Express News:
2025-04-27@02:35:34 GMT

شخصیت پرستی کا نقصان

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

پاکستانی سیاست کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ شخصیات کے گرد کھڑی ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہاں ادارہ سازی کے بجائے افراد زیادہ مضبوط ہوتے ہیںاور انھی کی بالادستی ہوتی ہے۔ شخصیت پرستی کی بنیاد اگر نفرت، تعصب اور منفی بنیادوں پر یا شدت پسندی سمیت جنونیت پر ہوگی تو اس سے قومی سیاست کے اندر اور زیادہ مسائل گہرے ہو جائیں گے۔

بنیادی طور پر پاکستان میں شخصیت پرستی کو کمزور کرنے کے حوالے سے اہل دانش کی سطح پر بھی کوئی بڑا کام نہیں ہو سکا۔کیونکہ جو کام اہل دانش نے اپنی سطح پر انفرادی اجتماعی سطح پہ کرنا تھا، اس کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی جا سکی۔سیاسی جماعتوں میں اپنے سیاسی مخالفین کو دشمن بنا کر پیش کرنے کا رواج بتدریج بڑھ رہا ہے۔

یہ خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہم قومی سیاست کی ترتیب میں منفی پہلوؤں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔جب کہ مثبت پہلو ہماری قومی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکے۔شخصیت پرستی سے نمٹنے کے لیے ہمیں اہل دانش کی سطح پر یا علمی اور فکری بنیادوں پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔مگر یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں،اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے اندر تمام طبقات مل جل کر انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایسا لائحہ عمل مرتب کریں کہ وہ لوگوں کے سیاسی اور سماجی شعور کو آگے بڑھائیں۔

شخصیت پرستی کا یہ کھیل پاکستان کی قومی سیاست کے اندر ایک بانج پن کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔جس سے نئی قیادت کا ابھرنا اور نئی جدید سیاسی تصورات کا ابھرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ یہ صدی افراد کے مقابلے میں ادارہ سازی کی صدی ہے، اس لیے ہمیں شخصیت پرستی کے بجائے ادارہ سازی پر توجہ دینی ہوگی۔ شخصیت پرستی کا ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ سچ اور جھوٹ کی تمیز کو ختم کر دیتا ہے۔

لوگوں میں اندھی تقلید کو فروغ دیتا ہے۔جو معاشرے کو تنگ نظری کی طرف لے کر جاتا ہے۔ہمارے تعلیمی سماجی اور علمی اور فکری نظام کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ اس نے شخصیت پرستی کے معاملے میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے۔اس شخصیت پرستی نے ہمارے سیاسی سماجی معاشی اور انتظامی ڈھانچوں کو کھوکھلا بھی کر دیا ہے۔

لیکن اس کا علاج ہماری ترجیحات کا حصہ نظر نہیں آرہی۔اس لیے اس پر زیادہ غور ہونا چاہیے کہ ہم شخصیت پرستی کے کھیل میں کیسے خود کو باہر نکال سکتے ہیں اور کیسے ادارہ سازی کی طرف توجہ دے سکتے ہیں۔کیونکہ جب ادارے بالادست ہوں گے تبھی ریاست کی جدیدیت کا پہلو سامنیآئے گا اور ہم عالمی دنیا میں بھی اپنی ساکھ کو قائم کر سکیں گے۔

جہاں افراد کے مقابلے میں ادارے بالادست نہیں ہوں گے تو وہاں لوگوں پر بھروسہ زیادہ ہوگا اور لوگ اداروں کے مقابلے میں افراد پر انحصار کریں گے۔جب کہ آئین اور قانون کی پاسداری کا براہ راست تعلق افراد سے زیادہ ادارہ سازی کی مضبوطی اور شفافیت سے جڑا ہوا ہے۔یہ کام سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ہوگا، اس میں ہم سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔

اس میں اصل کام علمی اور فکری بنیادوں پر ہونا چاہیے اور خاص طور پہ ہمارا تعلیمی نظام اس میں بنیادی تبدیلیاں درکار ہے۔نئی نسل پرانے خیالات کو چیلنج کر رہی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ شخصیت پرستی کے اس کھیل نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔یہی وجہ ہے کہ نئی نسل اور پرانی نسل کے درمیان ایک ٹکراؤ کا ماحول بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔نئی نسل مسائل کا حل چاہتی ہے اور ریاست سے سوال اٹھا رہی ہے۔ ریاست کو ان سوالوں کا جواب دینا ہے۔

شخصیت پرستی کے اس کھیل نے سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام کو بھی کمزور کر کے رکھ دیا ہے۔سیاسی جماعتیں بظاہر سیاسی جماعتیں کم اور نجی ملکیتی کمپنیاں زیادہ لگتی ہے۔ ان جماعتوں میں جو بھی شخصیت پرستی کو چیلنج کرتا ہے یا قیادت کو چیلنج کرتا ہے تو ان کے لیے راستے محدود کر دیے جاتے ہیں۔شخصیت پرستی کا کھیل سیاسی جماعتوں میں موجود لوگوں کو پیغام دیتا ہے کہ وہ قیادت کی تابعداری کریں۔اور جو اس کے حکم کو ماننے سے انکار کر دے وہ متبادل راستہ اختیار کرے۔یہ عمل سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کے مقابلے میں آمرانہ رجحان اور ڈکٹیٹر شپ کو فروغ دیتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے مقابلے میں ا سیاسی جماعتوں کے اندر کرتا ہے

پڑھیں:

دنیا کا سب سے کڑوا ترین مادہ دریافت

Amaropostia stiptica عرف کڑوی بریکٹ فنگس نامی مشروم اگرچہ زہریلا نہیں ہے لیکن اس کا ذائقہ ایسا ہے کہ آپ کو لگے گا کہ آپ مرجائیں گے۔

سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ اس مشروم کی قسم میں ایک مادہ اتنا کڑوا پایا جاتا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی مقدار بھی آپ کے کڑوے ذائقے کو انتہائی متحرک کر دیتی ہے۔

جیسا کہ اس کے نام سے پتہ چلتا ہے، کڑوی بریکٹ ایک ناقابل خوردنی مشروم ہے۔ جرمنی میں لیبنز انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سسٹمز بائیولوجی اینڈ پلانٹ بائیو کیمسٹری کی تحقیقی ٹیم نے اس کا تجزیہ کرنا شروع کیا لیکن انہیں اس میں دنیا کے سب سے کڑوے مرکب کو دریافت کرنے کی توقع نہیں تھی۔

یہ مشروم پورے یورپ، ایشیا اور شمالی امریکا میں ویران جنگلوں میں درختوں کے ساتھ جڑا ہوا اگتا ہے لیکن چونکہ یہ زیادہ قابل توجہ نہیں ہے اس لیے اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا رہا ہے۔

تاہم اس نے حال ہی میں oligopolyn D نامی مرکب کی وجہ سے سائنسی برادری کی اپنی طرف بہت زیادہ توجہ مبذول کرائی ہے جس کے بارے میں سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کے سب سے کڑوے مادے کا دعویدار ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فن صحافت میں انٹرویو کی اہمیت
  • شاہ رخ خان کے ’’منت‘‘ چھوڑنے پر مقامی دکانداروں کو کیا نقصان ہوا؟
  • چینی چھوڑنے سے فائدہ ہوتا ہے یا نقصان؟وہ حقائق جو سب کومعلوم نہیں
  • ہماری اصل طاقت عوام کی وہ بیداری ہے جو کسی سیاسی مصلحت کی مرہونِ منت نہیں
  • ٹیرف جنگ کی بدولت امریکہ کے معاشی نقصانات کا آغاز ، چینی میڈیا
  • دنیا کا سب سے کڑوا ترین مادہ دریافت
  • بھارت کیخلاف پاکستان کی سیاسی جماعتیں متحد، جارحیت کا بھرپور جواب دینے پر اتفاق
  • پاکستان کے جواب سے بہت زیادہ مطمئن ہوں، مشاہد حسین
  • فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد
  •  سندھ طاس معاہدے کی منسوخی کے اعلان کیخلاف سیاسی رہنما اور قانونی ماہرین یک زبان