کرم میں بنکرز کی مسمار کا آغاز ،کارروائی آبادی کو اعتماد میں لے کر کی گئی
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
اسلام آباد / ہنگو (نمائندہ جسارت+ آن لائن) خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں گزشتہ 100 روز سے بند مرکزی شاہراہ کھولنے کے لیے صوبائی حکومت نے مرکزی شاہراہ کے ساتھ قائم نجی بنکرز کو مسمار کرنا شروع کر دیا ہے اور اب تک 2 گاؤں میں کام مکمل کرلیا گیا ہے۔ دوسری جانب ہنگو انتظامیہ نے کمشنر کوہاٹ کو خط لکھا ہے کہ کرم کے لیے ٹرکوں کی نقل و حمل کی پیشگی اطلاع نہیں، ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا
ہے، غذائی اجناس کے قافلے کے ضلع ہنگو سے گزرنے کے حوالے سے ریکارڈ فراہم کیا جائے۔ تفصیلات کے مطابق کرم میں صوبائی حکومت نے مرکزی شاہراہ کے ساتھ قائم نجی بنکرز کو مسمار کرنا شروع کر دیا ہے ، ضلعی انتظامیہ کرم و پولیس نے کارروائی کی تصدیق کی ہے۔ حکومت کی جانب سے تشکیل کمیٹی اور مقامی عمائدین سے مذاکرات کے بعد 2 دن کی تاخیر سے مسمار کرنے کا عمل شروع کیا گیا ہے جو سخت سیکورٹی میں جاری ہے۔ لوئر کرم میں دونوں مخالفت فریق کے ایک ایک مورچے مسمار کردیے گئے۔ خار کلی اور بالش خیل میں فریقین کا ایک ایک بنکر مسمار کردیا گیا۔ اس عمل میں پولیس کے ساتھ ایف سی، ضلعی انتظامیہ اور محکمہ سی این ڈبلیو کے حکام موجود ہیں جبکہ گن شپ ہیلی کاپٹرز کی مدد سے فضائی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ فریقین سے مذاکرات میں بلا تفریق بنکرز مسمار کرنے پر اتفاق ہو ا جس کے فوراً بعد مسمار کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ ٹل پاراچنار روڈ بدستور بند ہے اور بڑی تعداد میں امدادی سامان سے لدے ٹرک کھڑے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سڑک ابھی محفوظ نہیں ہے اور پاراچنار بدستور بند ہے۔کرم کے علاقے بگن میں مکینوں کا دھرنا جاری ہے جو مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا۔ دھرنے میں شامل ایک رہنما نے بتایا کہ پاراچنار اور کرم میں جاری حالیہ فسادات میں بگن سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا دھرنے کے شرکا کا مطالبہ ہے کہ بگن پر لشکر کشی کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے، حکومتی وعدے کے مطابق بگن میں اب تک نقصانات کا ازالہ نہیں ہوا اور لوگ امداد کے منتظر ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ کرم کو اسلحے سے پاک کرنے کے اپیکس کمیٹی کے فیصلے پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔علاوہ ازیں ضلعی انتظامیہ ہنگو نے کمشنر کوہاٹ کو خط لکھ کر کہا ہے کہ ٹرکوں کی نقل و حمل کی ضلعی انتظامیہ ہنگو کو پیشگی اطلاع نہیں دی جاتی۔خط میں کہا گیا کہ ضلعی انتظامیہ ہنگو کو کرم کانوائے کے حوالے سے کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی جاتی، آگاہ نہ کرنے پر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔ خط میں مطالبہ کیا گیا کہ غذائی اجناس کے قافلے کے ضلع ہنگو سے گزرنے کے حوالے سے ریکارڈ فراہم کیا جائے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ متعلقہ ادارے قافلے کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات شیئر کریں تاکہ خورونوش کی محفوظ نقل و حمل کے لیے ضروری انتظامات کیے جاسکتے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ضلعی انتظامیہ
پڑھیں:
کشمیر: پاکستان کے خلاف بھارتی اقدامات اور اسلام آباد کی جوابی کارروائی کی دھمکی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) بھارت کی جانب سے آبی وسائل سے متعلق سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے، سرحدی راستہ بند کرنے، ویزوں کو منسوخ کرنے اور دفاعی اتاشیوں کو ملک بدر کرنے جیسے فیصلوں کے بعد پاکستان میں آج (جمعرات) کے روز قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے، جس میں فوجی حکام بھی شامل ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے معروف سیاحتی مقام پہلگام میں منگل کے روز شدت پسندوں نے سیاحوں پر حملہ کیا تھا، جس میں کم از کم 26 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
بدھ کی شام کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں کابینہ کی سلامتی کمیٹی (سی سی ایس ) کی ایک میٹنگ ہوئی، جس کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف متعدد اقدامات کا اعلان کیا۔(جاری ہے)
بھارت نے پاکستانی حکومت کے سرکاری سوشل میڈیا ایکس کے اکاؤنٹ کو بھی ملک میں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کا سرکاری ایکس ہینڈل اب بھارت میں دستیاب نہیں ہے۔
بھارت نے اس حملے سے متعلق اب تک کوئی شواہد فراہم نہیں کیے ہیں، تاہم اس کے اقدامات سے واضح ہے کہ وہ اس کا الزام پاکستان پر عائد کر رہا ہے۔ ادھر اسلام آباد نے اس حملے میں کسی بھی کردار کی تردید کی اور کہا ہے کہ اس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مبصرین کے مطابق اس واقعے کے بعد سے دونوں ملکوں میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
کشمیر حملے کا جواب ’واضح اور سخت‘ دیں گے، بھارتی وزیر دفاع
اس دوران بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان، جموں کے ادھم پور علاقے میں تصادم کی اطلاعات ہیں، جس میں اب تک ایک بھارتی فوجی کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
ادھر نئی دہلی کی طرف سے اعلان کردہ متعدد اقدامات کے خلاف ایک جامع پالیسی مرتب کرنے کے لیے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں جمعرات کی صبح قومی سلامتی کا اجلاس شروع ہوا۔
بھارت: حملے کے بعد سیاحوں کا کشمیر سے تیزی سے انخلا
پاکستان نے اس بارے میں کیا کہا؟پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سوشل میڈیا ایکس پر پوسٹ میں کہا، "وزیراعظم محمد شہباز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس 24 اپریل 2025 کو طلب کیا ہے، جس میں بھارتی حکومت کے بیانات کا جواب دیا جائے گا۔"
بدھ کے روز دیر رات گئے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل سے بات چیت میں اسحاق ڈار نے بھارت کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے اسے "نادانی" اور "جلد بازی" قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے حملے سے متعلق "کوئی ثبوت نہیں دیا ہے۔ یہ ایک غیر سنجیدہ نقطہ نظر ہے۔ انہوں نے اس واقعے کے فوراً بعد ہی ہیجان پیدا کرنا شروع کر دیا۔ "اس سے پہلے پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک الگ بیان میں جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔
پہلگام 'دہشت گردانہ' حملے پر عالمی ردعمل
بھارت نے پاکستان کے خلاف کن اقدامات کا اعلان کیا ہے؟اطلاعات ہیں کہ جمعرات کی صبح بھارتی حکام نے دہلی میں اسلام آباد کے سفارت کار اور ناظم الامور اعلیٰ سعد احمد وڑائچ کو طلب کیا اور انہیں پاکستانی ہائی کمیشن میں موجود دفاعی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے سے متعلق اپنا فرمان سونپا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے بدھ کی شام کو سکیورٹی سے متعلق کابینہ کمیٹی کی میٹنگ کی صدارت کی، جو تقریبا دو گھنٹے تک جاری رہی۔ اس میٹنگ میں دیگر اہم وزرا کے علاوہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے شرکت کی۔
اس کے بعد وزارت خارجہ نے میڈیا کے نمائندوں کو پہلگام میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے تناظر میں اعلان کردہ متعدد اقدامات کے بارے میں بتایا۔
سکریٹری خارجہ وکرم مصری نے صحافیوں سے کہا کہ حملے کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہوئے پانچ اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا: "نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں دفاعی/فوجی، بحری اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا گیا ہے۔ ان کے پاس بھارت چھوڑنے کے لیے ایک ہفتہ ہے۔ بھارت اسلام آباد میں اپنے ہائی کمیشن سے اپنے دفاعی/بحری/فضائی مشیروں کو واپس بلا لے گا۔
ہائی کمیشن میں ان پوسٹوں کے لیے موجود پانچ معاون ملازمین کو بھی واپس بلا لیا جائے گا۔"بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر حملہ، 24 افراد ہلاک
انہوں نے سرحدی راستہ بند کرنے کے بارے میں کہا کہ اٹاری میں انٹیگریٹڈ چیک پوسٹ کو فوری طور پر بند کیا جا رہا ہے۔ مصری نے کہا، "جو لوگ دستاویزی توثیق کے ساتھ سرحدی راستے سے آئے تھے، وہ یکم مئی 2025 سے پہلے تک اس راستے سے واپس جا سکتے ہیں۔
"میٹنگ میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ بھارت سندھ آبی معاہدے کو اس وقت تک کے لیے "فوری طور پر معطل کر رہا ہے، جب تک پاکستان قابل اعتبار اور حتمی طور پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو جاتا۔"
وکرم مصری نے فیصلے کے مطابق پاکستانی شہریوں کو سارک ویزا استثنیٰ اسکیم کے تحت اب بھارت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا، "ماضی میں اس اسکیم تحت پاکستانی شہریوں کو جاری کیے گئے تمام ویزوں کو منسوخ کیا جا رہا ہے اور ایسے ویزوں کے تحت بھارت میں موجود کسی بھی پاکستانی کو واپس لوٹنے کے لیے 48 گھنٹوں کا وقت دیا جا رہا ہے۔"بھارت کا کہنا ہے سفارت کاروں میں مزید کمی کے اس فیصلے کے بعد یکم مئی 2025 سے ہائی کمیشنوں کی عملے کی مجموعی تعداد موجودہ 55 سے کم ہو کر 30 ہو جائے گی۔
بھارت کے سکریٹری خارجہ نے بتایا کہ میٹنگ میں سکیورٹی کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور تمام فورسز کو سخت چوکسی برقرار رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، "فیصلہ کیا گیا کہ حملے کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور ان کی معاونین کا بھی محاسبہ کیا جائے گا۔"
کشمیر: بھارت اور پاکستان کے مابین اقوام متحدہ میں پھر تکرار
سکیورٹی پر سوالاتبھارت کی مودی حکومت کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے متنازعہ علاقے میں حالات بہتر ہونے، دہشت گردی کا قلعہ قمع کرنے اور کشمیریوں کو زندگی بہتر کرنے کا دعوی کرتی رہی ہے۔
تاہم بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتیں اور سول سوسائٹی حکومت کے ان دعووں پر مسلسل سوال اٹھاتی رہی ہیں۔حزب اختلاف کے رہنما راہول گاندھی سمیت متعدد حلقے اب یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر سکیورٹی میں اتنی بڑی لاپرواہی کی ذمہ داری کون قبول کرے گا۔
راہول گاندھی نے پہلگام میں ہونے والے حملے پر اپنے ردعمل میں وزیراعظم مودی پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ کشمیر میں امن کی بحالی کے بلند و بانگ دعوے کرنے کے بجائے حکومت کو ہر صورت اس واقعے کی ذمہ داری لینی چاہیے۔
حزب اختلاف کے متعدد رہنماؤں نے ملک کی خفیہ ایجنسیوں پر بھی سخت نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ "پہلگام حملہ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی واضح ناکامی ہے۔"
اس حملے کا اصل ذمہ دار کون ہے اس بارے میں بھی ابھی تک کسی بھی جانب سے کوئی حتمی تصدیق نہیں کی گئی ہے، البتہ بھارتی سکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس ایجنسیوں نے پہلگام حملے کے بعض مشتبہ حملہ آوروں کے خاکے جاری کیے ہیں اور ان کا پتہ بتانے والوں کو انعام دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
بھارت میں جماعت اسلامی، جمعیت علماء اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سمیت تقریبا سبھی مسلم تنظیموں نے بھی پہلگام حملے کی مذمت کی ہے۔ تاہم انہوں نے سکیورٹی میں ناکامی کے لیے حکومت نکتہ چینی کی ہے۔
ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ جب حکومت کشمیر میں حالات بہتر ہونے کا دعوی کر رہی تو 13 لاکھ فوج اور دیگر نیم فوجی دستوں کی موجودگی کے باوجود اس طرح کا حملہ کیسے ممکن ہوا۔