جنہیں بہتر مستقبل کی تلاش موت تک لے گئی
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جنوری 2025ء) مغربی افریقہ کے اٹلانٹک کے ساحلی علاقے سے اسپین پہنچنے کی کوشش کے دوران کشتی غرق ہونے کے نتیجے میں پچاس افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں سے چوالیس پاکستانی تھے۔ بتایا گیا ہے کہ بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ کا رخ کرنے والے ان پاکستانیوں میں سے تقریباﹰ تمام کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا۔
دو جنوری کو تارکین وطن سے بھری یہ کشتی اسپین کے جزائر کیناری کی جانب روانہ ہوئی تھی، تاہم راستے میں یہ سمندری لہروں سے شکست کھاتے ہوئے ڈوب گئی تھی۔ اس واقعے پر پاکستانی صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ یہ کشتی مغربی افریقی ملک موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی اور اس پر 80 تارکین وطن سوار تھے۔
(جاری ہے)
یہ کشتی مراکش کے شہر داخلہ کے قریب غرق ہو گئی۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق متاثرہ افراد کے گھروں میں اس وقت سوگ کا عالم ہے اور بعض خاندانوں کو یہی معلوم نہیں کہ آیا ان کا بیٹا اس واقعے میں ہلاک ہو گیا ہے یا بچا لیے گئے تیس افراد میں شامل ہے۔
صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کے گاؤں ڈھولا میں احمد شہزاد نامی ایک شخص نے اے پی کو بتایا کہ ان کا بیٹا سفیان علی اس واقعے میں ہلاک ہو گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے بیٹے کی جانب سے ایک وائس میسج ملا تھا، جس میں سفیان علی نے کہا تھا کہ انہیں دیگر پچیس افراد کے ساتھ ایک ایسی کشتی میں جبراﹰ بٹھایا جا رہا ہے، جو پہلے ہی بھری ہوئی ہے۔ احمد شہزاد نے بتایا کہ ان کا بھتیجا بھی اس واقعے میں ہلاک ہو گیا۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ ان کی بیٹے اور بھتیجے کی میتوں کو پاکستان واپس لانے میں مدد کی جائے۔گجرات ہی کے ایک اور گاؤں جُوڑہ میں محمد اکرم نے اس واقعے میں اپنا بیٹا کھو دینے کا بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا ابوبکر لاکھوں روپے انسانی اسمگلروں کو ادا کر کے بذریعہ جہاز مراکش پہنچا تھا اور اسے معلوم نہیں تھا کہ اسے یورپ کے سفر کے لیے کشتی میں بٹھایا جائے گا۔
ڈسکہ کے علاقے میں ایک خاندان نے بتایا کہ انہوں نے اپنی جائیداد بیچ کر ارسلان احمد اور محمد عرفان کو یورپ بھیجنے کے لیے پیسے انسانوں کے اسمگلروں کو ادا کیے تھے۔
ارسلان احمد کی والدہ کے مطابق انہوں نے سنا ہے کہان کا بیٹا بچا لیا گیا ہے، تاہم وہ اب تک اس سے رابطے میں ناکام ہیں۔ محمد عرفان کی والدہ کا ایسوسی ایٹڈ پریس کو کہنا تھا کہ حکومت ان کے بیٹے کا پتا لگائے اور اسے وطن واپس لائے۔واضح رہے کہ سالانہ بنیادوں پر لاکھوں افراد یورپ کی جانب ہجرت کرتے ہیں، جن میں بڑی تعداد قانونی طریقوں سے یورپ پہنچنے والوں کی ہوتی ہے۔ تاہم بعض افراد غیر قانونی طریقوں سے انسانوں کے اسمگلروں کی مدد سے یورپ پہنچنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یورپی یونین کی سرحدی حفاظتی ایجنسی فرنٹیکس کے مطابق گزشتہ برس تقریباﹰ دو لاکھ چالیس ہزار افراد بغیر جائز سفری دستاویزات کے یورپ پہنچے۔
ع ت/ م م (اے پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اس واقعے میں ان کا بیٹا ہلاک ہو تھا کہ گیا ہے
پڑھیں:
سوات: مدرسے کے مہتمم کا بیٹا مقتول فرحان سے ناجائز مطالبات کرتا تھا، چچا
سوات کے مدرسے میں تشدد سے 14 سالہ بچے کی موت کے سلسلے میں نئے انکشافات سامنے آ گئے، مقتول فرحان کے چچا کے مطابق مدرسے کے مہتمم کا بیٹا مقتول سے ناجائز مطالبات کرتا تھا۔
ایف آئی آر کے مطابق مقتول فرحان مدرسے واپس جانے کو تیار نہیں تھا، چچا اپنے بھتیجے کے ساتھ مدرسے گیا اور مہتمم سے شکایت کی تو مہتمم نے معذرت کی، اسی دن نماز مغرب کے بعد مدرسے کے ناظم نے کال کر کے بتایا کہ بچہ غسل خانے میں گر گیا ہے، چچا اسپتال پہنچے تو اس کی تشدد زدہ لاش دیکھی۔
سوات: مدرسے میں بچے کی ہلاکت، مزید طلبہ پر تشدد کا انکشاف، 9 افراد گرفتارسوات کے مدرسے میں معصوم بچے کی ہلاکت پر ایک استاد کو گرفتارکر لیا گیا تھا جبکہ 2 کی تلاش جاری تھی۔
21 جولائی کو خوازہ خیلہ اسپتال میں 12 سالہ فرحان کی تشدد زدہ لاش لائی گئی تھی۔ مقتول کے چچا صدر ایاز کی مدعیت میں مدرسے کے مہتمم قاری محمد عمر، اُس کے بیٹے احسان اللّٰہ، ناظم مدرسہ عبد اللّٰہ، اور بخت امین کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔
ڈی پی او کے مطابق مدرسے میں زیرِ تعلیم 160 کے قریب بچوں کو ان کے والدین کے حوالے کردیا گیا ہے۔ گل کدہ میں بھی مدرسہ میں ایک اور بچے پر تشدد کے واقعہ پر دو ملزمان، محمد رحمان اور عبدالسلام، کو چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں نامزد چار ملزمان میں سے 9 گرفتار ہوگئے، باقی کی تلاش جاری ہے۔