لیاقت یونیورسٹی میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز، جامشورو میں بیسک میڈیکل سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر منور عالم انصاری کی زیر صدارت لمس میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس سلسلے میں 3 روزہ سالانہ بین الاقوامی کانفر نس آن ہیلتھ پروفیشنز ایجوکیشن کا افتتاح کیا گیا۔ اس موقع پر مقامی اور بین الاقوامی مہمانوں کی بڑی تعداد سے خطاب کرتے ہوئے لمس کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اِکرام الدین اُجن نے کہا کہ صحت کی دیکھ بھال کے لیے تعلیم کے مستقبل کو تشکیل دینے کے عہد کے سلسلے میں 10 جنوری سے جدت کے سفر کا آغاز کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جدید دور میں صحت کی پیشہ ورانہ تعلیم دوراہے پر کھڑی ہے، طبی سائنس کا تیز رفتار ارتقاء نئے تدریسی طریقوں کی ترقی اور ہمارے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے اہم مطالبات ہمیں دوبارہ سوچنے اور بہتر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اْْنہوں نے کہا ہم غور کریں کہ اپنے مستقبل کے ہیلتھ کیئر ورکرز کو کس طرح تعلیم دیتے ہیں؟ اور تعلیم میں کیسے بہتری لا سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ کانفرنس اپنی 42 ویں پری کانفرنس ورکشاپس کے ساتھ، سائٹس کو فروغ دینے، حکمت کے تبا دلے اور تعلیمی طریقوں کو بلند کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے میں اہم قدم ہے۔ وائس چانسلر نے مزید تمام شرکاء کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ وہ بحث میں فعال طور پر حصہ لیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی نے کہا
پڑھیں:
پاکستان کا ترقیاتی بجٹ
یہ بجٹ کا موسم ہے، بجٹ آ کر چلا بھی جائے گا اور پھر سرکاری ملازم کی تنخواہوں میں 10 فی صد جیسا کہ کہا جا رہا ہے اضافہ ہوگا۔ وہ یہ قلیل رقم لے کر پورا سال حکومتی وعدوں کے سہانے خواب کو لے کر پھر مہنگائی سے لڑتا رہے گا، نجی پرائیویٹ اداروں، دکانوں، دفتروں، کارخانوں اور ہر طرح کی معاشی سرگرمیوں میں مصروف عمل، جو ایک بار پھر چند ہزار لے کر یہ نہیں خرید سکتے وہ نہیں کھا سکتے، پیسے نہیں ہیں۔ ہفتہ نہیں گزرا پیسے ختم ہو گئے۔
تمام نجی ملازمین کی اکثریت اسی طرح جفاکشی اور فاقہ کشی میں مہینہ گزارتے رہیں گے، پنشن میں محض 10 فی صد اضافے کا خواب اور مالک مکان کی بھیانک آواز، کرایہ 10 فی صد بڑھا کردینا۔ بہت صبر کر لیا، اب تو پنشن 10 فی صد بڑھ گئی ہے، کرایہ 10 فی صد بڑھا کر نہیں دیا تو تمہیں سامان سمیت باہر پھینک دوں گا۔ پھر گلہ نہ کرنا۔ پنشنرز کی پنشن میں کم از کم 20 فی صد اضافہ ہونا چاہیے۔
اب کہا جا رہا ہے کہ تعلیم کے بجٹ میں 27 فی صد کمی کے ساتھ 20 ارب روپے کی کمی کر دی جائے گی، شاید یہ صرف صوبائی معاملہ ہے۔ وفاق کو تعلیم سے کوئی سروکار نہیں۔ تعلیم پر اخراجات GDP کا اوسط 4.5 فی صد دنیا خرچ کرتی ہے اور پاکستان میں اب ڈیڑھ فی صد سے بھی کم ہوگی۔
تعلیم دستور پاکستان میں اسے ایک بنیادی حق تسلیم کیا گیا، لیکن شاید حکومت سمجھتی ہے کہ وفاق اب تعلیم کا ذمے دار نہیں ہے، صوبے ہیں، جہاں کے اکثر اسکولوں کی حالت کسی غریب کی کٹیا سے کم نہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جہاں طلبا کو پنکھوں کا غم نہیں، بجلی نہیں تو کیا ہوا، استاد غیر حاضر ہوگئے تو کیا ہوا، آخر ہم کسی سے کم نہیں۔ ان تمام کمیوں، کوتاہیوں، خامیوں، محرومیوں کا مقابلہ کرنے کا ہم طلبا میں کیا دم خم نہیں۔
کبھی لیپ ٹاپ اسکیمیں چلتی تھیں اور آئی ٹی کی تعلیم سے مزین کرنے کا خواب حکومت بیچتی تھی۔ بھارت نے 2023 میں 2 لاکھ سے زائد طلبا کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیج دیا ہے، دنیا AI کی تعلیم، روبوٹ کے استعمال تک، خلا کی تعلیم تک اور اعلیٰ تعلیم کی اونچی منزل تک پہنچنے کے لیے اربوں ڈالر لگائے چلی جا رہی ہے اور ہم تعلیم سے پیسہ کھینچ رہے ہیں۔ وہ بھی 27 فی صد کی بڑی کمی سے۔ 20 ارب روپے کی کمی بہت بڑی رقم ہے۔ اس میں کم از کم 50 یا 60 ارب روپے مزید اضافہ کرنا چاہیے تھا۔
اس کے علاوہ صحت کے شعبے سے بھی وفاق راہ فرار چاہتا ہے۔ حکومت کم از کم پنشنروں کا خیال کرے، وفاق کے زیر انتظام اسپتالوں کی تعداد کو بڑھائے، صرف کراچی میں لاہور میں 10 سے 12 مزید بڑے وفاقی اسپتال قائم بھی ہو جائیں تو کہہ نہیں سکتے کہ صحت کا شعبہ خود مختار اور خودکفیل ہو گیا ہے۔
تعلیم کا بھی فوری خیال کریں، بجٹ بڑھائیں اس کا دائرہ کار بڑھائیں،کم ازکم ہر وہ طلبا و طالبات جنھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی،کوئی ایم بی اے کرگیا، کسی نے ایم بی بی ایس یا ڈاکٹر آف فزیو تھراپی کی تعلیم حاصل کرلی اس لیول کے جتنے بھی طلبا و طالبات ہیں، ان سب کو لیپ ٹاپ دیا جائے۔ دنیا نے تعلیم پر بے تحاشا خرچ کر کے معاشی ترقی حاصل کی ہے۔ ہمارا ہدف4.2 فی صد معاشی شرح نمو کا ہے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ بغیر تعلیم کے بجٹ کو بڑھائے ترقی کا ہدف حاصل کرلیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی اعلیٰ ترین تعلیم کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔
حکومت کچھ خیال کرے، تعلیم کو وفاق کی سطح پر یتیم نہ کرے۔ بجٹ میں بہت کچھ ہوتا ہے، اگر ایک طالب علم کے تعلیم کا خواب اگر نہ سجا سکی حکومت تو یہ بجٹ محض اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہوگا، حکومت تعلیم، صحت کے علاوہ ایک اورکارنامہ انجام دینے جا رہی ہے۔ بھاشا ڈیم جس پر 2024-25 میں 40 ارب رکھے گئے، اب اس پر 35 ارب روپے یعنی 5 ارب روپے کی کمی ہوگئی، بھارت سے پانی کے مسئلے پر ٹھن گئی ہے، ایسے میں بھاشا ڈیم کے لیے مختص رقم کو دگنا کرنا چاہیے تھا، تاکہ جلد از جلد مزید ڈیم بھی بنائیں اور پانی کا ذخیرہ محفوظ کر لیں سستی بجلی حاصل کر سکیں۔
اب بھلا بتائیے جب بجلی سستی نہیں ملے گی، پانی کے منصوبوں کے لیے رقم کم مہیا کی جائے گی،کراچی میں پانی کا مسئلہ اتنا پرانا ہے کہ انگریز جب یہاں آئے تو آبادی ہزاروں میں تھی، اب ساڑھے تین کروڑ کی آبادی میں سے ڈھائی کروڑ کی آبادی کے لیے پانی کا مسئلہ شدت اختیارکرگیا ہے۔ پھر گزشتہ کئی سال سے پانی ٹینکرز والوں کی چاندی ہوگئی اور غریب سے غریب بھی پانی کے حصول کے لیے اب ہزاروں روپے خرچ کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
پاکستان میں صحت پر GDP کا 1.2 فی صد خرچ ہوتا ہے۔ WHO کی سفارش ہے کہ خرچ کی کم از کم حد 5 فی صد ضرور ہونی چاہیے۔ وفاقی سطح پر صحت کو مکمل طور پر صوبائی مسئلہ قرار دے کر اس سے پہلو تہی کر لی گئی ہے۔ ہر شخص کو مفت صحت کی سہولت فراہم کرنا وفاقی حکومت کی ترجیحات میں سے ہونا چاہیے، اب اس کے لیے صحت کے لیے اپنی رقم میں زیادہ سے زیادہ اضافہ انتہائی ضروری ہے تاکہ ملک میں صحت کا سنجیدہ مسئلہ حل ہو سکے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فی صد کا معمولی اضافہ، پنشنروں کی پنشن میں معمولی اضافہ اور نجی پرائیویٹ ملازمین کی تنخواہوں میں معمولی اضافہ ہوتا ہے، وہ یہ رقم لے کر بازار چلے جائیں تو ان کا استقبال کس طرح ہوتا ہے، چینی کے دام بڑھ گئے، اب 200 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے، سبزیوں اور پھلوں کے دام بڑھ گئے، مہنگائی کی شرح بڑھ گئی، مقابلہ تنخواہ دار نہیں کر پا رہا ہے۔ پنشن میں جب معمولی اضافہ لے کر کوئی بازار جاتا ہے تو جیب بھی خالی ہو جاتی ہے لیکن مراد پوری نہیں ہوتی۔ کم از کم گریڈ ایک سے گریڈ سترہ یا اٹھارہ تک کے پنشن میں 20 فی صد کا اضافہ ہونا چاہیے۔
حکومت ترقیاتی اخراجات کو زمینی حقائق سے جوڑے، ترقی کی شرح ہدف کے مطابق حاصل کرنی ہے تو تعلیم کے بغیر ناممکن ہے، بچے بوڑھے، جوان صحت مند تندرست و توانا ہوں گے تو پھر شرح نمو حاصل ہو کر رہے گی۔ پانی پر اور ڈیمز پر خرچ کو مزید بڑھانا ہوگا۔ تب شرح افزائش 4.2 فی صد حاصل ہو سکے گی۔ حکومت ترقیاتی اخراجات کا رخ زمینی حقائق کے مطابق اس جانب موڑے تاکہ 4.2 فی صد کی شرح افزائش کا حصول ممکن ہو۔