بھارت کی سپریم کورٹ نے 2023 میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو غیر قانونی قرار دینے کے اپنے فیصلے پر نظرِثانی سے انکار کردیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے کہا ہے کہ اُس نے جو فیصلہ ہم جنس پرست جوڑوں کی شادی کے حوالے سے دیا تھا اُس میں کہیں بھی کوئی غلطی نہیں تھی اور اس حوالے سے ریکارڈ بالکل درست ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرستوں کی شادی کی ممانعت کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر دیا گیا تھا۔ یہ معاملہ فطرت کے منافی ہے اس لیے اِسے قانونی حیثیت کسی بھی صورت نہیں دی جاسکتی۔

سپریم کورٹ نے نظرِثانی کی درخواست کی سماعت عدالت کے کمرے میں کرنے کے بجائے ججوں کے چیمبرز میں کی۔ سپریم کورٹ کا استدالال ہے کہ بھارت کا آئین ہم جنس پرستوں کو شادی کی اجازت کسی بھی حال میں نہیں دیتا۔ سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے کے حوالے سے شدید ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

درخواست گزاروں کا استدلال تھا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے تو اب بہت سے ہم جنس پرست جوڑوں کو شدید دباؤ کے عالم میں غیر اخلاقی حرکتوں پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ یہ معاملہ طے ہوچکا ہے اس لیے عدالتی فیصلے پر نظرِثانی کی درخواستیں دائر نہ کی جائیں۔ عدالت اس معاملے میں اپنی رائے تبدیل نہیں کرے گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہم جنس پرستوں سپریم کورٹ کی شادی

پڑھیں:

مودی راج میں ریاستی الیکشنز سے پہلے ہی انتخابی نظام کی ساکھ خطرے میں

بھارت میں نریندر مودی کے راج میں ریاستی انتخابات سے قبل ہی انتخابی نظام کی ساکھ خطرے میں پڑ گئی ہے۔

مودی سرکار نے بہار میں نیا این آر سی بغیر قانون سازی کے نافذ کر کے منظم دھاندلی کی تیاری مکمل کرلی ہے۔ مودی کی سر پرستی میں الیکشن سے قبل مسلم اکثریتی ریاست بہار میں انتخابی فہرست کی خصوصی نظرِ ثانی کی گئی ہے۔

مودی سرکار کا دستاویزی ابہام کا سہارا لے کر لاکھوں افراد کو ووٹر لسٹ سے نکالنے کا منصوبہ تیار ہے اور سپریم کورٹ کی ہدایت کے برعکس بھارتی الیکشن کمیشن نے عام شناختی دستاویزات مسترد کر دی ہیں۔

بھارتی اخبار دی وائر کے مطابق بہار الیکشن سے قبل سپریم کورٹ میں بھارتی الیکشن کمیشن نے شہریت کا ثبوت طلب کرنے کا اختیار حاصل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق آدھار، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈز کو شہریت کا ثبوت ماننے سے الیکشن کمیشن نے انکار کردیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے اختلاف رائے کے باوجود سپریم کورٹ نے شہریت کے تعین کو وزارتِ داخلہ کا اختیار قرار دے دیا ہے۔ دی وائر کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے مطابق شہریت کا تعین بھارت کے الیکشن کمیشن کا نہیں بلکہ وزارت داخلہ کا دائرہ اختیار ہے۔

الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ آئین کے آرٹیکل 326 کے تحت صرف اہل افراد کا اندراج اور غیر اہل افراد کا اخراج ہماری آئینی ذمہ داری ہے۔

مودی سرکار این آر سی کی طرز پر کیے جانے والے ان اقدامات سے مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنانے کی تیاری میں ہے۔ شہریت کی بنیاد پر رائے دہی کا حق چھیننے کی کوشش، بھارت کے نام نہاد جمہوری عمل پر کاری ضرب ہے ۔

مودی سرکار کی سربراہی میں ان اقدامات نے انتخابی ادارے کی غیرجانبداری پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اقتدار کی خاطر بی جے پی کے انتہا پسند ایجنڈے نے شفاف انتخابات کے تقاضے پامال کر دیے ہیں۔

عالمی سطح پر سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا دعوے دار بھارت اقلیتوں کے جمہوری حقوق سلب کرکے اقتدار پر قابض ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن کے اقدامات آئینی حدود سے تجاوز اور اقلیتوں کے لیے غیر منصفانہ رویے کے عکاس ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کا 9 مئی کے مقدمات میں ضمانت مسترد ہونے پر سپریم کورٹ سے رجوع
  • سپریم کورٹ نے "ادے پور فائلز" سے متعلق تمام عرضداشتوں کو دہلی ہائی کورٹ بھیجا، مولانا ارشد مدنی
  • سپریم کورٹ: ضمانت مسترد ہونے کے بعد ملزم کی فوری گرفتاری لازمی قرار
  • سپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ: 9 مئی مقدمات میں بانی پی ٹی آئی کی قانونی کوششیں تیز
  • سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ: ضمانت مسترد ہونے کے بعد ملزم کی فوری گرفتاری لازمی قرار
  • سپریم کورٹ: بانجھ پن پر مہر یا نان و نفقہ دینے سے انکار غیر قانونی قرار
  • سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ: بانجھ پن پر عورت کو نان و نفقہ سے محروم کرنا غیر قانونی قرار
  • خواتین کے بانجھ پن اور نان نفقہ سے متعلق سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ جاری
  • سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ: بانجھ پن کی بنیاد پر مہر یا نان نفقہ سے انکار غیر قانونی قرار
  • مودی راج میں ریاستی الیکشنز سے پہلے ہی انتخابی نظام کی ساکھ خطرے میں