امام علیؑ کا عدل پوری انسانیت اور بشریت کی کامیابی و نجات کا عظیم ترین ذریعہ ہے، سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
ایک بیان میں چیئرمین ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ کردار امیرالمومنینؑ کے مطابق اپنے نفس کی تطہیر اور تزکیہ کرکے، نظام کی خرابیوں کو درست کرکے اور اپنے آپ کو منظم و متحد کرکے ہم ظلم، ناانصافی، تجاوز، قانون پر عمل نہ کرنے اور دیگر چیلنجز کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ولادتِ باسعادت شیرِ خداؑ، فاتحِ خیبر، مولائے کائنات امیرالمؤمنین، خلیفتہ المسلمین حضرت امام علی ابنِ ابی طالب علیہ السّلام کی ولادتِ باسعادت کے پر مسرت موقع پر تمام مسلمانان جہان اور عالم بشریت کی خدمت میں دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ امام علیؑ کا عدل و انصاف پوری انسانیت اور بشریت کی کامیابی و نجات کا عظیم ترین ذریعہ ہے، عدالت کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی کیلئے بنیادی کلید ہے، حضرت علی علیہ السلام فضائل و کمالات کا ایسا بیکراں سمندر ہیں جس میں انسان جتنا غوطہ لگاتا جائے گا اتنا زیادہ فضائل کے موتی حاصل کرتا جائے گا اور دنیا و آخرت میں کامیابیاں سمیٹتا جائے گا، یہ ایسا سمندر ہے جس کی تہہ تک پہنچنا ناممکن ہے، امیرالمومنینؑ کا سختی کے ساتھ عدل و انصاف کا نفاذ کرنا آپ کو دنیا کے تمام حکمرانوں سے جدا اور منفرد کرتا ہے، آپؑ نے عدل و انصاف کا معاشروں، ریاستوں، تہذیبوں، ملکوں، حکومتوں اور انسانوں کے لیے انتہائی اہم اور لازم ہونا اس تکرار سے ثابت کیا کہ عدل آپؑ کے وجود اور ذات کا حصہ بن گیا اور لوگ آپؑ کو عدل سے پہچاننے لگے۔
انہوں نے کہا کہ کردار امیرالمومنینؑ کے مطابق اپنے نفس کی تطہیر اور تزکیہ کرکے، نظام کی خرابیوں کو درست کرکے اور اپنے آپ کو منظم و متحد کرکے ہم ظلم، ناانصافی، تجاوز، قانون پر عمل نہ کرنے اور دیگر چیلنجز کا مقابلہ کرسکتے ہیں کیونکہ امیرالمومنین حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کے نظام حکمرانی اور نظام احتساب سے استفادہ کرکے امت مسلمہ کے موجودہ حالات اور خراب صورت حال کو درست کیا جا سکتا ہے، تمام شہریوں کو ان کے بنیادی، انسانی، مذہبی اور شہری و آئینی حقوق دستیاب ہوں، طبقاتی تقسیم اور تفریق کی بجائے مساوات کا نظام رائج ہو، اتحاد و وحدت اور اخوت و رواداری کا عملی مظاہرہ ہو، انتہاء پسندی، فرقہ پرستی، جنونیت اور فرقہ وارانہ منافرت کا وجود ہی باقی نہ ہو، امن و خوشحالی کا دور دورہ ہو، معاشی نظام قابل تقلید ہو اور سماجی سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے اتنی بلند ہو جائے کہ دنیا کے دوسرے معاشرے اس کی پیروی کرنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھیں۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
جماعت اسلامی ویمن ونگ کراچی کا میڈیا اجلاس
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی ویمن ونگ کراچی کی ناظمہ جاوداں فہیم کی زیر صدارت میڈیا ڈپارٹمنٹ کا ایک اہم اجلاس ادارہ نورِ حق میں منعقد ہوا، جس میں شہر بھر سے میڈیا کی ذمے دار خواتین و کارکنان نے شرکت کی۔ اجلاس میں اجتماعِ عام کے حوالے سے جاری میڈیا مہمات، حکمت عملی اور مختلف پلیٹ فارمز پر ہونے والی سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور میڈیا ٹیموں کی رپورٹس پیش کی گئیں۔اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سوشل میڈیا اور دیگر ایپس پر کام کی رفتار مزید تیز کی جائے، ہر پلیٹ فارم پر مربوط انداز میں پیغام پہنچایا جائے اور میڈیا کے سامنے آنے والے چیلنجز کو سمجھ کر ان کے حل کے لیے منظم منصوبہ بندی اختیار کی جائے۔ میڈیا ورکرز کو اجتماعِ عام کی کامیابی میں بڑا کردار ادا کرنے پر زور دیا گیا اور کہا گیا کہ ہر میڈیا کارکن اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ اس اہم مہم میں حصہ لے۔اس موقع پر جماعت اسلامی ویمن ونگ کراچی کی ناظمہ جاوداں فہیم نے کہا کہ یہ محض ایک اجتماع عام نہیں بلکہ فکری و عملی جہاد ہے جو اس دور کے چیلنجز اور کرپٹ نظام کے خلاف کیا جارہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک متبادل قیادت ناگزیر ہے۔ ایسی قیادت جو عوام کے مسائل کو سمجھے، ان کی ضروریات کا خیال رکھے اور عالمی سطح پر پاکستان کے وقار کو بحال کرتے ہوئے امت مسلمہ کے ساتھ مل کر آگے بڑھے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو جس قیادت کی ضرورت ہے وہ جلد سامنے آئے گی۔عوام بھی اس ناکام نظام سے نجات چاہتے ہیں اور بدل دو نظام کا نعرہ اب ہر دل کی آواز بن چکا ہے۔ جب تک موجودہ نظام درست نہیں ہوگا، عوام کی فلاح و بہبود اور انسانیت کی ترقی ممکن نہیں۔ جماعت اسلامی اس کوشش میں مصروف ہے کہ عوامی طاقت کے ذریعے ایک منصفانہ اور منظم نظام قائم کیا جائے جو پاکستان کے وقار کو بلند اور تابندہ کرسکے۔ اجلاس میں نائب ناظمہ کراچی ندیمہ تسنیم، نگران میڈیا ڈپارٹمنٹ کراچی ثمرین احمد، ڈپٹی سیکرٹری میڈیا ڈپارٹمنٹ صائمہ عاصم، سمیہ عامر اور رضوانہ قطب سمیت دیگر ذمے داران بھی موجود تھیں۔