دہشتگرد تنظیم بی ایل اے کے وحشیانہ حملے کی حقیقت کا پردہ چاک
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
11 جنوری 2025ء کو بی ایل اے تنظیم نے تمپ میں 2 بے گناہ معصوم شہریوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنایا۔ جمیل اور اس کے بھتیجے معراج وہاب کو مبینہ ’’ریاستی ڈیتھ اسکواڈ‘‘ سے وابستگی کے جھوٹے الزام میں بے رحمی سے نشانہ بنایا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ دہشت گرد تنظیم بی ایل اے کے وحشیانہ حملے کی حقیقت کا پردہ چاک ہوگیا۔ معصوم معراج وہاب کی والدہ نے حقائق سے پردہ اٹھا دیا۔ 11 جنوری 2025ء کو بی ایل اے تنظیم نے تمپ میں 2 بے گناہ معصوم شہریوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنایا۔ جمیل اور اس کے بھتیجے معراج وہاب کو مبینہ ’’ریاستی ڈیتھ اسکواڈ‘‘ سے وابستگی کے جھوٹے الزام میں بے رحمی سے نشانہ بنایا گیا۔ معراج کی والدہ نے تربت پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بی ایل اے کے اس وحشیانہ اقدام کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ماہ رنگ بلوچ پر کڑی تنقید کی اور اُس کے دہرے معیار کو بے نقاب کیا ۔
معراج کی والدہ نے کہا کہ ماہ رنگ ریاستی ظلم پر تو آواز اٹھاتی ہیں، لیکن بی ایل اے کے وحشیانہ مظالم پر مکمل خاموشی اختیار کرتیں ہیں۔ انہوں نے بی ایل اے کے ’’ریاستی ڈیتھ اسکواڈ‘‘ جیسے بے بنیاد الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’’"معراج ایک معصوم بلوچ تھا جو ایک کالعدم تنظیم کی دہشت گردی کا شکار ہوا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ 15 سال کی عمر میں اس نے کیا گناہ کیا تھا جو بی ایل اے نے اس کو اتنی بے دردی سے قتل کیا؟ جمیل پر حملے کی ذمے داری بی ایل اے نے قبول کی لیکن میرے بچے کی ذمے داری قبول کیوں نہیں کی؟۔ میرے بچے کا کیا قصور تھا؟ میرے بچے کا یہی قصور تھا کہ وہ سروس اسٹیشن میں گاڑی دھو کر مجھے کچھ پیسے دیتا تھا؟۔
معراج وہاب کی والدہ نے کہا کہ میرے بچے کو بی ایل اے کے لوگوں نے قتل کیا اور قتل کرنے کے بعد ذمے داری بھی نہیں لے رہے۔ بی ایل اے والے میرے بیٹے کے ہاتھ کی گھڑی اور اس کے پاؤں کے جوتے تک اتار کے لے گئے۔ انہوں نے کہا کہ میری ماہ رنگ بلوچ سے درخواست ہے، جو انصاف کی علمبردار بنتی ہیں کہ مجھے بھی انصاف فراہم کیا جائے۔ بی ایل اے والے مجھے بتائیں کہ میرے بیٹے نے کیا غلطی کی تھی؟ اگر وہ ایک غلطی بھی ثابت کر دیں تو میں اپنے بیٹے کے قتل کو معاف کر دوں گی۔ معراج وہاب کی والدہ نے مزید کہا کہ میرا بیٹا انسان تھا، کوئی جانور نہیں، جسے بے دردی سے مارا گیا۔ بی ایل اے نے اسے جانوروں کی طرح قتل کیا اور پھر اس کا ذمہ بھی نہیں لیا۔ بی ایل اے کے دہشت گردوں نے جمیل ملک کے قتل کا اعتراف کیا، تو پھر وہ میرے بیٹے کی ہلاکت پر کیوں خاموش ہیں؟۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نشانہ بنایا کی والدہ نے معراج وہاب نے کہا کہ انہوں نے میرے بچے
پڑھیں:
صادق آباد میں درجنوں بچوں کے گردے چوری کرلیے گئے؛ حقیقت کیا ہے؟
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پنجاب کے شہر صادق آباد میں درجنوں بچوں کے گردے نکال لیے گئے اور یہ واقعہ اعضا کی چوری کا ہے۔
2 جون 2025 کو ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر متعدد صارفین نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں کئی بچے چارپائیوں پر لیٹے ہوئے نظر آرہے تھے اور ان کے پیٹ کے نچلے حصے پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ پوسٹ میں کہا گیا کہ یہ بچے اعضا کی چوری، خاص طور پر گردے نکالنے کا شکار ہوئے ہیں۔
ایک پوسٹ میں لکھا گیا:
’’انتہائی افسوسناک واقعہ… صادق آباد، پنجاب میں پتھری کی سرجری کے بہانے 25 افراد کے گردے نکال لیے گئے۔‘‘
یہ پوسٹ تقریباً 78,000 افراد نے دیکھی، جبکہ یہی ویڈیو دیگر کئی اکاؤنٹس سے بھی ہزاروں بار دیکھی گئی۔
تیزی سے وائرل ہوتی پوسٹ کے دعوے کی حقیقت جاننے کےلیے اس کا فیکٹ چیک کیا گیا۔ فیکٹ چیک ٹیم نے سب سے پہلے ویڈیو کا ریورس امیج سرچ کیا تاکہ اصل ماخذ تلاش کیا جاسکے۔
فیکٹ چیک ٹیم کو کسی بھی معتبر ذرائع سے اعضا کی چوری کی کوئی تصدیق شدہ خبر نہیں ملی۔
البتہ ویڈیو کا ایک اسکرین شاٹ نجی ٹی وی چینل کی 31 مئی 2025 کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں پایا گیا جس کا عنوان تھا: ’’صادق آباد اسپتال میں 28 بچوں پر غلطی سے اپینڈکس کی سرجری‘‘
اصل معاملہ کیا تھا؟
رپورٹ کے مطابق، توحید میڈیکل کمپلیکس (صادق آباد، ضلع رحیم یار خان) میں درجنوں بچوں کو پیٹ درد کی شکایت پر لایا گیا، جہاں ڈاکٹرز نے غلط تشخیص کرتے ہوئے ان کی اپینڈکس کی غیر ضروری سرجری کردی۔
تحقیقات کے بعد اسپتال کو سیل کردیا گیا اور کیس کو پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کو مزید کارروائی کے لیے بھیج دیا گیا۔
نیوز چینل کی رپورٹ میں وہی ویڈیو مناظر شامل تھے جو وائرل کلپ میں نظر آرہے تھے، البتہ مختلف زاویے سے۔
حقیقت کیا ہے؟
یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ اصل میں یہ ویڈیو ان بچوں کی ہے جن پر صادق آباد کے ایک نجی اسپتال میں غلط تشخیص کی بنیاد پر غیر ضروری اپینڈکس کی سرجری کی گئی تھی۔
نتیجہ:
بچوں کے گردے چوری کرنے کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ ویڈیو میں گردے نکالنے یا اعضا کی چوری کے کوئی شواہد نہیں۔ یہ دراصل ایک طبی غفلت کا کیس ہے جہاں بچوں پر بلاوجہ اپینڈکس کی سرجری کی گئی۔