WE News:
2025-06-09@16:35:35 GMT

پاکستان کے شہری مراکز میں خواتین کی حفاظت کیسے ممکن؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

پاکستان کے شہری مراکز میں خواتین کی حفاظت کیسے ممکن؟

پاکستان کے تیزی سے بدلتے ہوئے شہری منظرنامے میں، عوامی جگہوں پر خواتین کی حفاظت ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ مسئلہ سماجی انصاف، اقتصادی مواقع اور بنیادی انسانی حقوق سے جڑا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں 78 فیصد خواتین نے عوامی جگہوں پر جنسی ہراسانی یا عدم تحفظ کا سامنا کیا، جو کہ ایک بڑے چیلنج کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ صورتحال خواتین کی نقل و حرکت اور عوامی زندگی میں شمولیت کو محدود کرتی ہے۔

شہری تحفظ کا پیچیدہ مسئلہ

خواتین کو عوامی جگہوں تک رسائی میں درپیش رکاوٹیں صرف جسمانی پابندیوں تک محدود نہیں ہیں۔ کراچی جیسے شہری مراکز میں خواتین روزانہ کے مسائل کا سامنا کرتی ہیں، جیسے کہ خراب روشنی، ناکافی عوامی بیت الخلا اور سیکیورٹی اقدامات کی کمی۔

یہ مسائل صرف سہولتوں کی کمی نہیں، بلکہ اس معاشرتی سوچ کا نتیجہ بھی ہیں جو تاریخی طور پر خواتین کو عوامی جگہوں سے دور رکھتی رہی ہے۔ عوامی نقل و حمل میں یہ صورتحال زیادہ سنگین ہوتی ہے، جہاں خواتین اپنی روزمرہ کی آمد و رفت کے دوران ہراسانی کے خطرے کا سامنا کرتی ہیں۔

ٹیکنالوجی اور جدت: تبدیلی کے ذرائع

ان چیلنجز کے جواب میں مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے خواتین کی حفاظت کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔

پنجاب حکومت نے متعدد اداروں کے تعاون سے ایک ویمن سیفٹی اسمارٹ فون ایپلیکیشن متعارف کرائی ہے، جو خواتین کو ان کے قانونی حقوق سے آگاہی اور ہراسانی کے واقعات رپورٹ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی خواتین کو عوامی جگہوں پر اپنے حقوق کے تحفظ کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے۔

انفراسٹرکچر اور پالیسی کا کردار

عوامی جگہوں کو محفوظ بنانے کے لیے شہری منصوبہ بندی اور پالیسی کے نفاذ پر جامع کام کی ضرورت ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ صنفی حساس انفراسٹرکچر کی ترقی ضروری ہے، جیسے کہ روشن گلیاں، محفوظ عوامی ٹرانسپورٹ اور قابل رسائی بیت الخلاء۔

پنجاب حکومت کا بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم میں خواتین کے لیے علیحدہ اور شفاف بیٹھنے کی جگہ رکھی گئی ہے، ایک مثال ہے کہ کیسے سوچے سمجھے ڈیزائن سے خواتین کے تحفظ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

سماجی تبدیلی

عوامی جگہوں کی تبدیلی صرف انفراسٹرکچر کی بات نہیں، بلکہ اس کے لیے معاشرتی رویوں میں تبدیلی بھی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر ’گرلز ایٹ ڈھاباز‘ جیسی تحریکیں سامنے آئیں ہیں جو خواتین کو مقامی ہوٹلوں اور کھانے پینے کی جگہوں تک رسائی دلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ مقامی تحریکیں گہری روایتی سوچ کو چیلنج کر کے سماجی تبدیلی کا ذریعہ بن رہی ہیں۔

قانونی فریم ورک اور عمل درآمد

خواتین کی حفاظت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے حالیہ قانون سازی حوصلہ افزا ہے۔ جنسی ہراسانی کا بل اور خواتین مخالف رویوں کی روک تھام کا بل عوامی اور کام کی جگہوں پر خواتین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، ان قوانین پر عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہے۔

فیڈرل محتسب سیکریٹریٹ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہراسانی کے کیسز کی تعداد تشویشناک ہے، جو قانون سازی اور عمل درآمد کے درمیان فرق کو ظاہر کرتی ہے۔

آگے کا راستہ: ہمہ جہتی حکمت عملی

ان اقدامات کو کامیاب بنانے کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ایک قومی پالیسی کی اشد ضرورت ہے جو عوامی جگہوں کو محفوظ اور خواتین کے لیے دوستانہ بنائے۔

دوسرا، مردوں اور لڑکوں کے رویے میں تبدیلی کے لیے تعلیمی مہمات ضروری ہیں۔

تیسرا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوامی خدمات فراہم کرنے والوں کی تربیت کو بہتر بنایا جانا چاہیے، تاکہ وہ خواتین کی شکایات کو مؤثر طریقے سے حل کرسکیں۔

خلاصہ

پاکستان کے شہری مراکز میں خواتین کے لیے عوامی جگہوں کو محفوظ بنانا ایک پیچیدہ لیکن ممکنہ مقصد ہے۔ اس کے لیے حکومتی اداروں، سول سوسائٹی اور عوامی تعاون کی ضرورت ہے۔

جیسے جیسے متوسط طبقے کی خواتین روایتی صنفی کرداروں کو چیلنج کر رہی ہیں اور عوامی زندگی میں مساوی شمولیت کا مطالبہ کر رہی ہیں، امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔

لیکن یہ تحریک تمام سماجی طبقات کی خواتین کو شامل کرے، تاکہ ہر کوئی محفوظ اور آزادانہ نقل و حرکت کے حق سے مستفید ہوسکے۔

محفوظ عوامی جگہوں کی تخلیق صرف انفراسٹرکچر یا پالیسی کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ہر عورت کے آزادانہ نقل و حرکت اور عوامی زندگی میں مکمل شرکت کے حق کو تسلیم کرنے اور اس کا تحفظ کرنے کا عزم ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ردما شاہ

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: میں خواتین خواتین کے اور عوامی ضرورت ہے رہی ہیں کے لیے

پڑھیں:

برین ٹیومر کیخلاف عوامی شعور و آگاہی ہی اصل طاقت ہے، مریم نواز

ورلڈ برین ٹیومر ڈے پر اپنے پیغام میں وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ برین ٹیومر خاموش مگر تباہ کن بیماری ہے، برین ٹیومر جسمانی تکلیف سے کہیں بڑھ کر مریض اور معالج کیلئے چیلنج کے مترادف ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ برین ٹیومر کے خلاف عوامی شعور و آگاہی کی بیداری ہی اصل طاقت ہے۔ ورلڈ برین ٹیومر ڈے پر اپنے پیغام میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ برین ٹیومر خاموش مگر تباہ کن بیماری ہے، برین ٹیومر جسمانی تکلیف سے کہیں بڑھ کر مریض اور معالج کیلئے چیلنج کے مترادف ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ برین ٹیومر نہ صرف مریض بلکہ اہلِ خانہ کیلئے بھی ایک کٹھن آزمائش بن جاتی ہیں، برین ٹیومر کی بروقت تشخیص اور علاج محفوظ زندگی کی ضمانت ہے۔مریم نواز شریف نے مزید کہا ہے کہ کینسر ہسپتال کینسر اور ٹیومرز کے مریضوں کے لئے امید بنے گا، برین ٹیومر کے علاج کی کاوشیں کرنے والے تمام افراد کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • تاجروں کاوزیراعلیٰ پنجاب کے ٹیکس شرح نہ بڑھانے کے فیصلے کاخیرمقدم
  • گہرے عالمی سمندروں کا تحفظ: فرانس میں اقوام متحدہ کی تیسری سمٹ شروع
  • غزہ میں شدید غذائی قلت سے بچوں کی حالت تشویشناک، امدادی مراکز بند، عالمی برادری خاموش
  • تحفظ ماحول: سرسبز زمین کے لیے صاف نیلا سمندر ضروری
  • برین ٹیومر کیخلاف عوامی شعور و آگاہی ہی اصل طاقت ہے، مریم نواز
  • برین ٹیومر کیخلاف عوامی شعور و آگاہی ہی اصل طاقت ہے: مریم نواز
  • برف میں جما گوشت گھنٹوں کے بجائے منٹوں میں کیسے پگھلائیں؟ طریقہ جانیں
  • جوانوں کی قربانیاں اور ثابت قدمی وطن کے تحفظ کی ضمانت اور پاکستان کی اصل طاقت ہے، وزیر داخلہ
  • پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک غیر مؤثر ہے، ان کے پاس تیاری ہے نہ عوامی حمایت،رانا ثنا
  • سکردو، عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری کیخلاف احتجاجی مظاہرہ