پاکستان کے شہری مراکز میں خواتین کی حفاظت کیسے ممکن؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
پاکستان کے تیزی سے بدلتے ہوئے شہری منظرنامے میں، عوامی جگہوں پر خواتین کی حفاظت ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ مسئلہ سماجی انصاف، اقتصادی مواقع اور بنیادی انسانی حقوق سے جڑا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں 78 فیصد خواتین نے عوامی جگہوں پر جنسی ہراسانی یا عدم تحفظ کا سامنا کیا، جو کہ ایک بڑے چیلنج کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ صورتحال خواتین کی نقل و حرکت اور عوامی زندگی میں شمولیت کو محدود کرتی ہے۔
شہری تحفظ کا پیچیدہ مسئلہخواتین کو عوامی جگہوں تک رسائی میں درپیش رکاوٹیں صرف جسمانی پابندیوں تک محدود نہیں ہیں۔ کراچی جیسے شہری مراکز میں خواتین روزانہ کے مسائل کا سامنا کرتی ہیں، جیسے کہ خراب روشنی، ناکافی عوامی بیت الخلا اور سیکیورٹی اقدامات کی کمی۔
یہ مسائل صرف سہولتوں کی کمی نہیں، بلکہ اس معاشرتی سوچ کا نتیجہ بھی ہیں جو تاریخی طور پر خواتین کو عوامی جگہوں سے دور رکھتی رہی ہے۔ عوامی نقل و حمل میں یہ صورتحال زیادہ سنگین ہوتی ہے، جہاں خواتین اپنی روزمرہ کی آمد و رفت کے دوران ہراسانی کے خطرے کا سامنا کرتی ہیں۔
ٹیکنالوجی اور جدت: تبدیلی کے ذرائعان چیلنجز کے جواب میں مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے خواتین کی حفاظت کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔
پنجاب حکومت نے متعدد اداروں کے تعاون سے ایک ویمن سیفٹی اسمارٹ فون ایپلیکیشن متعارف کرائی ہے، جو خواتین کو ان کے قانونی حقوق سے آگاہی اور ہراسانی کے واقعات رپورٹ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی خواتین کو عوامی جگہوں پر اپنے حقوق کے تحفظ کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے۔
انفراسٹرکچر اور پالیسی کا کردارعوامی جگہوں کو محفوظ بنانے کے لیے شہری منصوبہ بندی اور پالیسی کے نفاذ پر جامع کام کی ضرورت ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ صنفی حساس انفراسٹرکچر کی ترقی ضروری ہے، جیسے کہ روشن گلیاں، محفوظ عوامی ٹرانسپورٹ اور قابل رسائی بیت الخلاء۔
پنجاب حکومت کا بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم میں خواتین کے لیے علیحدہ اور شفاف بیٹھنے کی جگہ رکھی گئی ہے، ایک مثال ہے کہ کیسے سوچے سمجھے ڈیزائن سے خواتین کے تحفظ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
سماجی تبدیلیعوامی جگہوں کی تبدیلی صرف انفراسٹرکچر کی بات نہیں، بلکہ اس کے لیے معاشرتی رویوں میں تبدیلی بھی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر ’گرلز ایٹ ڈھاباز‘ جیسی تحریکیں سامنے آئیں ہیں جو خواتین کو مقامی ہوٹلوں اور کھانے پینے کی جگہوں تک رسائی دلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ مقامی تحریکیں گہری روایتی سوچ کو چیلنج کر کے سماجی تبدیلی کا ذریعہ بن رہی ہیں۔
قانونی فریم ورک اور عمل درآمدخواتین کی حفاظت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے حالیہ قانون سازی حوصلہ افزا ہے۔ جنسی ہراسانی کا بل اور خواتین مخالف رویوں کی روک تھام کا بل عوامی اور کام کی جگہوں پر خواتین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، ان قوانین پر عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہے۔
فیڈرل محتسب سیکریٹریٹ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہراسانی کے کیسز کی تعداد تشویشناک ہے، جو قانون سازی اور عمل درآمد کے درمیان فرق کو ظاہر کرتی ہے۔
آگے کا راستہ: ہمہ جہتی حکمت عملیان اقدامات کو کامیاب بنانے کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ایک قومی پالیسی کی اشد ضرورت ہے جو عوامی جگہوں کو محفوظ اور خواتین کے لیے دوستانہ بنائے۔
دوسرا، مردوں اور لڑکوں کے رویے میں تبدیلی کے لیے تعلیمی مہمات ضروری ہیں۔
تیسرا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوامی خدمات فراہم کرنے والوں کی تربیت کو بہتر بنایا جانا چاہیے، تاکہ وہ خواتین کی شکایات کو مؤثر طریقے سے حل کرسکیں۔
خلاصہپاکستان کے شہری مراکز میں خواتین کے لیے عوامی جگہوں کو محفوظ بنانا ایک پیچیدہ لیکن ممکنہ مقصد ہے۔ اس کے لیے حکومتی اداروں، سول سوسائٹی اور عوامی تعاون کی ضرورت ہے۔
جیسے جیسے متوسط طبقے کی خواتین روایتی صنفی کرداروں کو چیلنج کر رہی ہیں اور عوامی زندگی میں مساوی شمولیت کا مطالبہ کر رہی ہیں، امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔
لیکن یہ تحریک تمام سماجی طبقات کی خواتین کو شامل کرے، تاکہ ہر کوئی محفوظ اور آزادانہ نقل و حرکت کے حق سے مستفید ہوسکے۔
محفوظ عوامی جگہوں کی تخلیق صرف انفراسٹرکچر یا پالیسی کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ہر عورت کے آزادانہ نقل و حرکت اور عوامی زندگی میں مکمل شرکت کے حق کو تسلیم کرنے اور اس کا تحفظ کرنے کا عزم ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: میں خواتین خواتین کے اور عوامی ضرورت ہے رہی ہیں کے لیے
پڑھیں:
اسپیکر پنجاب اسمبلی کا بلدیاتی ایکٹ کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ، 27ویں ترمیم کی حمایت
اسپیکر پنجاب اسمبلی کا بلدیاتی ایکٹ کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ، 27ویں ترمیم کی حمایت WhatsAppFacebookTwitter 0 31 October, 2025 سب نیوز
لاہور (آئی پی ایس )اسپیکرپنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے بلدیاتی ایکٹ کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس سلسلہ میں 27 ویں آئینی ترمیم بھی منظور کی جاتی ہے تو اس کی حمایت کریں گے۔پنجاب اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا کہ پنجاب سے ضلعی حکومت کی مدت کے تحفظ کیلیے منظور کی جانے والی قرارداد نئی آئینی ترمیم کی سفارش کرتی ہے جس کے لیے قومی اسمبلی و سینیٹ کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی تحفظ کے لیے اگر 27 ویں آئینی ترمیم بھی کرنا پڑی تو اس کی حمایت کریں گے۔ اسپیکر ملک محمد احمد خان نے کہا کہ ملک میں گزشتہ 50 سال کے دوران مقامی حکومتوں کا وجود نہیں رہا، توقع کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتیں اس ترمیم کی حمایت کریں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ضلعی حکومتوں کی عدم موجودگی میں ریاست کا عمرانی معاہدہ کمزور ہوا ہے، ضلعی حکومت کے حوالے سے موثر قانون کی عدم موجودگی کے باعث ماضی میں صوبائی حکومتیں لوکل گورنمنٹس کو توڑتی رہی ہیں۔اسپیکر پنجاب اسمبلی نے مدارس اور علمائے کرام کے حوالے سے حکومت کے کئے جانے والے اقدام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے اقدامات کے ساتھ ساتھ سعودی عرب، ایران اور دیگر اسلامی ممالک میں علمائے کرام کیلیے بنائے جانے والے ماڈل کو ضرور دیکھنا چاہیے۔
مذہبی جماعت کے خلاف ہونے والے آپریشن کے بارے میں اسپیکر کا کہنا تھا کہ امن و امان بحال رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے جسے ریاست نے ہر صورت پورا کرنا ہے۔واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے منگل 21 اکتوبر کو پنجاب میں طویل عرصے سے التوا کا شکار بلدیاتی انتخابات کے لیے جاری کردہ حلقہ بندی کے شیڈول کو واپس لے لیا تھا، جو 2022 کے مقامی حکومت کے قانون کے تحت جاری کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومت کو 4 ہفتوں کی مہلت دی ہے تاکہ وہ رواں ماہ کے آغاز میں نافذ ہونے والے نئے قانون کی روشنی میں حلقہ بندی اور حد بندی کے قواعد کو حتمی شکل دے
۔8 اکتوبر کو ای سی پی نے دسمبر میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا اور پنجاب حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ فورا حلقہ بندی کا عمل شروع کرے اور دو ماہ کے اندر اسے مکمل کرے۔2019 میں اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے پنجاب میں بلدیاتی ادارے تحلیل کر دیے تھے، جنہیں بعد میں سپریم کورٹ نے بحال کیا، اور ان کی مدت 31 دسمبر 2021 کو مکمل ہوئی تھی۔اس کے مطابق انتخابات اپریل 2022 کے اختتام تک کرائے جانے تھے، آئین کے آرٹیکل 140-اے اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 219(4) کے تحت، الیکشن کمیشن پر لازم ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے 120 دن کے اندر انتخابات کرائے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپی پی کشمیر کاز کی علمبردار،کبھی حقوق پر سودا نہیں کریں گے،بلاول بھٹو پی پی کشمیر کاز کی علمبردار،کبھی حقوق پر سودا نہیں کریں گے،بلاول بھٹو پاک افغان تعلقات کے حوالے سے نیا فورم دستیاب ہوگا،وزیر اطلاعات گورنر خیبر پختونخوا نے صوبائی وزرا سے حلف لے لیا،10ارکان کابینہ شامل بھارتی پراپیگنڈہ بے بنیاد، اسرائیل کو تسلیم کیا نہ فوجی تعاون زیر غور ہے: پاکستان سوڈان: دارفور ریجن میں خونریز کارروائیاں، رواں ہفتے 1500 شہری ہلاک اسلام آباد ہائیکورٹ: غیر قانونی گیسٹ ہاؤسز اور ہاسٹلز کیخلاف سی ڈی اے کو کارروائی کی اجازتCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم