معاشی کامیابیاں اور کچھ رکاوٹیں
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
کچھ عرصہ پہلے اور یہ چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جاتی تھی لیکن خدائے بزرگ و برتر کا شکر ہے کہ موجودہ حکومت اور آرمی چیف کی کوششوں سے پاکستان اب اس خطر ناک صورت حال سے نکل کر معمول کی حالت میں آ چکا ہے ۔ پاکستان کی اسٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور چند ماہ پہلے جو چالیس ہزار پوائنٹس پر تھی آج وہی ہنڈرڈ انڈیکس 1لاکھ سترہ اٹھارہ ہزار کو کراس کر چکا ہے اور ابھی چند دن پہلے عالمی بنک اور معاون اداروں نے10سالہ کنٹری پارٹنر شپ فریم ورک کے تحت 40ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ پارٹنر شپ فریم ورک کے تحت عالمی بنک اور معاون ادارے جن میں انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن (آئی ڈی اے ) اور انٹر نیشنل بنک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ (آئی بی آر ڈی) کے تحت بیس ارب ڈالر کی معاونت کی جائے گی جبکہ مجموعی طور پر 40ارب ڈالر دیئے جائیں گے ۔ یہ رقم تعلیم ، صحت ، توانائی اور دیگر شعبوں میں لگائی جائے گی اور یہ اس صورت حال میں کہ جب کچھ لوگ” صبح ڈیفالٹ شام ڈیفالٹ میری سیاست کا ہے کام ڈیفالٹ “ کاراگ الاپ رہے تھے اس میں یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ یہ بیرون ملک سے کامیابی ہے تو اندرون ملک بھی حکومت معاشی سرگرمیوں میں بہتری کے لئے کوشاں ہے۔ گذشتہ ہفتہ وزیر اعظم نے کراچی میں کسٹم کلیئرنس کے حوالے سے فیس لیس سسٹم کا افتتاح کیا جس کی وجہ سے کسٹم کلیئرنس کا وقت 119گھنٹے سے کم ہو کر کم و بیش 20گھنٹے پر آ گیا ہے اور اس میں اصل بات کرپشن کے خاتمہ کی بھی ہے کہ کسٹم افسران کے سامنے جس کارگو کے جو بھی کاغذات کلیئرنس کے لئے کمپیوٹرکی سکرین پر آئیں گے تو ان کسٹم افسران کو بھی علم نہیں ہو گا کہ یہ کس امپورٹر کے ہیں لیکن کچھ لوگ حکومت کی ان تمام کاوشوں پر پانی پھیرنے کا کام بھی کر رہے ہیں ۔ کسٹم کلیئرنس کے حوالے سے مدر پورٹ کراچی ہے لیکن حکومت نے اندرون ملک درآمدی اور برآمدی مال کی کلیئرنس کی سہولت کے لئے بڑے شہروں میں ڈرائی پورٹس بنائے ہیں ۔جس کارگو کو اندرون ملک آنا ہوتا ہے اس کے لئے کراچی کسٹم میں ٹی پی یعنی ٹرانزٹ پاس فائل کی جاتی ہے اور اس کے بعد بانڈڈ کیریئرکے ذریعے اسے ڈرائی پورٹ پر لایا جاتا ہے ۔ سامان کی حفاظت اور کسی گڑبڑ سے بچنے کے لئے حکومت ہر گاڑی کے ساتھ ٹریکر سسٹم کا استعمال کر رہی تھی لیکن اب اچانک ٹریکر کمپنی سے معاہدہ ختم کر دیا اور ایک عجیب و غریب کانوائے سسٹم شروع کیا کہ پندرہ گاڑیاں ایک قافلے کی شکل میں جائیں گی ۔ اس سے یہ ہوا کہ ایک کنٹینرائزڈ کارگو جو جہاز لگنے کے چار دن بعد لاہور پہنچ جاتا تھا اب وہ دس دن میں پہنچ رہا ہے جس سے امپورٹرزکو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے جو کہ ناقابل برداشت ہے ۔
اب ہوتا کیا ہے کہ جب کوئی بھی جہاز درآمدی کارگو لے کر کراچی کی بندر گاہ پر پہنچتا ہے تو کراچی پورٹ پر چند دن فری ہوتے ہیں اور یہ چند دن چار چھ دن یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے سے زیادہ نہیں ہوتے ۔ اس دوران اگر متعلقہ کارگو کی بر وقت کسٹم کلیئرنس ہو جائے تو ٹھیک ورنہ اگر کسی بھی وجہ سے مال پورٹ پر پڑا رہتا ہے تو فری دن گذرنے کے بعد اس کارگو پر بھاری سٹوریج پڑنا شروع ہو جاتا ہے اور یہ مال کے حجم اور وزن کے حساب سے لیا جاتا ہے لیکن اگر کارگو کنٹینر کی شکل میں ہے اور یہ کسی بھی وجہ سے چاہے اس میں قصور کسٹم حکام کا ہی ہو ، فری ایام میں کلیئر نہیں ہوتا تو اس پر دوہرا سرچارج پڑنا شروع ہو جاتا ہے ایک تو وہ جو کراچی پورٹ ٹرسٹ اتھارٹی کی جانب سے یا جہاز جس برتھ پر لگا ہے وہ جس کے
پاس ہے ان کی جانب سے سرچاج لگتا ہے اور دوسرا کنٹینر جس شپنگ کمپنی کی ملکیت ہوتا ہے وہ بھی چند دن بعد اس کنٹینر پر ڈیٹینشن کے نام پر ڈالروں میں امپورٹر سے چارج کرنا شروع کر دیتی ہے جو بیس اور چالیس فٹ کنٹینر پر فری ایام کے بعد ابتدائی طور پر بیس ڈالر اور چالیس ڈالر یومیہ کے حساب سے چارج کئے جاتے ہیں جبکہ کارگو کی کلیئرنس میں اگر مزید تاخیر ہو جائے تو یہ سو ڈالر یومیہ تک بھی چلے جاتے ہیں ۔ چند دن پہلے تک جس دن جہاز کراچی پورٹ پر لگتا تھا تو اس سے اگلے دن ہی کنٹینر کراچی پورٹ سے ڈرائی پورٹس کے لئے نکل جاتا تھا اور تین دن میں لاہور پہنچ جاتا تھا لیکن اب کانوائے کی شرط کی وجہ سے کنٹینر ٹرک پر لوڈ ہو کر ایک ایک ہفتہ کانوائے بننے کا انتظار کرتے رہتے ہیں جس سے کراچی پورٹ ، شپنگ کمپنی کے چارجز اور پھر ٹرک کا فالتو خرچ بھی مال درآمد کرنے والے کی جیب سے جاتا ہے ۔ اب آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تاجر برادری کو کس طرح کروڑوں اربوں روپے کا نقصان پہنچا کر معیشت کے لئے بارودی سرنگیں کھودی جا رہی ہیں ۔
یہ صورت حال اس لئے خاص طور پر افسوس ناک بھی ہے اور فکر انگیز بھی کہ ایک جانب ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت مل کر ملک کی معیشت کی بہتری کے لئے جدوجہد کر رہی ہے اور یہ جدوجہد کوئی معمولی نہیں ہے اس لئے کہ گذشتہ سال سری لنکا اپنی پوری کوشش کے باوجود بھی اپنے ملک کو دیوالیہ ہونے سے نہیں بچا سکا اور پھر وہاں پر مہنگائی اور بیروز گاری کا جو طوفان آیا اسے پوری دنیا نے دیکھا۔ پاکستان میں بھی یقینا کچھ لوگوں کی خواہش تھی کہ خاکم بدہن پاکستان بھی دیوالیہ ہو جائے اور اس کے لئے انھوں نے کوشش بھی کی لیکن خدائے بزرگ و برتر کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکا اور ملک نہ صرف یہ کہ دیوالیہ ہونے بچ گیا بلکہ پاکستانی معیشت اب بہتری کی سمت اپنا سفر شروع کر چکی ہے لیکن یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ اگر کاروباری برادری کے لئے مشکلات اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی تو یہ کسی بھی طرح ملکی معیشت کے لئے بہتر نہیں ہو گا بلکہ معیشت کی بہتری کے لئے جتنی کوششیں ہو رہی ہیں انھیں ریورس گیئر بھی لگ سکتا ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کسٹم کلیئرنس کراچی پورٹ جاتا ہے نہیں ہو پورٹ پر اور یہ ہے اور کے لئے اور اس
پڑھیں:
ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
میری بات/روہیل اکبر
ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔