حالات بتا رہے ہیں کہ گلگت بلتستان میں آئندہ مخلوط حکومت بنے گی، گورنر
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
مقامی میڈیا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں گورنر جی بی کا کہنا تھا کہ سکردو حلقہ نمبر 1 میں میرے بیٹے توقیر مہدی شاہ، پارٹی کے ڈویژنل صدر بشارت ظہیر اور صوبائی وزیر تعلیم غلام شہزاد آغا پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے تگ و دو کر رہے ہیں، سکہ اسی کا چلے گا جس کو پارٹی کا ٹکٹ ملے گا۔ اسلام ٹائمز۔ گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے کہا ہے کہ آئندہ الیکشن میں کوئی بھی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کرے گی، حالات بتا رہے ہیں کہ یہاں مخلوط حکومت بنے گی۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتیں اپنی اپنی کوششیں کر رہی ہیں، ہر کوئی جیت کیلئے کوشش کرے گا۔ اس طرح یہاں اکثریت کسی کو بھی نہیں ملے گی۔ مقامی میڈیا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں گورنر جی بی کا کہنا تھا کہ سکردو حلقہ نمبر 1 میں میرے بیٹے توقیر مہدی شاہ، پارٹی کے ڈویژنل صدر بشارت ظہیر اور صوبائی وزیر تعلیم غلام شہزاد آغا پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے تگ و دو کر رہے ہیں، سکہ اسی کا چلے گا جس کو پارٹی کا ٹکٹ ملے گا۔ ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ پارٹی ٹکٹ کس کو ملے گا۔ کچھ نئے لوگ بھی پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں ،میرے نزدیک وہی موزوں ہوگا جس کو پارٹی کا ٹکٹ ملے گا۔ میں کسی کے حق میں بولوں گا تو ایشو کھڑا ہو گا اس لئے یہی کہوں گا کہ میں ٹکٹ ہولڈر کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔
سید مہدی شاہ کا کہنا تھا کہ آئندہ جو بھی حکومت قائم ہو گی اس کو ترجیحی بنیادوں پر بجلی بحران کے خاتمے کیلئے کام کرنا ہوگا کیونکہ بجلی گلگت بلتستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ صرف نعروں سے کام نہیں چلے گا۔ آنے والی حکومت کو بجلی بحران کے خاتمے کیلئے عملی کام کرنا ہو گا۔ بجلی کے حوالے سے چیلنجز بہت زیادہ ہیں، بجلی کی پیدوار اچھی ہو گی تو ہر کام ہو سکتا ہے۔ سارے مسائل حل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تھرمل بجلی رمضان المبارک کے خاتمے تک دی جائے گی، اس کے بعد سولر سے بجلی ملنا شروع ہو گی۔ ہرپوہ، شغرتھنگ اور غواڑی پاور پراجیکٹ پر بھی کام ہو گا، ان بجلی گھروں کی تکمیل سے قبل ہی ہمارا علاقہ نیشنل گرڈ سے بھی منسلک ہو گا۔ پھر ہمیں وہاں سے بھی بجلی ملے گی تب تک ہمارا ریجنل گرڈ بھی بنے گا
گورنر گلگت بلتستان کا مزید کہنا تھا کہ بھاشا ڈیم کی بجلی نیشنل گرڈ کے ذریعے ہمیں ملے گی، تھرمل بجلی واقعی میں مستقل حل نہیں ہے مگر تھرمل کے بغیر ہمارے پاس وقتی حل نہیں تھا۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی رانا ثنا اللہ نے بڑا اچھا رسپانس دیا، ہمیں توقع نہیں تھی کہ وہ اتنا اچھا رسپانس دیں گے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ایک دو گھنٹے بجلی سے کیا ہو گا، جی بی کے لوگوں کو کم از کم پانچ سے چھ گھنٹے بجلی ملنی چاہیئے۔ وزیر اعلی حاجی گلبر خان اور ہم سب نے بجلی کا معاملہ اٹھایا۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی رانا ثنا اللہ نے بجلی بحران کا نوٹس لیتے ہوئے تھرمل بجلی کی فراہمی کیلئے فنڈز کی فراہمی کا بھی حکم دیدیا۔ انشا اللہ عوامی مشکلات دور ہو جائیں گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: گلگت بلتستان کہنا تھا کہ مہدی شاہ رہے ہیں
پڑھیں:
گلگت بلتستان کا یوم آزادی اور درپیش چیلنجز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-4
راجا ذاکرخان
گلگت بلتستان کے عوام یکم نومبرکو یوم آزادی گلگت بلتستان بھرپور انداز سے مناتے ہیں، یکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان کے بہادر اور غیور عوام نے ڈوگرہ فوج سے 28 ہزار مربع میل کا علاقہ جہاد سے آزاد کرایا، گلگت بلتستان کے بچوں، بوڑھوں، مرد اور خواتین نے آزادی کے لیے اپنے سب کچھ قربان کرکے آزادی کی نعمت حاصل کی، تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق مسلم اکثریت والے علاقوں نے پاکستان بننا تھا اور ہندو اکثریتی علاقوں نے ہندوستان میں شامل ہونا تھا مگر انگریزوں اور ہندووں کی ملی بھگت سے وہ مسلم علاقے پاکستان میں شامل نہ ہوسکے جس میں کشمیر بھی شامل ہے، کشمیر پر مسلط ڈوگرہ نے ہندوستان سے جعلی اعلان الحاق کیا جس کی وہ سے تنازع پیدا ہوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے جہاد سے یہ خطے آزاد کرالیے مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر کشمیرکے علاقوں پر ہندوستان نے جبری فوجی قبضہ کرلیا جو آج تک قائم ہے۔
گلگت بلتستان کا یہ آزاد علاقہ آج دس اضلاع پر مشتمل ہے دنیا کی بڑی اونچی چوٹیاں یہاں ہیں، دنیا کا بلند ترین سطح پر میدان دیوسائی یہاں موجود ہے، دریا پہاڑ جنگلات ریگستان یہاں پائے جاتے ہیں، اس حوالے سے یہ دنیا کا خوبصورت ترین علاقہ ہے، دنیا کے مختلف ممالک سے سیاح یہاں آتے ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاح جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ ایک ہی نظر میں وہ سارے منظر دیکھ لیتے ہیں جو نظروں کو خیرہ کردیتے ہیں۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بیس کیمپ کی حیثیت رکھتے ہیں بانی پاکستان قائد اعظم نے ان آزاد خطوں کے عوام کے لیے انقلابی حکومت قائم کرائی تاکہ یہاں کے عوام کے مسائل حل بھی ہوں اور بقیہ کشمیرکی آزادی کے لیے حقیقی بیس کیمپ کا کردار ادا کریں، بیس کیمپ کی یہ حکومت قائد اعظم کے وژن کا نتیجہ ہے۔ لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی ایک ہی حکومت زیادعرصہ نہ چل سکی، پھر معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام پاکستان کے حوالے کیا گیا، اگرچہ عوام چاہتے تھے کہ یہ دونوں ساتھ ساتھ چلیں مگر کسی وجہ سے ان دونوں خطوں کا نظام حکومت الگ کیا گیا۔ نظام حکومت الگ کرانے میں گلگت بلتستان کے مقابلے میں آزاد کشمیرکی قیادت نے زیادہ کردار ادا کیا۔
گلگت بلتستان کے نظام حکومت میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں، اس وقت عبوری صوبے کا اسٹیٹس ہے، گورنر اور ویزرا علیٰ ہیں مگر یہ عبوری ہیں جب تک کشمیر آزاد ہوتا یہاں کے عوام پاکستان اور مقبوضہ کشمیرکے بھائیوں سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ ابتداء میں نظام حکومت کافی کمزور تھا ابھی کافی حد تک نظام حکومت میں بہتری آئی ہے اور ابھی بھی ارتقائی عمل جاری ہے۔ اس حساس خطے پر دشمن کی نظریں ہمیشہ سے رہی ہیں۔ فرقہ واریت کا شکار رہا ہے مگر یہاں کے تمام ہی مکاتب فکر کے علماء اور عوام نے سوچا کہ ہمیں تقسیم کرو اور حکومت کرو کا عمل کارفرما ہے اس لیے یہاںکے عوام نے فیصلہ کیا کہ اب ہم کو مل کر رہنا ہے اور اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور ترقی کا راستہ بھی یہی ہے۔ اس سوچ اور فکر کو پذیرائی ملی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں امن ہے۔ اس خطے میں سنی، اہل تشیع، نوربخشی، اسماعیلی سمیت دیگر مذاہت کے لوگ آباد ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں پاکستان کی جماعتوں کی شاخیں موجود ہیں مگر جماعت اسلامی، لبریشن فرنٹ سمیت دیگر ریاستی جماعتیں بھی موجود ہیں جو فعال کردار ادا کررہی ہیں۔ ریاستی جماعتوں میں جماعت اسلامی بڑی اور فعال جماعت ہے جو پورے گلگت بلتستان میں موجود ہے عوام کے کام کررہی ہے، انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور اچھا مقابلہ کرتی ہے۔ امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیرگلگت بلتستان ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کئی دورے کیے ہیں۔
گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وے ہونے کی وجہ سے اور بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے، یہ پاکستان کا قدرتی حصار ہے، گلگت بلتستان کے عوام بھی اپنی آزادی کا دن منانے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کے لیے بھی دعائوں کرتے ہیں کہ وہ بھی آزادی ہوں حقیقی آزادی وہ ہوگی جب پور ا کشمیرآزاد ہوکر پاکستان کا حصہ بنے گا۔