سپریم کورٹ کا 26ویں ترمیم کے بعد بینچزکے اختیارات سے متعلق کیس سابق بینچ کے سامنے لگانے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ نے 26ویں ترمیم کے بعد بینچزکے اختیارات سے متعلق کیس کے سابق بینچ کو ہی بحال کرنے کا حکم دیدیا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ بینچ تبدیل کرنا آفس کی غلطی ہے،سپریم کورٹ آفس سے غلطی ہو گئی،اس بینچ کے سامنے کیس نہیں لگا جس نے 13جنوری کو کیس سنا تھا۔
نجی ٹی وی سما نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں 26ویں ترمیم کے بعد بینچزکے اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی،سپریم کورٹ نے کیس کے سابق بینچ کو ہی بحال کرنے کا حکم دیدیا، عدالت نے کہاکہ پیر کو سابق بینچ کے سامنے ہی کیس دوبارہ مقرر کیا جائے۔
تنخواہوں میں اضافہ، حکومتی اوراپوزیشن ارکان یک زبان ہو گئے
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی،3رکنی بینچ میں گزشتہ رات جسٹس عقیل عباسی کو شامل کیا گیاتھا،جسٹس عقیل عباسی کو جسٹس عرفان سعادت کی جگہ شامل کیا گیا تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ بینچ تبدیل کرنا آفس کی غلطی ہے،سپریم کورٹ آفس سے غلطی ہو گئی،اس بینچ کے سامنے کیس نہیں لگا جس نے 13جنوری کو کیس سنا تھا،ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہاکہ ہمیں تھوڑا وقت دے دیں،جسٹس عائشہ ملک نے کہا پہلے پیر تو آنے دیں پھر دیکھ لیتے ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ موجودہ کیس میں ہائیکورٹ کا فیصلہ بینچ رکن جسٹس عقیل کا ہی ہے،گزشتہ سماعت پر جسٹس عرفان سعادت بینچ کا حصہ تھے،آرٹیکل 191اے کے تحت بینچز کا اختیار سماعت واپس کیا جا سکتا ہے یا نہیں،اس اہم نکتے پر فریقین اور اٹارنی جنرل کی معاونت درکار ہوگی،جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ پیر تک آپ کے پاس پورا وقت ہے،آپ کو تو اس معاملے میں ہر وقت تیار رہنا چاہئے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مزید سماعت پیر کو ساڑھے 11بجے ہوگی،عدالت نے ابتدائی سماعت کرنے والے 3رکنی بینچ کے سامنے مقدمہ مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔
وزارت داخلہ کا نئی نادرا موبائل ایپ لانچ کرنے اور 3 نئے ریجنل دفاتر کے قیام کا فیصلہ
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ نے بینچ کے سامنے سپریم کورٹ نے کہاکہ
پڑھیں:
بنگلادیش میں شیخ حسینہ کے رفیقِ خاص سابق چیف جسٹس خیر الحق گرفتار
شیخ حسینہ واجد کے قریبی ساتھی اور بنگلا دیش کے سابق چیف جسٹس 81 سالہ خیرالحق کو قتل کے مقدمے میں جیل بھیج دیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈھاکا پولیس افسر ناصر الاسلام نے میڈیا کو بتایا کہ سابق چیف جسٹس خیرالحق انھیں طلبا احتجاج کے دوران نوجوان کے قتل پر باقاعدہ گرفتار کیا گیا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ سابق چیف جسٹس پر حکومت مخالف طلبا تحریک کو کچلنے کے دوران ایک نوجوان ہلاکت کے علاوہ متعدد دیگر مقدمات بھی ہیں۔
سابق چیف جسٹس خیرالحق کو سخت سیکیورٹی میں ڈھاکا کی عدالت میں لایا گیا جہاں وہ مکمل خاموش رہے۔ جہاں جج نے انھیں عدالتی تحویل میں جیل بھیجنے کا حکم دیا۔
کیس کا پس منظرگزشتہ برس شیخ حسینہ حکومت مخالف مظاہروں کے دوران بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے رہنما علاء الدین کے بیٹے کی موت واقع ہوگئی تھی جس پر انھوں نے شیخ حسینہ اور سابق چیف جسٹس خیرالحق سمیت 465 دیگر افراد پر قتل کا مقدمہ دائر کیا تھا۔
سابق چیف جسٹس کا شیخ حسینہ کے ساتھ تعلق
چیف جسٹس خیرالحق نے 2010 کے آخر میں عہدہ سنبھالا اور صرف آٹھ ماہ بعد سبکدوش ہو گئے تاہم بعد میں شیخ حسینہ حکومت کے دور میں قانون کمیشن کے چیئرمین بھی بنے۔
خیرالحق کو سب سے زیادہ تنقید کا سامنا 2011 میں دیے گئے اُس عدالتی فیصلے پر ہوا جس میں انہوں نے بنگلا دیش کے آئین سے عبوری (caretaker) حکومت کا نظام ختم کرنے کا حکم دیا۔
خیال رہے کہ عبوری نظام کے تحت انتخابات کے دوران موجودہ حکومت کو مستعفی ہوکر ایک غیر سیاسی عبوری حکومت کے حوالے اقتدار سونپنا ہوتا تھا تاکہ انتخابات شفاف طریقے سے ہو سکیں۔
اس فیصلے کو عوامی سطح پر شیخ حسینہ کے حق میں ایک غیرجانبدارانہ اقدام قرار دیا گیا تھا کیونکہ اس فیصلے کے بعد وہ بلا رکاوٹ اقتدار میں رہیں۔
یاد رہے کہ حکومت مخالف طلبا تحریک کے دوران 1500 سے زائد طلبا کے جاں بحق اور ہزاروں کے زخمی ہونے کے بعد فوج نے تعاون سے انکار کردیا تھا۔
فوجی قیادت کی مداخلت پر شیخ حسینہ واجد اپنے مسلسل 15 سالہ دور اقتدار چھوڑ کر بھارت فرار ہوگئی تھیں اور تاحال وہیں مقیم ہیں۔
جس کے بعد بنگلادیش میں قائم ہونے والی عبوری حکومت نے عوامی دباؤ کے بعد الیکشن کرانے کا عندیہ دیا ہے۔
تاہم اس دوران شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کے رہنماؤں کی گرفتاریاں اور سزاؤں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔