امریکہ میں ٹک ٹاک بند، کمپنی کو ٹرمپ سے امیدیں
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
ویب ڈیسک — امریکہ میں ٹک ٹاک کی ایپلی کیشن نے کا کام کرنا بند کردیا ہے جب کہ ایپل اور گوگل ایپ اسٹور سے بھی یہ غائب ہوگئی ہے۔
اتوار کو اس ایپ پر پابندی کا اطلاق ہونا تھا تاہم ہفتے کو رات گئے ہی اس ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک نے امریکہ میں کام کرنا بند کردیا تھا۔
منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ پیر کو عہدہ سنبھالنے کے بعد غالب امکان ہے ٹک ٹاک کو پابندی ختم کرانے کے لیے 90 دن کی مہلت دیں گے۔
ٹک ٹاک نے اپنی ایپ پر امریکہ میں بندش کے اعلان کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس وعدے کا بھی حوالہ دیا ہے۔
ٹک ٹاک چین کی کمپنی بائیٹ ڈانس کی ملکیت میں ہے۔
ہفتے کو رات گئے جن صارفین نے اس ایپ تک رسائی کی کوشش کی تو انہیں اپنی اسکرین پر یہ نوٹس دکھائی دیا کہ امریکہ میں نافذ ہونے والے ایک قانون کے تحت ٹک ٹاک پر پابندی عائد ہوگئی ہے۔ بد قسمتی سے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس وقت ٹک ٹاک استعمال نہیں کرسکتے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹک ٹاک کی بحالی کے لیے کسی حل پر ہمارے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ برائے کرم ہمارے ساتھ رہیے۔
بائٹ ڈانس کی دیگر ایپس بشمول ویڈیو ایڈیٹنگ ایپ کیپکٹ اور لائف اسٹائل سوشل ایپ لیمن ایٹ بھی ہفتے کو رات گئے امریکہ میں آف لائن ہوگئی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ’این بی سی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’90 دن کی توسیع ایسی چیز ہے جو غالب امکان ہے کہ کی جا سکتی ہے اور یہ بہت مناسب ہے۔ اگر میں ایسا کرنے کا فیصلہ کرتا ہوں تو ممکنہ طور پر پیر ہی کو اس کا اعلان کر دوں گا۔‘‘
ہفتے کو ایک بیان میں وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ آئندہ حکومت اس سلسلے میں فیصلے کی مجاز ہوگی۔
صدر جو بائیڈن نے گزشتہ سال اپریل میں ایک حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس میں بائٹ ڈانس سے کہا گیا تھا کہ وہ 2025 کے آغاز تک امریکہ میں اپنے تمام اثاثے فروخت کر دے یا پھر ملک بھر میں اپنے پر پابندی کا سامنا کرے۔
ٹک ٹاک نے اس قانون کے خلاف امریکہ کی سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ عدالت اُس قانون کو کالعدم قرار دے جس کے تحت 19 جنوری تک پلیٹ فارم پر پابندی لگ سکتی ہے جب کہ حکومت نے اپنے اس مؤقف پر زور دیا ہے کہ قومی سلامتی کے خطرے کو ختم کرنے کے لیے قانون ضروری ہے۔
امریکہ کی سپریم کورٹ نے جمعے کو اس قانون کو برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا تھا جس کے تحت 19 جنوری سے ٹک ٹاک پر پابندی کا اطلاق ہونا تھا۔
جمعے کو امریکہ میں چینی سفارت خانے نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکہ ٹک ٹاک کو دبانے کے لیے غیر شفاف انداز میں ریاستی قوت کا استعمال کر رہا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ چین اپنے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدمات کرے گا۔
ٹک ٹاک امریکہ کی کل آبادی کے لگ بھگ نصف کے استعمال میں ہے اور اسے امریکہ آن لائن کلچر تشکیل دینے والی ایپ کہا جاتا ہے اور اس پر کئی چھوٹے آن لائن کاروبار بھی ہوتے ہیں۔
ٹک ٹاک کے مستقبل سے متعلق بے یقینی کی وجہ سے زیادہ تر نوجوان صارفین نے چینی ایپ ریڈ نوٹ سمیت دیگر متبادل کا رخ کرنا شروع کردیا ہے۔
گوگل ٹرینڈ کے مطابق ٹک ٹاک بند ہونے کے چند منٹ بعد ہی امریکہ میں ’وی پی این‘ کی سرچز میں اچانک اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بائیٹ ڈانس میں بلیک راک اور جنرل اٹلانٹک جیسے انسٹی ٹیوشنل انویسٹرز کے شیئر 60 فی صد ہیں جب کہ اس کے بانیوں اور ملازمین کے پاس اس کے بیس بیس فی صد شیئرز ہیں۔ امریکہ میں اس کے سات ہزار ملازمین ہیں۔
اس خبر کی تفصیلات ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل امریکہ میں پر پابندی ہفتے کو ٹک ٹاک تھا کہ کے لیے دیا ہے
پڑھیں:
پیکسار کمپنی کے ورکر کی غیرقانونی برطرفی قبول نہیں‘خالد خان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی کے صدر خالد خان نے ایوری ڈینیس پیکسار کے ورکر عثمان علی کی غیر قانونی برطرفی پر سخت احتجاج کرتے ہوئے اسے ظالمانہ اقدام قرار دیا۔معمولی سی بات پر کمپنی انتظامیہ نے یک جنبش قلم محنت کش کو ملازمت سے برطرف کردیا جو کہ غیر قانونی ہے اور اسے عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔یہ بات انہوں نے ایوری ڈینیس پیکسار ایمپلائز یونین سی بی اے کے جنرل سیکرٹری محمد فرقان انصاری کی قیادت میں آئے ہوئے یونین کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔اس موقع پر این ایل ایف کراچی کے جنرل سیکرٹری محمد قاسم جمال اور یونین کے عہدیداران اور برطرف ملازم عثمان علی بھی موجود تھے۔خالد خان نے کہا کہ کمپنی انتظامیہ فیکٹری کے ماحول کو خراب نہ کرے اور غریب محنت کشوں سے روزگار نہ چھینا جائے۔معمولی غلطی پر تنبیہ لیٹر نکالا جاسکتا تھا لیکن عثمان علی کو ملازمت سے برطرف کر کے فیکٹری کے ماحول کو خراب کیا گیا ہے اور محنت کشوں کو مشتعل کیا گیا ہے۔عثمان علی کی جبری برطرفی آئی ایل او قوانین اور لیبر قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے اور اسے چیلنج کیا جائے گا اور غریب ملازم کی قانونی رہنمائی فراہم کی جائے گی۔