WE News:
2025-04-25@09:44:56 GMT

پاکستان کے شہری مراکز میں خواتین کی حفاظت کیسے ممکن؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

پاکستان کے شہری مراکز میں خواتین کی حفاظت کیسے ممکن؟

پاکستان کے تیزی سے بدلتے ہوئے شہری منظرنامے میں، عوامی جگہوں پر خواتین کی حفاظت ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ مسئلہ سماجی انصاف، اقتصادی مواقع اور بنیادی انسانی حقوق سے جڑا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں 78 فیصد خواتین نے عوامی جگہوں پر جنسی ہراسانی یا عدم تحفظ کا سامنا کیا، جو کہ ایک بڑے چیلنج کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ صورتحال خواتین کی نقل و حرکت اور عوامی زندگی میں شمولیت کو محدود کرتی ہے۔

شہری تحفظ کا پیچیدہ مسئلہ

خواتین کو عوامی جگہوں تک رسائی میں درپیش رکاوٹیں صرف جسمانی پابندیوں تک محدود نہیں ہیں۔ کراچی جیسے شہری مراکز میں خواتین روزانہ کے مسائل کا سامنا کرتی ہیں، جیسے کہ خراب روشنی، ناکافی عوامی بیت الخلا اور سیکیورٹی اقدامات کی کمی۔

یہ مسائل صرف سہولتوں کی کمی نہیں، بلکہ اس معاشرتی سوچ کا نتیجہ بھی ہیں جو تاریخی طور پر خواتین کو عوامی جگہوں سے دور رکھتی رہی ہے۔ عوامی نقل و حمل میں یہ صورتحال زیادہ سنگین ہوتی ہے، جہاں خواتین اپنی روزمرہ کی آمد و رفت کے دوران ہراسانی کے خطرے کا سامنا کرتی ہیں۔

ٹیکنالوجی اور جدت: تبدیلی کے ذرائع

ان چیلنجز کے جواب میں مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے خواتین کی حفاظت کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔

پنجاب حکومت نے متعدد اداروں کے تعاون سے ایک ویمن سیفٹی اسمارٹ فون ایپلیکیشن متعارف کرائی ہے، جو خواتین کو ان کے قانونی حقوق سے آگاہی اور ہراسانی کے واقعات رپورٹ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی خواتین کو عوامی جگہوں پر اپنے حقوق کے تحفظ کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے۔

انفراسٹرکچر اور پالیسی کا کردار

عوامی جگہوں کو محفوظ بنانے کے لیے شہری منصوبہ بندی اور پالیسی کے نفاذ پر جامع کام کی ضرورت ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ صنفی حساس انفراسٹرکچر کی ترقی ضروری ہے، جیسے کہ روشن گلیاں، محفوظ عوامی ٹرانسپورٹ اور قابل رسائی بیت الخلاء۔

پنجاب حکومت کا بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم میں خواتین کے لیے علیحدہ اور شفاف بیٹھنے کی جگہ رکھی گئی ہے، ایک مثال ہے کہ کیسے سوچے سمجھے ڈیزائن سے خواتین کے تحفظ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

سماجی تبدیلی

عوامی جگہوں کی تبدیلی صرف انفراسٹرکچر کی بات نہیں، بلکہ اس کے لیے معاشرتی رویوں میں تبدیلی بھی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر ’گرلز ایٹ ڈھاباز‘ جیسی تحریکیں سامنے آئیں ہیں جو خواتین کو مقامی ہوٹلوں اور کھانے پینے کی جگہوں تک رسائی دلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ مقامی تحریکیں گہری روایتی سوچ کو چیلنج کر کے سماجی تبدیلی کا ذریعہ بن رہی ہیں۔

قانونی فریم ورک اور عمل درآمد

خواتین کی حفاظت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے حالیہ قانون سازی حوصلہ افزا ہے۔ جنسی ہراسانی کا بل اور خواتین مخالف رویوں کی روک تھام کا بل عوامی اور کام کی جگہوں پر خواتین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، ان قوانین پر عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہے۔

فیڈرل محتسب سیکریٹریٹ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہراسانی کے کیسز کی تعداد تشویشناک ہے، جو قانون سازی اور عمل درآمد کے درمیان فرق کو ظاہر کرتی ہے۔

آگے کا راستہ: ہمہ جہتی حکمت عملی

ان اقدامات کو کامیاب بنانے کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ایک قومی پالیسی کی اشد ضرورت ہے جو عوامی جگہوں کو محفوظ اور خواتین کے لیے دوستانہ بنائے۔

دوسرا، مردوں اور لڑکوں کے رویے میں تبدیلی کے لیے تعلیمی مہمات ضروری ہیں۔

تیسرا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوامی خدمات فراہم کرنے والوں کی تربیت کو بہتر بنایا جانا چاہیے، تاکہ وہ خواتین کی شکایات کو مؤثر طریقے سے حل کرسکیں۔

خلاصہ

پاکستان کے شہری مراکز میں خواتین کے لیے عوامی جگہوں کو محفوظ بنانا ایک پیچیدہ لیکن ممکنہ مقصد ہے۔ اس کے لیے حکومتی اداروں، سول سوسائٹی اور عوامی تعاون کی ضرورت ہے۔

جیسے جیسے متوسط طبقے کی خواتین روایتی صنفی کرداروں کو چیلنج کر رہی ہیں اور عوامی زندگی میں مساوی شمولیت کا مطالبہ کر رہی ہیں، امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔

لیکن یہ تحریک تمام سماجی طبقات کی خواتین کو شامل کرے، تاکہ ہر کوئی محفوظ اور آزادانہ نقل و حرکت کے حق سے مستفید ہوسکے۔

محفوظ عوامی جگہوں کی تخلیق صرف انفراسٹرکچر یا پالیسی کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ہر عورت کے آزادانہ نقل و حرکت اور عوامی زندگی میں مکمل شرکت کے حق کو تسلیم کرنے اور اس کا تحفظ کرنے کا عزم ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ردما شاہ

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: میں خواتین خواتین کے اور عوامی ضرورت ہے رہی ہیں کے لیے

پڑھیں:

جنوبی ایشیا میں امن جوہری خطرات میں کمی کے باہمی اقدامات سے ممکن، جنرل ساحر شمشاد مرزا

آئی ایس پی آر کے مطابق مہمان خصوصی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی نے اسلام آباد میں 2 روزہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب میں ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز سے درپیش چیلنجز کو اجاگر کیا، انہوں نے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مذاکرات اور تعاون سے متعلق پاکستان کے عزم کو اجاگر کیا۔ اسلام ٹائمز۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق سینٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد کی جانب سے "ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے دور میں نیوکلیئر ڈیٹرنس" کے موضوع پر 2 روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کانفرنس میں دنیا بھر سے سکالرز اور ماہرین کے ایک ممتاز گروپ نے شرکت کی، کانفرنس کا مقصد عالمی سٹریٹجک مسائل پر تعمیری بات چیت کو فروغ دینا ہے، کانفرنس کے ذریعے پاکستان کے پالیسی نقطہ نظر کو بھی شیئر کیا گیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی، جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کانفرنس کے پہلے دن کلیدی خطبہ دیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق مہمان خصوصی نے ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز سے درپیش چیلنجز کو اجاگر کیا، انہوں نے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مذاکرات اور تعاون سے متعلق پاکستان کے عزم کو اجاگر کیا۔


جنرل ساحر شمشاد مرزا نے اپنے خطاب میں کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام صرف جوہری خطرات میں کمی کے باہمی اقدامات اور وسیع تر جیوسٹریٹیجک توازن سے ہی ممکن ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کانفرنس میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تخفیف اسلحہ ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیٹرنس سٹڈیز، آسٹریلیا، کینیڈا، چائنا کے ماہرین شریک ہیں ، کانفرنس میں یورپین سینٹر برائے پولر اینڈ اوشینک سٹڈیز، روس اور یورپی یونین کے متعلقہ ادروں کے نمائندگان بھی شریک ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ملک کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، علی محمد خان
  • اسلام آباد میں عوامی سہولت کیلئے متعدد نئے منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ
  • جنوبی ایشیا میں امن ایٹمی خطرات میں کمی اور توازن سے ممکن ہے: چیئرمین جوائنٹ چیفس
  • حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ؛ پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
  • اسلام آباد میں عوامی سہولت کے لیے کئی بڑے منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ
  • اسلام آباد میں عوامی سہولت کے لیے کئی بڑے منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ
  • جنوبی ایشیا میں امن جوہری خطرات میں کمی کے باہمی اقدامات سے ممکن، جنرل ساحر شمشاد مرزا
  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ
  • خواتین کے ذریعے شہریوں کو ہنی ٹریپ کرنے والے 2 گینگ گرفتار، تہلکہ خیز انکشافات
  • حکومت کی اعلان کردہ مفت الیکٹرک اسکوٹی کیسے حاصل کریں، شرائط کیا ہیں؟