اسرائیل کی تاریخ وعدہ خلافی کی ہے،حماس کیساتھ معاہدے پر کار بند نہیں رہے گا
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) اسرائیل کی تاریخ وعدہ خلافی کی ہے‘ حماس کیساتھ معاہدے پر کار بند نہیں رہے گا‘غالباًنیتن یاہوعالمی دبائو کی وجہ سے معاہدے کی پاسداری پر مجبور ہوںگے ‘صیہونی فوج میں بغاوت ہوسکتی ہے ‘حماس کو شکست نہیں دی جاسکی‘ طاقتور جب چاہے سمجھوتا توڑ سکتا ہے‘ یہودیوں ،عیسائیوںنے اپنی توانائی کومجتمع کرنے کے لیے سمجھوتا کیا، مسلم ممالک بھی فائدہ اٹھائیں۔ان خیالات کا اظہار تحریک حماس پاکستان کے ترجمان ڈاکٹر خالد قدومی، جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما، چترال سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی‘اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی محمد زبیر‘ معروف صحافی، سینئر تجزیہ کار میاں منیر احمد‘ معروف تجزیہ کار اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف صدیقی اور ویمن اسلامک لائرز فورم کی سابق چیئرپرسن طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا اسرائیل حماس سے معاہدے پر کاربند رہے گا؟‘‘ ڈاکٹر خالد قدومی نے کہا کہ دیکھیں اسرائیل کی ایک لمبی داستان ہے کہ وہ کبھی ا فہام و تفہیم یا مذاکرات پر عمل نہیں کرتا‘ اگرچہ اس نے معاہدے پر دستخط بھی کردیے ہیں‘ حماس کو معاہدے سے 2،3 دن پہلے اس کی تیاری کرنے کے لیے وقت دیاگیا تھا اور اسرائیل نے بھی اسے قبول کیا اور اس معاہدے کی شرائط کی قطر، مصر اور امریکا نے بھی گارنٹی دی ہے ‘ معاہدے سے پہلے حماس نے بتادیا تھا کہ کوئی نسل کشی اورکوئی حملہ نہیں ہوگا لیکن ہوا یہ کہ جس دن حماس نے پریس کانفرنس کی اور معاہدہ کا اعلان کیا اس روز حماس کے 82 افراد کو اسرائیل نے بمبارمنٹ میں شہید کردیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی نیت خراب ہے‘ اسرائیل پر عالمی دباؤ اور مجاہدین کی کامیابی اور فلسطینیوں کے ثابت قدم رہنے کی وجہ سے شاید اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکے پاس اب کوئی اور راستہ نہیں ہوگا کہ وہ معاہدے کے مطابق خاص طور پر اپنے اس پہلے مرحلے پر مکمل طور پر عمل درآمد کریں‘ فلسطین القدس کے وقت مطابق اتوار کے روز 4بجے دوپہر کو معاہدے پر عملدرآمد شروع ہوگا اب دیکھیں گے کہ یہ اپنے وعدے پر عمل کرتے ہیں یا نہیں‘ اگر اسرائیل معاہدے عمل نہیں کرے گا تو اسرائیلی یرغمالی کبھی رہا نہیں ہوں گے‘ عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ اس مقام پر جہاں اسرائیل نے ہمارے 82 افراد شہید کیے تھے‘ اس بمباری میں ایک یہودی یرغمالی خاتون بھی ہلاک ہو گئی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت کو اپنی عوام کی بھی کوئی فکرنہیں ہے وہ اپنے شہریوں کو بھی قتل کر سکتے ہیں اور کرے بھی رہے ہیں‘ ہم اچھی نیت سے معاہدے کے لیے گئے تھے تاکہ حماس فلسطینیوں کو جو اسرائیلی کی قید میں ہیں انہیں واپس لا سکے‘ حماس تحریک مزاحمت اور جدوجہد کو جاری رکھے گا‘ اسرائیل قابل شکست ہے‘ ان تمام افراد کو سلام پیش کرتے ہیں جو اس عظیم اور مقدس لڑائی میں شریک ہوئے ۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ یہ اسرائیل کی اب مجبوری ہے کہ وہ حماس سے معاہدے پر کاربند رہے کیونکہ وہ حماس کو شکست نہیں دے سکے اور 15ماہ تک انہوں نے جنگ لڑی اور انہوں نے حماس کے خلاف ہر قسم کے ہتھیار استعمال کیے‘ فضائی اور زمینی حملے کیے اور ان کے گھروں کو تباہ کیا ان کے اسپتالوں کو جس طرح نست ونابود کیا اس کے باوجود بھی حماس کے لوگوں کی ہمت اور جرأت کسی صورت کم نہ ہو سکی ہے‘ ایک تو وجہ یہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کے اندر سے بھی کچھ بغاوت کی خبریں آ رہی ہیں اگر یہ مصدقہ ہیں تو یہ اسرائیل کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے کہ اگر وہ دوبارہ جنگ کا آغاز کرتا ہے تو اس کی فوج میں بغاوت ہو سکتی ہے ‘ تیسری بات یہ ہے کہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہونے کے بعد پھر اس کو توڑنا ان کے لیے مشکلات کا باعث ہوگا۔مفتی محمد زبیر نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کا معاہدہ اس اعتبار سے تو قابل تحسین ہے کہ ایک لمبے عرصے سے حماس اور بالخصوص غزہ کے عوام پر جس طرح آگ کی بمباری جاری تھی اس میں کمی آئے گی لیکن لگتا نہیں ہے کہ اسرائیل اس معاہدے پر کاربند رہ سکے کیونکہ اسرائیل کی تاریخ ہمیشہ وعدے توڑنے کی رہی ہے‘ پوری اس تاریخ کو دیکھتے ہوئے ان سے کوئی زیادہ خوشگمانی کرنا مناسب نہیں ہوگا‘ جنگ کے محاذ پر غزہ کے لوگوں نے بھرپور فتح کے جھنڈے گاڑے اور خوب داد تحسین پائی ہے‘ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے تاہم اب ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر عرب ممالک کی کانفرنس اور او آئی سی کانفرنس بلائی جائے اور وزرائے خارجہ کی سطح پر مستقل اور پائیدار حل کی طرف جایا جائے‘ القد س کو دارالحکومت قرار دیا جائے ‘ فلسطین میں حماس کی حکومت کو حقیقی طور پر تسلیم کیا جائے۔میاں منیر احمد نے کہا کہ اسرائیل، حماس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے امریکا کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے جہاں اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ آچکا ہے اور 4سالہ میعاد پوری کرکے رخصتی کی تیاری کرنے والے صدر جوبائیڈن اور نومنتخبڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی تشویش کا باعث بننے والی صورتحال کے خاتمے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ اسرائیل امن معاہدے کی پاسداری کے وعدے پر کس حد تک اور کتنی مدت تک قائم رہے گا؟ اس کے ماضی کے کردار کی روشنی میں حتمی طور پر کچھ کہنا آسان نہیں تاہم واشنگٹن کو عالمی امن کے مفاد میں کردار کرنا چاہے گا تو معاہدہ موثر ہوسکتا ہے‘ اس معاہدے سے 15 سے زاید عرصہ سے جاری جنگ کے خاتمے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ محمد عارف صدیقی نے کہا کہ اسرائیل میں بنیادی طور پر 2 طرح کے صیہونی آباد ہیں ان میں سے ایک گروہ جس کی تعداد نسبتاً کم ہے وہ تو الٹرا آرتھو ڈوکس یہودی ہیں جن کا تعلق یہود کے 12 قبائل کی جو شاخیں ہیں ان سے ہے دوسرے وہ غیر یہود جو بنیادی طور پر صیہونی ہیں‘ یہ اشک نازی یہود یا وائٹ اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹ یہود کہلاتے ہیں یہ دونوں قبائل وائٹ اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹ یا اشک نازی بنیادی شیطان کی پوجا کرنے والے قبائل تھے جنہوں نے صیہون کا مذہب اوڑھا اور یہودیوں میں آ ملے دوسری طرف آرتھوڈوکس یہودی ہیں‘ اب اگر آپ ان دونوں یہودیوں و صیہونیوں کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات واضح ہے کہ اس قوم نے ہمیشہ بد عہدی کی، انہوں نے پیغمبروں تک سے بد عہدی اور بے وفائی کی یہ وہ قوم ہے جن کی تاریخ اس بات سے عبارت ہے کہ ان پر اعتبار نہیں کیا جانا چاہیے‘ آپ کو یاد ہوگا کہ مدینہ میں موجود قبائل بھی رسول کریم ؐ کے ساتھ معاہدے پر قائم نہیں رہ سکے تھے اور مسلمانوں کے خلاف اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے انہوں نے بارہا عہد شکنی کی جس کے نتیجے میں رسول اللہ کے دور میں بھی ان کی سرزش و تعدیب کی گئی‘ اس کے بعد کی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب اس قوم نے کسی دوسری قوم کے ساتھ معاہدہ کیا تو یہ صرف اس وقت تک اس معاہدے پر کاربند رہے جب تک وہ معاہدہ ان کے حق میں بہتر رہا اور جب ذرا سی بھی ان کے مفادات پر ضرب پڑی تو اس معاہدے کو یہ لوگ بلا جھجک توڑ ڈالتے تھے‘ اس کی وجہ ان کی مذہبی کتب ہیں اگر آپ ان کی مذہبی کتب کا مطالعہ کریں تو وہاں غیر یہودیوں کو جنٹائل اور گوئم کے نام سے پکارا گیا ہے یعنی 2 ٹانگوں والے جانور اور ان کی مذہبی کتب کے مطابق غیر یہود کا خون، جان مال سب کچھ ان پر حلال ہے اور ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی کوئی اہمیت نہیں ‘ یہ وہ بدبخت قوم ہے جو پیغمبروں تک سے بے وفائی اور عہد شکنی کر چکی ہے تو ہمارے ساتھ بھی یہی کرے گی‘ ہم دوسری بات عہد حاضر میں دیکھتے ہیں اس کے مطابق طاقتور اور کمزور کے درمیان جب معاہدہ ہوتا ہے تو طاقتور جب چاہے معاہدہ اس لیے توڑ ڈالتا ہے‘ اس سے اس پر عمل درآمد کروانے کی طاقت کسی میں نہیں ہوتی‘ اب اس معاہدے پر عمل درآمد کروانے کی طاقت کیا مسلم حکمرانوںمیں ہے‘ توجواب ہے کہ وہ تو صرف اپنے اقتدار کو طول دینے میں مصروف ہیں‘ انہیں فلسطین اہل فلسطین یا غزہ کے شہدا و مظلوموں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘ اس کے بعد اگر آپ بین الاقوامی اداروں کو دیکھیں تو وہ ہمیشہ سے صیہونی اور صلیب کی لونڈی بنے نظر آتے ہیں‘ اقوام متحدہ کے معاملات اور قراردادیں سب کے سامنے ہیں‘ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے فیصلے ردی کی ٹوکری میں پڑے ہیں‘ اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کروانے کی کسی میں جرأت نہیں ہے‘ اگر آپ اسی تناظر میں اس معاہدے کو دیکھیں تو یہ معاہدہ صرف وقتی طور پر جنگ بندی کے لیے کیا گیا ہے تاکہ دشمن یعنی صیہون اور صلیب ایک مرتبہ پھر سے اکٹھے اور اپنی توانائی کو مجتمع کر سکیں‘ غزہ میں موجود سرنگوں کے جال کو توڑنے کی کوئی تدبیر سوچ سکیں‘ مسلم ممالک پر دباؤ ڈال کر انہیں فرنٹ مین کے طور پر اسرائیل کے حق میں اور اہل غزہ کے خلاف استعمال کرنے کی پلاننگ کر سکیں یہ معاہدہ اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ اسرائیل وقت لینے کے لیے یہ معاہدہ کر رہا ہے اور بہت جلد اس معاہدے سے پھر جائے گا اب یہ ہم مسلمانوں پر ہے کہ وہ بھی اس وقفے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اپنی طاقت کو مجتمع کریں‘ مسلم حکمرانوں کو غیرت دلوائیں اور ایک اور بات بہت اہم ہے کہ جنگ بندی کے بعد ہمیں اہل غزہ کے لیے زیادہ سے زیادہ امداد اکٹھی کرنی چاہیے۔ طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے کہا کہ جہاں تک اسرائیل کی تاریخ ہے تو اسرائیل حماس سے معاہدے پر بالکل بھی کار بند نہیں رہے گا‘ کوئی نہ کوئی بہانہ وہ ڈھونڈے گا‘ بلاشبہ وعدہ خلافی اور کہہ مکرنی کی تاریخ اسرائیل سے زیادہ اچھی کس کی ہو گی ۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: معاہدے پر کاربند اسرائیل کی تاریخ معاہدے پر کار اس معاہدے پر کہ اسرائیل سے معاہدے معاہدے سے نے کہا کہ انہوں نے ہے کہ اس ہے کہ وہ نہیں ہے اگر ا پ کے لیے غزہ کے رہے گا کے بعد اور ان
پڑھیں:
حیران کن پیش رفت،امریکا نے بھارت سے10سالہ دفاعی معاہدہ کرلیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کوالالمپو ر،نئی دہلی،اسلام آباد(خبر ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک) امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط ہوگئے امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگ ستھ نے گزشتہ روز کوالالمپور میں اپنے بھارتی ہم منصب راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کے بعد اس پیش رفت کا اعلان کیا۔ پیٹ ہیگ ستھ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بتایا کہ یہ معاہدہ خطے میں استحکام اور دفاعی توازن کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پیٹ ہیگ سیتھ کے مطابق معاہدے سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون، معلومات کے تبادلے اور ٹیکنالوجی کے اشتراک میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے، جو مستقبل میں زیادہ گہرے اور مؤثر دفاعی تعلقات کی راہ ہموار کرے گا۔دونوں وزرا کے درمیان ملاقات آسیان ڈیفنس سمٹ کے دوران ہوئی، یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب امریکا نے اگست میں بھارت کی روسی تیل کی خریداری پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیکس عائد کیا تھا۔ان اضافی محصولات کے بعد بھارت نے امریکی دفاعی سازوسامان کی خریداری کا عمل عارضی طور پر روک دیا تھا، تاہم دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ روز ہونے والی ملاقات میں دفاعی خریداری کے منصوبوں پر نظرثانی کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق یہ ملاقات کوالالمپور میں ہونے والے آسیان ڈیفنس منسٹرز میٹنگ پلس کے موقع پر ہوئی، جو ہفتہ سے شروع ہونے جا رہی ہے۔معاہدے پر دستخط کے بعد پیٹ ہیگ سیتھ نے بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی سب سے اہم امریکی بھارتی شراکت داریوں میں سے ایک ہے، ہمارا اسٹریٹجک اتحاد باہمی اعتماد، مشترکہ مفادات اور ایک محفوظ و خوشحال بحیرہ ہندبحرالکاہل خطے کے عزم پر قائم ہے۔وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی 10 سالہ معاہدے پر دستخط کی تصدیق کی اور ہیگ ستھ کے ساتھ اپنی ملاقات کو نتیجہ خیز قرار دیا۔ ایکس پر ایک پوسٹ میں راج ناتھ نے کہا،کوالالمپور میں میرے امریکی ہم منصب پیٹر ہیگ سیتھ کے ساتھ ایک نتیجہ خیز ملاقات ہوئی،ہم نے 10 سالہ امریکابھارت بڑی دفاعی شراکت داری کے فریم ورک پر دستخط کیے ہیں۔راج ناتھ سنگھ نے مزید زور دیا کہ یہ فریم ورک بھارت امریکا دفاعی تعلقات کے پورے اسپیکٹرم کو پالیسی کی سمت اہمیت فراہم کرے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ ہماری پہلے سے مضبوط دفاعی شراکت داری میں ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔ یہ ہمارے بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک ہم آہنگی کا اشارہ ہے اور شراکت داری کے ایک نئے عشرے کا آغاز کرے گا۔ ہماری شراکت داری آزادانہ اصولوں پر مبنی ہے۔علاوہ ازیںنئی دہلی کی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے بھارت کو ایران میں واقع اسٹریٹجک چاہ بہار بندرگاہ منصوبے پر امریکی پابندیوں سے 6 ماہ کی چھوٹ دے دی گئی ہے، جو افغانستان جیسے خشکی میں گھرے ملک تک رسائی کا ایک اہم راستہ ہے۔ خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال نئی دہلی اور تہران نے چاہ بہار منصوبے کو ترقی دینے اور اسے جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت بھارت کو بندرگاہ کے استعمال کے لیے 10 سال کی رسائی حاصل ہوئی تاہم امریکا نے ستمبر میں ایران کے جوہری پروگرام پر دباؤ بڑھانے کے اقدامات کے تحت اس منصوبے پر پابندیاں عائد کر دی تھیں، امریکی قانون کے مطابق جو کمپنیاں چاہ بہار منصوبے سے وابستہ رہیں گی ان کے امریکا میں موجود اثاثے منجمد کیے جا سکتے تھے اور ان کے امریکی لین دین روک دیے جاتے۔بھارت نے کہا کہ پابندیاں عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہیں۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے نئی دہلی میں صحافیوں کو بتایا کہ میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ ہمیں امریکی پابندیوں سے 6 ماہ کے لیے استثنا دیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ استثناحال ہی میں دیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ اپریل 2026 تک مؤثر رہے گا۔یہ رعایت ایسے وقت میں دی گئی ہے جب پاکستان اور افغانستان حالیہ ہفتوں میں اپنی غیر مستحکم سرحد پر جھڑپوں کے بعد نازک امن بات چیت میں مصروف ہیں۔امریکا نے افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کے دوران چاہ بہار بندرگاہ منصوبے کو بمشکل قبول کیا تھا، کیونکہ وہ نئی دہلی کو کابل حکومت کی حمایت میں ایک قیمتی شراکت دار سمجھتا تھا، جو 2021 میں تحلیل ہو گئی تھی۔ بعد ازاں بھارت نے طالبان حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لائی۔افغانستان کے اقوام متحدہ کی پابندیوں کے زد میں آنے والے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے رواں ماہ بھارت کا دورہ کیا، جس کے بعد نئی دہلی نے کابل میں اپنا سفارتی مشن دوبارہ مکمل سفارتخانے کی سطح پر بحال کر دیا۔دریں اثناء ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے امریکا اور بھارت کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کا نوٹس لیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ طاہر انداربی نے کہا کہ خطے پر امریکا بھارت دفاعی معاہدے کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ترجمان کا کہنا تھا کہ مسلح افواج بھارتی فوجی مشقوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ طاہر اندرابی نے مزید کہا کہ یہ سوال کہ پاکستان نے کتنے بھارتی جنگی جہاز گرائے؟ بھارت سے پوچھنا چاہیے، حقیقت بھارت کے لیے شاید بہت تلخ ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاک افغان تعلقات میں پیشرفت بھارت کو خوش نہیں کرسکتی لیکن بھارت کی خوشنودی یا ناراضی پاکستان کے لیے معنی نہیں رکھتی۔ قبل ازیںبھارت نے چترال سے نکلنے والے دریائے کنڑ پر افغان طالبان کی جانب سے ڈیم بنانے میں مدد کی پیشکش کردی۔گزشتہ دنوں افغانستان میں برسراقتدار طالبان رجیم کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے وزارت توانائی کو چترال سے نکلنے والے دریائے کنڑ پر جلد از جلد ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔افغان میڈیا کے مطابق سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کہا تھا کہ ڈیم کیلیے ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے جائیں اور غیر ملکی کمپنیوں کا انتظار نہ کیا جائے۔اب بھارت نے چترال سے نکلنے والے دریائے کنڑ پر افغان طالبان کی جانب سے ڈیم بنانے میں مدد کی پیشکش کردی۔بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ہفتہ وار پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارت ہائیڈروالیکٹرک پروجیکٹس کی تعمیر میں افغانستان کی مدد کیلیے تیار ہے، دونوں ممالک میں پانی سے متعلق معاملات میں تعاون کی ایک تاریخ ہے، ہرات میں سلما ڈیم کی مثال موجود ہے۔دوسری جانب افغان طالبان نے بھارتی اعلان کا خیرمقدم کیا اور قطر میں طالبان کے سفیر سہیل شاہین نے دی ہندو سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔خیال رہے کہ دریائے کنڑ چترال سے نکلتا ہے اور تقریباً 482 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد دریائے کابل میں شامل ہو کر واپس پاکستان آتا ہے۔
خبر ایجنسی
گلزار