آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے آئین کی توہین کی ہے، راہل گاندھی
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
کانگریس لیڈر نے کہا کہ موجودہ حکمران جماعت کے لوگ آئین، قومی پرچم اور دیگر قومی علامتوں کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور انکے نظریات کانگریس سے بالکل مختلف ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس کے سینیئر لیڈر راہل گاندھی نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت پر آئین کی توہین کرنے کا الزام عائد کیا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ موہن بھاگوت نے گزشتہ روز یہ کہا تھا کہ آئین ہماری آزادی کی علامت نہیں ہے، جس پر راہل گاندھی نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی باتیں ملک کی آزادی کی تحریک اور آئین کی اہمیت کو کمزور کرنے کی کوشش ہیں۔ راہل گاندھی کانگریس کے نئے دفتر اندرا بھون دہلی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ یہ بیان ملک کے آزادی کے کارکنوں اور آئین کو عزت دینے والے افراد کے لئے انتہائی توہین آمیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب موہن بھاگوت جیسے شخص کا یہ بیان آتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ عوامی سطح پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 1947ء میں ہندوستان کو آزادی نہیں ملی تھی، یہ کہنا کہ آزادی کی تحریک بے معنی تھی، ہر ہندوستانی کی توہین ہے۔
راہل گاندھی نے کہا "کل ایک تقریر میں آر ایس ایس کے سربراہ نے کہا کہ ہندوستان نے 1947ء میں حقیقی آزادی حاصل نہیں کی، بلکہ جب رام مندر بنایا گیا تب آزادی حاصل ہوئی، یہ عمارت عام نہیں ہے، یہ ہمارے ملک کی مٹی سے نکلی ہے اور یہ لاکھوں لوگوں کی محنت اور قربانی کا نتیجہ ہے"۔ انہوں نے کہا کہ تحریک آزادی کا ثمر ہمارا آئین ہے، جس پر کل موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر حملہ بولا کہ آئین ہماری آزادی کی علامت نہیں ہے، یہ پارٹی ہمیشہ ایک خصوصی اقدار کے لئے کھڑی رہی ہے اور ہم ان اقدار کو اس عمارت میں ظاہر ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔
راہل گاندھی نے کہا کہ موجودہ حکمران جماعت کے لوگ آئین، قومی پرچم اور دیگر قومی علامتوں کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور ان کے نظریات کانگریس سے بالکل مختلف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ ہندوستان کو ایک چھپے ہوئے، گہری حکومت والے ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، جہاں ایک شخص کی حکمرانی ہو اور عوام کی آواز کو دبایا جائے۔ راہل گاندھی نے مزید کہا کہ ان کے لئے مخصوص طبقات جیسے دلت، اقلیتی برادری، پسماندہ طبقات اور قبائلی عوام کی آواز کو خاموش کرنا ان کا ایجنڈا ہے۔
راہل گاندھی نے کہا کہ کانگریس ہی وہ واحد جماعت ہے جو اس ظلم کے خلاف کھڑی ہے، کیونکہ اس کا نظریہ محض آج کا نہیں، بلکہ ہزاروں سال پرانا ہے۔ کانگریس کے نظریات ہمیشہ سے آر ایس ایس کے نظریات کے مخالف رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس ہی وہ واحد سیاسی قوت ہے جو اس وقت حکومت کے دہرے معیار اور ان کے ملک کے آئینی ڈھانچے پر حملے کے خلاف مضبوطی سے کھڑی ہے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ یہ وقت آگیا ہے کہ ان نظریات کے خلاف آواز بلند کی جائے اور لوگوں کو یہ سمجھایا جائے کہ کانگریس ہی واحد جماعت ہے جو اس ملک کے آئین کی حفاظت کرے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایس ایس کے کے نظریات آزادی کی آئین کی ملک کے
پڑھیں:
بس اب بہت ہو چکا
7 اکتوبر 2023کو حماس نے اسرائیل پر میزائلوں کے تابڑ توڑ حملے کیے جن سے اسرائیل کے بارہ افراد ہلاک ہوئے مگر جب اسرائیل نے فلسطینیوں پر میزائل حملے شروع کیے، اس سے درجنوں فلسطینی شہید ہو گئے۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اب تک پچاس ہزار فلسطینی مرد عورتیں اور بچے شہید ہو چکے ہیں۔
گو کہ تمام مسلم ممالک کے علاوہ کچھ غیر مسلم ملک بھی اسرائیل کی اس جارحیت کو ختم کرانے کے لیے کوشاں ہیں مگر اسرائیل پرکوئی اثر نہیں پڑ رہا، وہ فلسطینیوں کے قتل عام میں بدستور مصروف ہے۔ اقوام متحدہ جیسا ادارہ جس کا حکم دنیا کے ہر ملک کو ماننا لازمی ہے۔ اسرائیل ان کی کیا برطانیہ، فرانس اور کینیڈا جیسے حلیف ممالک کی بھی نہیں سن رہا۔ عالمی عدالت انصاف بھی نیتن یاہو کو انسانیت کا قاتل قرار دے کر اس کے ریڈ وارنٹ جاری کرچکا ہے مگر نیتن یاہو اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں کر رہا۔ وہ اسرائیل سے باہر ملکوں کا دورہ کر رہا ہے مگر اسے عالمی عدالت انصاف کے حکم کے باوجود کوئی ملک گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں پر یہ آفت حماس کے اسرائیل پر بغیر سوچے سمجھے میزائل حملے کا نتیجہ ہے۔ جب حماس نے اسرائیل پر میزائل حملہ کیا تھا اس وقت بھی راقم الحروف نے حماس کے اقدام سے اتفاق نہیں کیا تھا اور اپنے کالم میں اس کے بھیانک مضمرات کا ذکر کیا تھا کہ حماس کی اس غلطی سے فلسطینیوں پر کتنا بڑا عذاب آ سکتا ہے اور وہی ہوا۔ اسرائیلی اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر اسے کیا کہا جائے کہ اسرائیلی قیادت تو حماس کے حملے کا جیسے کہ انتظار ہی کر رہی تھی کہ اسے موقع ملے تو وہ فلسطینیوں پر اپنا قہر ڈھائے اور غزہ کو تباہ کر کے فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرے اور غزہ پر قبضہ جما سکے، اب اسرائیل بالکل وہی کر رہا ہے جس کا ڈر تھا۔ اسرائیل ایسا کیوں کر رہا ہے کیوں کہ اسے اپنے آقا یعنی امریکا کی مکمل آشیرباد حاصل ہے اس کے علاوہ یورپی ممالک بھی اس کا دم بھر رہے ہیں۔
صرف مغربی ممالک ہی نہیں دیگر ممالک بھی اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو اس کا حق دفاع قرار دے رہے ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے اسی وجہ سے طول پکڑ رہے ہیں کہ حماس نے حملے میں پہل کی تھی حالاں کہ اس غلطی کو نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے جیسے کہ اب بھارت نے پاکستان پر حملے میں پہل کی ہے وہ عالمی قوانین کے مطابق جارحیت کا مرتکب ہوا ہے مگر کوئی بھی ملک اسے جارح قرار دے کر اس کی مذمت نہیں کر رہا البتہ بغیر ثبوت کے پاکستان پر جارحیت کرنے کو ایک نامناسب اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ دراصل دنیا میں دہرا معیار چل رہا ہے سب ہی طاقتور کے ساتھ ہیں پھر یہاں بھارت کو یہ فائدہ پہنچ رہاہے کہ اس نے سرائیل کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا لیا ہے،دونوں ہی غاصب ملک ہیں۔
اسرائیل نے فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور بھارت نے کشمیر پر اپنا ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔ چنانچہ امریکا اور یورپی ممالک اگر بھارت کی مذمت کرتے ہیں اور اسے کشمیر خالی کرنے کے لیے کہتے ہیں اور جوکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق صحیح اقدام ہوگا تو ادھر اسرائیل کو فلسطین پر اپنا قبضہ ختم کرنے کے لیے بھی زور ڈالنا ہوگا جوکہ ان کی اپنی پالیسی کے خلاف ہوگا، بس عالمی طاقتوں کی انھی مصلحتوں کی وجہ سے اب تک نہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکا ہے اور نہ مسئلہ فلسطین پر کوئی پیش رفت ہو سکی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اقوام متحدہ نے محکوم قوموں کو غاصب ممالک کے خلاف جدوجہد کرنے کا اختیار دیا ہے اور حماس نے اسی نظریے کے تحت اسرائیل پر حملہ کیا تھا کہ وہ اپنی آزادی کے لیے غاصب اسرائیل کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہے ہیں مگر اسے دہشت گردی سے جوڑا گیا اسی طرح کشمیر میں جو مجاہدین بھارت کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں انھیں دہشت گرد گردانا جاتا ہے جب کہ ایسا کہنا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حماس کا اسرائیل کے خلاف میزائلوں سے حملہ بھی ان کی اپنی جدوجہد آزادی کا حصہ تھا جسے کسی طرح بھی دہشت گردی سے نہیں جوڑا جانا چاہیے مگر افسوس کہ حماس کو یہ اقدام بہت مہنگا پڑ گیا اور ان کی قوم کے لیے ایک وبال بن گیا جس کا قہر وہ پونے دو سالوں سے مسلسل جھیل رہے ہیں۔
عرب ممالک اس جنگ کو بند کرانے میں مکمل ناکام ہو گئے ہیں وہ اسرائیل پر دباؤ تک نہیں ڈال سکتے کیونکہ اسرائیل کے پیچھے امریکا ہے جس سے آنکھیں ملانا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ امید تو یہ کی جا رہی تھی عرب ممالک امریکا سے اپنے قریبی تعلقات کی وجہ سے اسرائیل کو ٹرمپ سے شٹ اپ کال دلوا سکیں گے مگر وہ فلسطینیوں کو اسرائیلی حملوں سے بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکے۔ اس میں شک نہیں کہ عرب ممالک بھی جلد از جلد جنگ بند کرانا چاہتے ہیں مگر افسوس کہ امریکا کے آگے بے بس ہیں اور نیتن یاہو امریکی پشت پناہی سے فائدہ اٹھا کر غزہ کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
ٹرمپ کے بارے میں یہ ایک اہم سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جنگ کے خلاف ہیں دنیا میں جہاں کہیں بھی جنگ ہو رہی ہے اسے ختم کرانا ان کا مشن ہے مگر اسرائیل تو تقریباً پونے دو سال سے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے اور روز ہی شہادتیں ہو رہی ہیں مگر ٹرمپ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ایک عرصے سے جنگ بندی کرانے اور نئی فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عرب ممالک اور امریکی نمایندوں کے درمیان گفت و شنید جاری ہے مگر یہ کب عملی شکل اختیار کرے گا، اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا کیونکہ اس میں اسرائیل کی ہٹ دھرمی آڑے آ رہی ہے وہ نہ تو جنگ بندی چاہتا ہے اور پھر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے تو وہ بالکل بھی تیار نہیں ہے۔ وہ فلسطینی ریاست کو کیا تسلیم کرے گا کیونکہ وہ تو گریٹر اسرائیل کا پرچار کرتا نظر آ رہا ہے۔