ریجنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ فورس کے قیام کی تجویز
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
تاریخ کے اُس حصے کا ذکر کرتے ہیں جس میں قدرتی آفات کے باعث انسانی اموات کا ریکارڈ موجود ہے۔ اس اعتبار سے سائنس دانوں نے دس بڑی قدرتی آفات کا ڈےٹا اکٹھا کیا ہے جن مےں اےک کروڑ سے زائد انسان دےکھتے ہی دیکھتے لاشوں میں بدل گئے۔ یہ افسوسناک ڈےٹا پڑھنے کے بعد ایک اور لرزہ بھی طاری ہو جاتا ہے۔ ان دس بڑی مصیبتوں میں سے تین بھارت اور پاکستان میں آئیں جبکہ پانچ کا تعلق چےن سے ہے۔ گوےا ماڈرن ہسٹری کی آٹھ بڑی قدرتی آفات جنوبی ایشیا اور چین میں آئیں۔ آندھرا پردیش کے ساحلی علاقے ”کورنگا“ مےں 25 نومبر 1839ءکو سمندری لہرےں اچانک 40 فٹ سے زےادہ بلند ہوگئےں۔ اس سمندری طوفان کو ”انڈیا سائیکلون“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کے نتےجے مےں 3لاکھ افراد دنےا سے غائب ہوگئے۔ مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش میں 12 نومبر 1970ءکا دن دنیا کے بدترےن سائےکلون کے حوالے سے ےاد رکھا جاتا ہے۔ اس خونی سائیکلون میں تقرےباً 5لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ انڈونیشیا کے ساحلی علاقے سماٹرا کے سمندروں کے اندر 26 دسمبر 2004ءکو 9.
ہے۔ ان ممالک میں قدرتی آفات کی تباہی کے باعث دنیا کی 30 فےصد معےشت متاثر ہوئی۔ آنے والے برسوں مےں درجہ حرارت بڑھنے سے ان ممالک کے سمندروں مےں پانی کی سطح تقرےباً اےک مےٹر بلند ہو جائے گی جس سے خشکی کا بہت بڑا حصہ سمندر کے نےچے چلا جائے گا“۔ قدرتی آفت بتائے بغےر اچانک آتی ہے جس کا فوری سامنا کرنا امےر ترےن ممالک کے لئے بھی مشکل ہوتا ہے۔ قدرتی آفات کی پےشےن گوئےوں کو پڑھےں تو ڈراﺅنے خواب کی طرح ےہ حقےقت سامنے آتی ہے کہ جنوبی اےشےا سب سے زیادہ ان سے متاثر ہوگا۔ ےہ ممالک محنت کش لوگوں کے ملک ہےں جو بڑی مشکل سے اپنا گزربسر کرتے ہےں۔ ےہاں کی حکومتیں بھی غریب ہیں۔ جنوبی ایشیا میں آنے والی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی امداد کی اپیل کی جاتی ہے۔ دنےا مےں مختلف مقاصد کے لئے مشترکہ سکیورٹی فورس بنانے کا رواج ہے۔ اگراےک نئی تجویز پر غور کےا جائے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک مستقبل کی قدرتی آفات سے بچنے کے لئے سارک فورم کی طرح اےک مشترکہ ”رےجنل ڈےزاسٹر مینجمنٹ فورس“ بنائےں تو اس کا براہِ راست فائدہ خود ان ممالک کو ہو گا۔ ےہ ممالک وسائل کی کمی کے باعث اچانک بڑی آفت سے نمٹنے کی انفرادی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ”رےجنل ڈےزاسٹر مینجمنٹ فورس“ کے تحت یہ ممالک مشترکہ فنڈ، اےک دوسرے کی ٹےکنالوجی، مشترکہ ماہرین اور اےک دوسرے کی افرادی قوت کے تجربات سے فوری ریلیف کی کارروائیاں شروع کر سکیں گے۔ چےن بھی جنوبی اےشےا کے ممالک کا قرےبی ہمساےہ ہے اور وہ خود بھی مستقبل کی قدرتی آفات سے زےادہ متاثر ہونے والے ملکوں مےں سے اےک ہے۔ اس لئے چین کو بھی ”رےجنل ڈےزاسٹر مینجمنٹ فورس“ مےں شامل کرنا چاہےے کیونکہ چین کی ٹےکنالوجی، افرادی قوت اور تجربات سے بے پناہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ چین کی اقتصادی راہداری سے اس خطے کی قسمت بدلنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اقتصادی راہداری کو دوسری حفاظتی تدابیر اور سکیورٹی کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات سے بچانا بھی ضروری ہو گا۔ اقتصادی راہداری رکھنے والے خطے کے غریب ملکوں کے لیے کم وسائل کی وجہ سے انفرادی حیثیت میں ا یسا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ لہٰذا ریجنل ڈیاسٹر مینجمنٹ فورس کی ضرورت ہر وقت محسوس ہو گی۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: قدرتی آفات سے مینجمنٹ فورس جنوبی ایشیا کے نتےجے کے باعث کے لئے
پڑھیں:
آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہے، سید عباس عراقچی
اپنے ایک ٹویٹ میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مداخلت کرے اور تصادم کی جگہ سفارتکاری کو رواج دے۔ اسلام ٹائمز۔ رواں شب سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے ایک ٹویٹ پوسٹ کیا۔ جس میں انہوں نے لکھا کہ میں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے گزشتہ روز یورپی ساتھیوں کو ایک معقول اور قابل عمل تجویز پیش کی تا کہ آنے والے دنوں میں ایک غیر ضروری اور قابل پرہیز بحران سے بچا جا سکے۔ لیکن افسوس کہ اس تجویز کے مواد پر غور کرنے کے بجائے، ایران کو اب مختلف بہانوں اور واضح ٹال مٹول کا سامنا ہے، جن میں یہ مضحکہ خیز دعویٰ بھی شامل ہے کہ وزارت خارجہ پورے سیاسی نظام کی نمائندہ نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ فرانسوی صدر "امانوئل میکرون" نے تسلیم کیا کہ میری تجویز معقول ہے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ مذاکرات کاروں اور عالمی برادری کو یہ جان لینا چاہئے کہ مجھے اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی سلامتی کی اعلیٰ کونسل سمیت تمام اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاید اصل مسئلہ یہ ہے کہ یورپی سفارتی نظام كو ہی كوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں۔ اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مداخلت کرے اور تصادم کی جگہ سفارت کاری کو رواج دے۔ خطرہ اپنی انتہاء پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران پہلے ہی اپنی ذمہ داری پوری کر چکا ہے۔
۱۔ ہم نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو ہمارے داخلی و بین الاقوامی وعدوں کے مطابق ہے۔ ہم نے ایران کی محفوظ ایٹمی تنصیبات پر غیر قانونی حملوں کے باوجود، آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کا نیا باب کھولا ہے۔
۲۔ ہم نے ایک تخلیقی، منصفانہ اور متوازن تجویز پیش کی ہے جو حقیقی خدشات کو دور کرتی ہے۔ جو فریقین کے لئے فائدہ مند ہے۔ اس تجویز پر فوری عمل ممکن ہے اور یہ اختلافات کے اہم نکات کو حل کر کے بحران کو روک سکتی ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہے، لیکن ایران یکطرفہ طور پر ان تجاویز پر عمل کی تمام ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔