کیا کوئٹہ ڈیولپمنٹ پیکج شہریوں کی تقدیر بد ل پائےگا؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ان دنوں کوئٹہ ڈیولپمنٹ پیکج کے تحت مختلف شاہراہوں کی توسیع کا سلسلہ جاری ہے۔ پیکج میں سریاب روڈ، سبزل روڈ، زرغون روڈ، ڈبل روڈ اور ان سے ملحقہ شاہراہوں کو دورویہ کرنے، سڑک کے درمیان ڈیوائڈرز اور اسٹریٹ لائٹس کی تنصیب کے ساتھ ساتھ تزئین و آرائش بھی کی جارہی ہے۔
کوئٹہ ڈیولپمنٹ پیکج کے پراجیکٹ ڈائریکٹر رفیق احمد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ 2017 میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے بلوچستان آمد کے موقع پر اس منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ اس پراجیکٹ کے تحت 5 اہم شاہراہوں جن میں سریاب روڈ، سبزل روڈ، لنک بادینی روڈ، جوائنٹ روڈ اور ریڈیو ٹاور سے ملحقہ سڑک کو شہر کے دونوں اطراف میں واقعہ بائی پاس سے ملانا شامل تھا۔
انہوں نے کہاکہ عمران خان کے دور حکومت میں یہ منصوبہ وفا قی پی ایس ڈی پی سے نکال دیا گیا، اس دوران اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے منصوبے کو صوبائی پی ایس ڈی پی میں شامل کیا تاہم تین سال کی کوششوں کے بعد سال 2020 میں اس پراجیکٹ پر باقاعدہ کام کا آغاز کردیا گیا۔
رفیق احمد نے بتایا کہ پراجیکٹ کے لیے حکومت کی جانب سے 32 ارب روپے مختص کیے گئے تھے تاہم اب تک بجٹ کا 40 فیصد ہی استعمال کیا گیا ہے اور منصوبے کا 90 سے 95 فیصد تک کا کام مکمل کرلیا گیا ہے، پراجیکٹ جلد مکمل کرلیا گیا اور یہ بلوچستان کی تقدیر بدل دے گا۔
رفیق احمد نے کہاکہ بعض عناصر سوشل میڈیا پر اس پراجیکٹ کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاہم یہ منصوبہ عوام کو بے پناہ فائد پہنچائےگا۔
دوسری جانب کوئٹہ کے باسیوں نے پراجیکٹ سے متلعق ملے جلے رجحان کا اظہار کیا ہے۔
وی نیوز سے بات کر تے ہوئے کوئٹہ کے شہری احمد نواز نے کہاکہ ایک جانب جہاں پراجیکٹ سے کئی اہم شاہراہوں دورویہ ہورہی ہیں وہیں اس پراجیکٹ کی کوالٹی بین الاقوامی طرز کی نہیں۔ حال ہی میں بنائی گئی سڑکیں کناروں سے اکھڑنا شروع ہوگئی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ کوئٹہ ڈیولپمنٹ پراجیکٹ عوام کی تقدیر نہیں بدل سکے گا۔ شہر کے عوام کے مسائل سڑکوں کو دورویہ کرنے سے حل نہیں ہوں گے شہریوں کے مسائل تعمیراتی کام نہیں بلکہ بہتر روز گار کی فراہمی اور تعلیم، صحت، بجلی، گیس اور پانی جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی سے حل ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سب سے بڑھ کر جان کا تحفظ عوام کی ضرورت ہے، ماضی میں بھی شہر کو خوبصورت بنانے کے لیے کئی منصوبوں کا آغاز کیا گیا لیکن وہ بھی دیر پا ثابت نہیں ہوسکے حکومت کو چاہیے کہ سڑکوں کو بہتر بنا نے کے بجائے بنیادی سہولیات کی فراہمی پر توجہ دے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بلوچستان بنیادی سہولیات جان کا تحفظ شاہراہوں کی تعمیر عوامی مسائل کوئٹہ ڈیولپمنٹ پیکج وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان بنیادی سہولیات جان کا تحفظ عوامی مسائل وی نیوز اس پراجیکٹ
پڑھیں:
مغوی اسسٹنٹ کمشنر حنیف نورزئی بازیاب، خصوصی طیارے کے ذریعے کوئٹہ منتقل
کوئٹہ:بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تمپ سے اغوا ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر محمد حنیف نورزئی کو چار ماہ بعد کامیاب آپریشن کے ذریعے بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ بازیابی کے بعد انہیں وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خصوصی طیارے کے ذریعے تربت سے کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کیچ، بشیر احمد بڑیچ نے میڈیا کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کامیاب ریسکیو آپریشن بلوچستان کی سیکیورٹی فورسز بشمول فرنٹیئر کور (ایف سی)، لیویز فورس، اور کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یہ کارروائی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ایران سرحد کے قریب خفیہ مقام پر کی گئی۔
یاد رہے کہ اسسٹنٹ کمشنر حنیف نورزئی کو 4 جون 2025 کو عید کی تعطیلات کے دوران کوئٹہ جاتے ہوئے ٹیگران آباد کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کر لیا تھا۔
وہ اس وقت اپنے خاندان، ڈرائیور اور گن مین کے ہمراہ سفر پر تھے۔ اغوا کار صرف انہیں اپنے ساتھ لے گئے جبکہ دیگر افراد کو چھوڑ دیا گیا۔
واقعے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے قبول کی تھی، جس نے اسے ایک انٹیلیجنس پر مبنی کارروائی قرار دیا تھا۔
ڈی سی کیچ کے مطابق بازیابی کے دوران اغوا کاروں کے ساتھ شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں چند ملزمان ہلاک جبکہ کچھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
اسسٹنٹ کمشنر حنیف نورزئی کو بازیابی کے فوراً بعد تربت کے سول ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد ڈاکٹروں نے ان کی صحت کو تسلی بخش قرار دیا ہے۔ اگرچہ جسمانی طور پر وہ محفوظ ہیں تاہم طویل قید کے باعث وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خصوصی طیارے کے ذریعے انہیں کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے جہاں ان کے مکمل علاج اور آرام کے انتظامات کیے گئے ہیں۔
حنف نورزئی بلوچستان سول سروس کے سینئر افسر ہیں جو ماضی میں مختلف اضلاع میں اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔
ان کا اغوا بلوچستان میں سرکاری افسران کو درپیش خطرات کی ایک اور مثال ہے۔ حالیہ دنوں میں زیارت میں بھی ایک اسسٹنٹ کمشنر اور ان کے بیٹے کے اغوا کا واقعہ پیش آ چکا ہے۔
مقامی افراد، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ علاقے میں سیکیورٹی اقدامات کو مزید مؤثر بنائے اور سرحد پار عناصر کی مداخلت کو روکا جائے۔
ضلعی انتظامیہ نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے مزید سرچ آپریشنز بھی شروع کر دیے ہیں تاکہ مفرور ملزمان کو گرفتار کیا جا سکے۔
حنف نورزئی کی بحفاظت واپسی پر مقامی آبادی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے صوبے میں امن و امان کی بحالی کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔ اسپتال ذرائع کے مطابق وہ جلد اپنی ذمہ داریوں پر دوبارہ کام شروع کر دیں گے۔