حیدرآباد چوڑی صنعت کے محنت کشوں کے مسائل
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
حیدرآبادبینگل انڈسٹریز ورکر فیڈریشن حیدرآباد واحد رجسٹرڈ شدہ فیڈریشن ہے اور چوڑی صنعت سے تعلق رکھنے والی 13 فیکٹریوں کی جس کے باقاعدہ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے اور تمام 13یونینیں سی بی اے کی حیثیت سے کام کر رہی ہے سی بی اے سرٹیفکیٹ رجسٹرار آف ٹریڈ یونین حیدرآباد ریجن حیدرآباد میں جاری کیے لیکن ان فیکٹریوں پر لیبر قوانین کا اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے جس کی شکایت فیڈریشن نے کئی مرتبہ ILO، سیکرٹری لیبر سندھ ، ریجنل ڈائریکٹر حیدرآ باد کو کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا حیران کن بات یہ ہے کہ چوڑی فیکٹری کے مالکان نہ تو بھرتی لیٹر دیتے ہیں اور نہ ہی ملازمت سے بر طرف کرنے کا کوئی لیٹر دیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی وجہ بتائی جا تی ہے اسی طرح سے فیکٹری مالکان قانون کے مطابق فیکٹری کا کارڈ بھی جاری نہیں کرتے اسی طرح سے سالانہ 14چھٹی، میڈیکل 8چھٹی ، اور اتفاقی 10چھٹی اور نہ ہی ہفتے وار چھٹی ورکر کو دی جا تی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے اسی طرح سے اجرت کی ادائیگی کا کوئی بھی ریکارڈ مرتب نہیں کیا جاتا اسی طرح سے EOBIمیں کوئی ورکر رجسٹرڈ نہیں ہے اور نہ ہی EOBIکا کوئی کارڈ ورکر کو جاری کیا جاتا ہے اس طرح سے چوڑی فیکٹری سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کو EOBIسے پنشن نہیں ملتی اس کی وجہ نہ ان کا رجسٹریشن ہے اور نہ ہی EOBIکا کوئی کارڈ اسی طرح سے سوشل سیکورٹی سندھ حیدرآباد میں کوئی ورکر رجسٹرڈ نہیں ہے اور علاج سہولت سے محروم ہے کارڈ R-5اس وجہ جاری نہیں کیا جاتا کہ ورکر کا سوشل سیکورٹی میں کوئی چندہ بھی نہیں دیا جاتا اس کی باقاعدہ شکایت کمشنر ورک مین کمپنسیشن سندھ اور ڈائریکٹر سوشل سیکورٹی حیدرآباد کو بھی کی گئی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا چوڑی فیکٹریوں کے محنت کش علاج معالجے کی سہولت سے بھی مرحوم ہے جبکہ فیکٹری کے مالکان نے EOBIاور سوشل سیکورٹی سندھ حیدرآباد میں اپنے رشتے داروں کے نام دیے ہوئے ہیں اور اس سے ان کے رشتے دار پنشن اور سوشل سیکورٹی کے علاج سے فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ چوڑی فیکٹریوں میں یہ ملازم نہیں ہے اسی طرح سے چوڑی فیکٹریوں کے محنت کشوں کا ادائیگی کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں رکھا جاتا اس کی شکایت بھی سیکرٹری لیبر سندھ اور ریجنل ڈائریکٹرحیدرآباد کو کی گئی لیکن اس کا نتیجہ نہ نکلنے کے برابر ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ورکرز کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے ریجنل ڈائریکٹر حیدرآباد جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ورکرز کو باقاعدہ لیبر قوانین کے مطابق ریکارڈ اور سہولتیں فراہم کرے لیکن ایسا نہیں ہے چوڑی فیکٹری حیدرآباد کے محنت کش یارو مدد گار زندگی گزار رہے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان فیکٹریوں پر لیبر قوانین کا اطلاق ہی نہیں ہوتا ہے حیدرآباد بینگل انڈسٹریز ورکر فیڈریشن حیدر آباد چوڑی فیکٹری کے محنت کشوں کے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کر رہی ہے یہ جدو جہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک چوڑی فیکٹریوں کے محنت کشوں کو لیبر قوانین کے مطابق سہولتیں نہیں مل جاتی ۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سوشل سیکورٹی کے محنت کشوں ہے اور نہ ہی لیبر قوانین کیا جاتا کا کوئی نہیں ہے
پڑھیں:
جو کام حکومت نہ کر سکی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-8
آصف محمود
کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے
ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)