Express News:
2025-08-03@02:18:45 GMT

شخصیت پرستی کا نقصان

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

پاکستانی سیاست کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ شخصیات کے گرد کھڑی ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہاں ادارہ سازی کے بجائے افراد زیادہ مضبوط ہوتے ہیںاور انھی کی بالادستی ہوتی ہے۔ شخصیت پرستی کی بنیاد اگر نفرت، تعصب اور منفی بنیادوں پر یا شدت پسندی سمیت جنونیت پر ہوگی تو اس سے قومی سیاست کے اندر اور زیادہ مسائل گہرے ہو جائیں گے۔

بنیادی طور پر پاکستان میں شخصیت پرستی کو کمزور کرنے کے حوالے سے اہل دانش کی سطح پر بھی کوئی بڑا کام نہیں ہو سکا۔کیونکہ جو کام اہل دانش نے اپنی سطح پر انفرادی اجتماعی سطح پہ کرنا تھا، اس کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی جا سکی۔سیاسی جماعتوں میں اپنے سیاسی مخالفین کو دشمن بنا کر پیش کرنے کا رواج بتدریج بڑھ رہا ہے۔

یہ خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہم قومی سیاست کی ترتیب میں منفی پہلوؤں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔جب کہ مثبت پہلو ہماری قومی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکے۔شخصیت پرستی سے نمٹنے کے لیے ہمیں اہل دانش کی سطح پر یا علمی اور فکری بنیادوں پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔مگر یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں،اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے اندر تمام طبقات مل جل کر انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایسا لائحہ عمل مرتب کریں کہ وہ لوگوں کے سیاسی اور سماجی شعور کو آگے بڑھائیں۔

شخصیت پرستی کا یہ کھیل پاکستان کی قومی سیاست کے اندر ایک بانج پن کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔جس سے نئی قیادت کا ابھرنا اور نئی جدید سیاسی تصورات کا ابھرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ یہ صدی افراد کے مقابلے میں ادارہ سازی کی صدی ہے، اس لیے ہمیں شخصیت پرستی کے بجائے ادارہ سازی پر توجہ دینی ہوگی۔ شخصیت پرستی کا ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ سچ اور جھوٹ کی تمیز کو ختم کر دیتا ہے۔

لوگوں میں اندھی تقلید کو فروغ دیتا ہے۔جو معاشرے کو تنگ نظری کی طرف لے کر جاتا ہے۔ہمارے تعلیمی سماجی اور علمی اور فکری نظام کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ اس نے شخصیت پرستی کے معاملے میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے۔اس شخصیت پرستی نے ہمارے سیاسی سماجی معاشی اور انتظامی ڈھانچوں کو کھوکھلا بھی کر دیا ہے۔

لیکن اس کا علاج ہماری ترجیحات کا حصہ نظر نہیں آرہی۔اس لیے اس پر زیادہ غور ہونا چاہیے کہ ہم شخصیت پرستی کے کھیل میں کیسے خود کو باہر نکال سکتے ہیں اور کیسے ادارہ سازی کی طرف توجہ دے سکتے ہیں۔کیونکہ جب ادارے بالادست ہوں گے تبھی ریاست کی جدیدیت کا پہلو سامنیآئے گا اور ہم عالمی دنیا میں بھی اپنی ساکھ کو قائم کر سکیں گے۔

جہاں افراد کے مقابلے میں ادارے بالادست نہیں ہوں گے تو وہاں لوگوں پر بھروسہ زیادہ ہوگا اور لوگ اداروں کے مقابلے میں افراد پر انحصار کریں گے۔جب کہ آئین اور قانون کی پاسداری کا براہ راست تعلق افراد سے زیادہ ادارہ سازی کی مضبوطی اور شفافیت سے جڑا ہوا ہے۔یہ کام سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ہوگا، اس میں ہم سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔

اس میں اصل کام علمی اور فکری بنیادوں پر ہونا چاہیے اور خاص طور پہ ہمارا تعلیمی نظام اس میں بنیادی تبدیلیاں درکار ہے۔نئی نسل پرانے خیالات کو چیلنج کر رہی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ شخصیت پرستی کے اس کھیل نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔یہی وجہ ہے کہ نئی نسل اور پرانی نسل کے درمیان ایک ٹکراؤ کا ماحول بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔نئی نسل مسائل کا حل چاہتی ہے اور ریاست سے سوال اٹھا رہی ہے۔ ریاست کو ان سوالوں کا جواب دینا ہے۔

شخصیت پرستی کے اس کھیل نے سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام کو بھی کمزور کر کے رکھ دیا ہے۔سیاسی جماعتیں بظاہر سیاسی جماعتیں کم اور نجی ملکیتی کمپنیاں زیادہ لگتی ہے۔ ان جماعتوں میں جو بھی شخصیت پرستی کو چیلنج کرتا ہے یا قیادت کو چیلنج کرتا ہے تو ان کے لیے راستے محدود کر دیے جاتے ہیں۔شخصیت پرستی کا کھیل سیاسی جماعتوں میں موجود لوگوں کو پیغام دیتا ہے کہ وہ قیادت کی تابعداری کریں۔اور جو اس کے حکم کو ماننے سے انکار کر دے وہ متبادل راستہ اختیار کرے۔یہ عمل سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کے مقابلے میں آمرانہ رجحان اور ڈکٹیٹر شپ کو فروغ دیتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے مقابلے میں ا سیاسی جماعتوں کے اندر کرتا ہے

پڑھیں:

سانحہ 9 مئی میں ملوث افراد کو سزائیں ‘ عدالتی فیصلہ خوش آئند : عظمیٰ بخاری

لاہور (نوائے وقت رپورٹ ) وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے گزشتہ روز 9 مئی کے عدالتی فیصلے کو ملک و قوم کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ریاستی اداروں کے خلاف منفی سوچ رکھنے والوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ ایسی حرکات اب برداشت نہیں کی جائیں گی۔ لوگوں کو زبردستی اداروں کے خلاف اکسانا اور حملے کرانا ناقابلِ برداشت ہے۔ کسی سیاسی جماعت کے نام پر ایسی دہشت گردی کو ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے۔ گزشتہ روز کے فیصلے کے بعد ایسی حرکتیں کرنے والوں کو ایک بار نہیں‘کئی بار سوچنا پڑے گا۔ تشدد کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کو مکمل شکست ہوئی ہے۔ اب سوسائٹی میں یہ بحث ہونی چاہیے کہ آیا نو مئی جیسے واقعات کسی سیاسی عمل کا حصہ ہو سکتے ہیں یا یہ آخری حربے کے طور پر استعمال ہونے والی ایک خطرناک سوچ تھی، جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ ایسے فیصلے نہ صرف قانون کی بالادستی کو یقینی بناتے ہیں بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی بحال کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اگر آپ اپنے بچوں کو یہاں لانے کے لیے تیار نہیں  تو لوگوں کے بچوں کو پاکستان کی سیاسی آگ کا ایندھن نہ بنائیں، سلمان غنی
  • یہ نہیں کہا کہ بچے احتجاج کیلئے آئیں، علیمہ سیاسی بات نہ کریں: بانیٔ پی ٹی آئی
  • عالمی برادری کا نئے امریکی ٹیرفس پر شدید ردعمل
  • گھڑ سوار اور عقوبت خانہ!
  • پی ٹی آئی میں قیادت کا فقدان، اپنے کیس بھی صحیح طریقے سے نہیں لڑے، فیصل چودھری
  • مجھے نہیں پتہ کس کو کتنا نقصان ہوا، یہ صرف اسلام آباد کے ڈرائنگ رومزکی گفتگو تھی، مفتاح اسماعیل کی وضاحت
  • سانحہ 9 مئی میں ملوث افراد کو سزائیں ‘ عدالتی فیصلہ خوش آئند : عظمیٰ بخاری
  • سیاسی جماعتیں آئین کی بالادستی یا اقتدار بچانے کا فیصلہ کریں: لشکری رئیسانی
  • 9مئی مقدمات میں پی ٹی آئی رہنما ؤں کو سزائیں، بیرسٹر گوہر کا ردعمل بھی سامنے آگیا
  • لاوا پھٹنے کو ہے، جب پھٹے گا تو پاکستان کیلئے نقصان دہ ہوگا: محمد زبیر