑھنے لگی ہیں ۔ اِس کا ایک اندازہ ہمیں واشنگٹن کی ڈیٹ لائن سے ایک معاصر میں شائع ہونے والی اِس رپورٹ سے بھی ہوتا ہے ۔

اِس رپورٹ کا عنوان ہی یہ ہے American Muslims in a state of shock after New Orleans terror attack اِس رپورٹ کے مطابق: شمس الدین جبار کے دہشت گردانہ عمل سے امریکی مسلمان برادری سناٹے اور خوف میں آ گئی ہے ۔ امریکی مسلمان کمیونٹی کو نئے خطرات و خدشات نے گھیر لیا ہے ۔ امریکی مسلمانوں کی نمایندہ تنظیموں ( مثلاً CAIRاورICNAاورISCG) نے اگرچہ کھل کر شمس الدین جبار کے تشدد اور قتل کی اِس قابلِ نفرت حرکت کی شدید مذمت بھی کی ہے اور متاثرین سے اظہارِ افسوس بھی کیا ہے ، مگر کون جانے امریکی دلوں میں پکتا لاوا کب اور کہاں اُبل پڑے ؟

ڈر ہے کہ شمس الدین جبار کے اِس قاتلانہ اقدام سے امریکا میں آنے والے مسلمان تارکینِ وطن (Immigrants) اور علم کے حصول اور تجارت کی غرض سے آنے والے مسلمانوں کے خلاف جذبات میں بھڑکاؤ آئے گا ۔ نَو منتخب امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، کے ایک بیان سے اشتعال انگیزی کی ایک صورت تو سامنے بھی آگئی ہے ۔’’ نیو اور لینز‘‘ میںشمس الدین جبار کے ہاتھوں 15امریکیوں کی ہلاکت کے بعد ٹرمپ نے ایک بیان میں یوں کہا:’’جب مَیں نے کہا تھا کہ باہر سے آنے والے مجرم ہمارے ملک میں موجود مجرموں سے زیادہ بد تر ہیں تو میرے مخالف ڈیموکریٹس اور فیک نیوز میڈیا نے میرے اِس بیان کی مسلسل تردید کی ، لیکن (اب’’ اورلینز ٹریجڈی ‘‘کے بعد) میرا کہا سچ ثابت ہوا ہے ۔

یہ بھی سچ ثابت ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں جرائم کی شرح اِس سطح پر آ چکی ہے جو پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھی ۔‘‘ٹرمپ کے اِس بیان کے بعد امریکی مسلمانوں اور امریکا میں آنے والے نئے مسلمانوں پر اگر خدانخواستہ نئی اُفتادیں اور آزمائشیں اُمنڈ آتی ہیں تو کہا جائے گا کہ اِس کی دعوت خود شمس الدین جبار ایسے امریکی مسلمانوں نے دی ۔

اسلام تو امن اور سلامتی کا مذہب ہے ۔ سمجھ مگر نہیں آرہی کہ پھر شمالی امریکا اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمان برادری میں جرائم کی شرح کیوں بڑھتی جارہی ہے ؟ امریکی اور مغربی مسلمان اپنے میزبان غیر مسلم ممالک کے لیے امن اور سلامتی کا سمبل کیوں نہیں بن پا رہے ؟ حقائق بڑے ہی تلخ ہیں ۔ مثال کے طور پر رواں لمحوں میں برطانوی جیلوں میں قید مسلمانوں کی شرح 18فیصد ہے (برطانوی جیلوں میں 15ہزار مسلمان قید ہیں) ۔کہا جاتا ہے کہ برطانیہ میں38لاکھ مسلمان بس رہے ہیں ۔

کُل برطانوی آبادی کا قریباً7فیصد۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ برطانوی جیلوں میں بوجوہ زندگی گزارنے والے مسلمانوں کی تعداد بے حد زیادہ ہے۔ امریکی جیلوں میں قید کیے گئے مسلمانوں کی شرح 10فیصد ہے ( امریکی جیلوں میں اِس وقت 1لاکھ 40ہزار مسلمان قید ہیں) ۔ کینیڈا کی جیلوں میں قیدی مسلمانوں کی شرح 8فیصد ہے۔ بطورِ پاکستانی مسلمان بھی ہمیں اِن حقائق پر، بحثیتِ مجموعی، شرمندگی اور ندامت کا اظہار کرنا چاہیے ۔ اِس امر کا کھوج بھی لگانا چاہیے کہ آخر عالمی سطح پر مسلمان کمیونٹی باعزت برادری کا لقب پانے سے کیوں قاصر ہے ؟؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شمس الدین جبار کے امریکی مسلمانوں مسلمانوں کی امریکا میں ا نے والے کے بعد کی شرح کے لیے

پڑھیں:

امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیسکو سے علیحدگی کی وجہ ادارے کی جانب سے ''تفریق کرنے والے سماجی و ثقافتی نظریات کو فروغ دینا‘‘ ہے۔

بروس نے کہا کہ یونیسکو کا فیصلہ کہ وہ ’’فلسطین کی ریاست‘‘ کو رکن ریاست کے طور پر تسلیم کرتا ہے، امریکی پالیسی کے منافی ہے اور اس سے ادارے میں اسرائیل مخالف بیانیہ کو فروغ ملا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی اسسٹنٹ پریس سیکرٹری اینا کیلی نے کہا، ''یونیسکو ایسے تقسیم پسند ثقافتی و سماجی مقاصد کی حمایت کرتا ہے جو ان عام فہم پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتیں جن کے لیے امریکی عوام نے نومبر میں ووٹ دیا۔

(جاری ہے)

‘‘

یونیسکو کا ردِعمل

یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے واشنگٹن کے فیصلے پر ''گہرے افسوس‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ اس صورتحال کے لیے پہلے سے تیار تھا۔

انہوں نے اسرائیل مخالف تعصب کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا، ''یہ دعوے یونیسکو کی اصل کوششوں کے برخلاف ہیں۔‘‘

اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں یونیسکو کے لیے ''غیر متزلزل حمایت‘‘ کا اعلان کیا اور کہا کہ امریکہ کا فیصلہ فرانس کی وابستگی کو کمزور نہیں کرے گا۔

یونیسکو کے اہلکاروں نے کہا کہ امریکی علیحدگی سے ادارے کے کچھ امریکی فنڈ سے چلنے والے منصوبوں پر محدود اثر پڑے گا، کیونکہ ادارہ اب متنوع مالی ذرائع سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کا صرف 8 فیصد بجٹ ہی امریکہ سے آتا ہے۔

اسرائیل کا ردعمل

اسرائیل نے امریکہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے یونیسکو پر ''مسلسل غلط اور اسرائیل مخالف جانبداری‘‘ کا الزام عائد کیا۔

اسرائیلی وزیر خارجہ نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں امریکہ کی ''اخلاقی حمایت اور قیادت‘‘ کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’اسرائیل کو نشانہ بنانے اور رکن ممالک کی سیاسی چالوں کا خاتمہ ضروری ہے، چاہے وہ یونیسکو ہو یا اقوام متحدہ کے دیگر پیشہ ور ادارے۔

‘‘ امریکہ پہلے بھی یونیسکو چھوڑ چکا ہے

یونیسکو طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان ایک بین الاقوامی محاذ رہا ہے، جہاں فلسطینی عالمی اداروں اور معاہدوں میں شمولیت کے ذریعے اپنی ریاستی حیثیت تسلیم کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسرائیل اور امریکہ کا مؤقف ہے کہ فلسطین کو اس وقت تک کسی بھی بین الاقوامی ادارے میں شامل نہیں ہونا چاہیے جب تک وہ اسرائیل کے ساتھ ایک مکمل امن معاہدے کے تحت ریاستی درجہ حاصل نہ کر لے۔

امریکہ نے پہلی بار 1980 کی دہائی میں یونیسکو پر سوویت نواز جانبداری کا الزام لگا کر اس سے علیحدگی اختیار کی تھی، لیکن 2003 میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی۔ لیکن سابق صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں دو سال قبل امریکہ نے یونیسکو میں دوبارہ شمولیت اختیار کی تھی ۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • مودی حکومت نے مزید 3 کشمیری مسلمانوں کو املاک سے محروم کر دیا
  • غزہ پر یہودی حملوں کی شدت چھپانے کیلئے میڈیا پر پابندی(134 مسلمان شہید)
  • اُمت کی اصل شناخت ایثار اور صلہ رحمی ہے، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
  • مودی راج میں مسلمان بنگالی مہاجرین کی مذہبی بنیاد پر بے دخلی کا سلسلہ جاری
  • یہودی درندوں کے حملوں سے 79 مسلمان غزہ میں شہید
  • مودی سرکار عدالت میں ہار گئی!
  • "ادے پور فائلز" مسلمانوں کو دہشتگرد کے طور پر پیش کرتی ہے، مولانا ارشد مدنی
  • ڈراموں میں زبردستی اور جبر کو رومانس بنایا جا رہا ہے، صحیفہ جبار خٹک
  • بھارت: غیرملکی کے نام پر ملک بدری، نشانہ بنگالی بولنے والے مسلمان
  • امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا