بزرگوں کے تذکرہ کا اصل مقصد
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
ذی الحجہ میں سیدنا حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی عظمت اور قربانیوں کے ذکر اور ان کے ساتھ عقیدت و محبت کے اظہار کے بعد امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا تذکرہ ہوتا ہے جبکہ محرم الحرام کے آغاز میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمان اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور خانوادہ نبوت کے دیگر عظیم سپوتوں کے تذکرہ میں محو ہو جاتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالی کے ان نیک بندوں کے تذکرہ سے ثواب و اجر کمانے کے ساتھ ساتھ اپنی نسبتوں کا اظہار کیا جاتا ہے اور اصحابِ ذوق اس میں راہنمائی کے پہلو بھی تلاش کرتے رہتے ہیں جو اِن تذکروں کا اصل مقصد ہوتا ہے۔
اپنے بزرگوں کو یاد رکھنا اور ان کی خدمات اور قربانیوں سے آنے والی نسلوں کو باخبر کرتے رہنا زندہ قوموں کا شعار ہے جو اُن کے مستقبل کی بہتر صورت گری کی بنیاد بنتا ہے اور اس سے قوموں کے امتیازات کا تسلسل بھی قائم رہتا ہے جبکہ ہمارے پاس بحمد اللہ تعالی اپنے بزرگوں بالخصوص حضرات انبیاء کرامؑ، صحابہ کرام و اہل بیت عظامؓ، اور ائمہ سلفؒ کے حالات زندگی اور خدمات کاریکارڈ جس استناد و اعتماد کے ساتھ محفوظ ہے، کسی اور قوم کے ہاں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی، جس کی وجہ سے مسلمان اپنے ماضی کی طرف دوسروں کی بہ نسبت زیادہ دیکھتے ہیں، حتٰی کہ اس بات کا انہیں طعنہ بھی ملتا ہے کہ وہ ماضی پسند بلکہ ماضی پرست قوم ہے اور ہر وقت اپنے بزرگوں کے تذکرہ کھوئی رہتی ہے۔ یہ بات اگرچہ طعن کے انداز میں کہی جاتی ہے مگر اس میں خوبی اور خیر کا یہ پہلو بہرحال نمایاں ہے کہ مسلمانوں کو اپنے بزرگوں کے حالات و واقعات اعتماد و استناد کے ساتھ مل جاتے ہیں اور وہ ان سے عقیدت و محبت بھی رکھتے ہیں جس سے اچھے لوگوں کی پیروی اور ان کے نقش قدم پر چلنے کے جذبہ کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور اس کی برکات و فیوض ملتے ہیں۔
ایک محفل میں سیدنا حضرت فاروق اعظمؓ اور سیدنا حضرت امام حسینؓ کا تذکرہ ہو رہا تھا، میں نے عرض کیا کہ ہم اپنے ان دونوں عظیم بزرگوں کو آج کے حالات کے تناظر میں دیکھیں تو ایک بات یہ بھی بطور خاص قابل توجہ نظر آتی ہے کہ امیر المومنین حضرت عمرؓ نے معاشرہ اورحکومت و ریاست کے دائروں میں مثالی کردار پیش کیا، جسے آج بھی یاد کیا جاتا ہے اور اس سے راہنمائی حاصل کرنے کی بات کی جاتی ہے جبکہ حضرت امام حسینؓ نے اسی کردار کے اعلی معیار میں کمی کو گوارا نہ کرتے ہوئے اسے اصل صورت میں قائم رکھنے کے لیے قربانی پیش کی، جو رہتی دنیا تک نسلِ انسانی کی راہنمائی کرتی رہے گی۔
آج کی دنیا حضرت عمرؓ کو گڈگورننس اور ویلفیئر اسٹیٹ کے حوالہ سے بہت یاد کرتی ہے، اور جہاں بھی اِن کی ضرورت و اہمیت کا تذکرہ ہوتا ہے وہاں حضرت عمرؓ کا کسی نہ کسی حوالہ سے تذکرہ بھی ہو جاتا ہے، حتٰی کہ بہت سے حکمران بھی تذکرہ کرتے رہتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہم مسلمان صرف تذکرہ تک محدود رہتے ہیں مگر عملی طور پر دنیا کے کسی مسلم ملک میں اس گڈگورننس یا ویلفیئر اسٹیٹ کا نمونہ دکھائی نہیں دیتا، جو ہماری اصل کنفیوژن ہے۔ اس وقت دنیا کو نظریات اور نظام کی تلاش نہیں، وہ تو کتابوں اور تاریخ کے ریکارڈ میں موجود و محفوظ ہے، اور اس کے مختلف پہلوؤں پر آج بھی دنیا کی اعلٰی دانش گاہوں اور تعلیمی مراکز میں اسٹڈی اور ریسرچ کا کام جاری ہے، اصل ضرورت عملی نمونہ کے طور پر ایک مثالی ریاست کی ہے جو خلافت راشدہ کے اصولوں کی بنیاد پر قائم ہو اور خلفاء راشدین بالخصوص حضرت عمرفاروقؓ کی روایات کا نمونہ دکھا سکے۔ اگر نظم و ضبط اور دیانت و قناعت کی ان روایات کو مغربی ملکوں کے کچھ حکمران اپنا سکتے ہیں، جن کی مثالیں ہم بھی پیش کرتے رہتے ہیں، تو مسلمان حکمرانوں اور افسران کو بھی اپنے طرزعمل میں تبدیلی لانا پڑے گی کیونکہ ہم نے خود کو پروٹوکول، پرسٹیج، تعیش و تکلفات اورقانون و نظم سےبالاہونے کےجس ماحول کا عادی بنا لیا ہے اسے چھوڑے بغیر نہ گڈگورننس حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی ویلفیئر اسٹیٹ کی کوئی صورت بن سکتی ہے۔
میں حکمرانوں اور افسروں کو حضرت عمر بن عبد العزیز ؒکےحالات و واقعات پڑھنے کا مشورہ دیا کرتا ہوں جو امیر المومنین بننے سے پہلے پروٹوکول، تعیش اور تکلفات کے بلند ترین معیار پر تھے، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عمدہ سے عمدہ لباس پہننا اور روزانہ لباس تبدیل کرنا ان کا معمول بن چکا تھا، مگر امارت کا منصب سنبھالتے ہی سب کچھ چھوڑ دیا اور ایک عام شہری کی طرح سادہ زندگی بسر کر کے دنیا کو بتایا کہ تبدیلی اس طرح آیا کرتی ہے۔ انہوں نے اپنے تصرف میں موجود سرکاری اثاثوں کو عہدہ کا چارج سنبھالتے ہی واپس کر دیا، اور امیر المومنین بننے کے بعد یہ واقعہ بھی تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ایک دن ان کے برادر نسبتی مسلمہ بن عبد الملکؒ جو چیف آف آرمی اسٹاف تھے، ملاقات کے لیے آئے تو جاتے ہوئے اپنی بہن سے ناراض ہوئےکہ بھائی کے کپڑے تو دھلا دیا کرو۔ اس اللہ کی بندی نےکہا کہ ہر وقت ان کے پاس لوگوں کا ہجوم رہتا ہے اور ان کے پاس کپڑوں کا دوسرا جوڑا نہیں ہے جو ان کو پہنا کر بدن کے کپڑے دھو سکوں۔
ہم بزرگوں کا نام لیتے ہوئے نہیں تھکتے مگر ہمارے تعیشات و تکلفات بلکہ لوٹ کھسوٹ میں کمی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دےرہا۔ سیدنا حضرت فاروق اعظمؓ اور سیدنا حضرت امام حسینؓ کے تذکرہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ عدل و انصاف اور سادگی پر مبنی نظام کے قیام کی کوشش کی جائے اور کردار کے اعلی معیارات کو برقرار رکھنے کے لیے ہر قسم کی قربانی دی جائے۔ گڈگورننس اور ویلفیئر اسٹیٹ کے لیے ان بزرگوں کے طور طریقوں کو اختیار کیا جائے، اور دوسری قوموں کی نقالی کرنے کی بجائے اپنے شاندار ماضی کو یاد کرتے ہوئے ان بزرگوں کی روایات کو زندہ کرنے کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: امیر المومنین بزرگوں کے کے تذکرہ کے ساتھ اور اس اور ان ہے اور
پڑھیں:
تجدید وتجدّْ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-9
4
مفتی منیب الرحمن
اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔
معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔
ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔
قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔
اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔
ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔
(جاری)