Jasarat News:
2025-08-02@12:57:17 GMT

حیدرآباد چوڑی صنعت کے محنت کشوں کے مسائل

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

حیدرآبادبینگل انڈسٹریز ورکر فیڈریشن حیدرآباد واحد رجسٹرڈ شدہ فیڈریشن ہے اور چوڑی صنعت سے تعلق رکھنے والی 13 فیکٹریوں کی جس کے باقاعدہ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے اور تمام 13یونینیں سی بی اے کی حیثیت سے کام کر رہی ہے سی بی اے سرٹیفکیٹ رجسٹرار آف ٹریڈ یونین حیدرآباد ریجن حیدرآباد میں جاری کیے لیکن ان فیکٹریوں پر لیبر قوانین کا اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے جس کی شکایت فیڈریشن نے کئی مرتبہ ILO، سیکرٹری لیبر سندھ ، ریجنل ڈائریکٹر حیدرآ باد کو کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا حیران کن بات یہ ہے کہ چوڑی فیکٹری کے مالکان نہ تو بھرتی لیٹر دیتے ہیں اور نہ ہی ملازمت سے بر طرف کرنے کا کوئی لیٹر دیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی وجہ بتائی جا تی ہے اسی طرح سے فیکٹری مالکان قانون کے مطابق فیکٹری کا کارڈ بھی جاری نہیں کرتے اسی طرح سے سالانہ 14چھٹی، میڈیکل 8چھٹی ، اور اتفاقی 10چھٹی اور نہ ہی ہفتے وار چھٹی ورکر کو دی جا تی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے اسی طرح سے اجرت کی ادائیگی کا کوئی بھی ریکارڈ مرتب نہیں کیا جاتا اسی طرح سے EOBIمیں کوئی ورکر رجسٹرڈ نہیں ہے اور نہ ہی EOBIکا کوئی کارڈ ورکر کو جاری کیا جاتا ہے اس طرح سے چوڑی فیکٹری سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کو EOBIسے پنشن نہیں ملتی اس کی وجہ نہ ان کا رجسٹریشن ہے اور نہ ہی EOBIکا کوئی کارڈ اسی طرح سے سوشل سیکورٹی سندھ حیدرآباد میں کوئی ورکر رجسٹرڈ نہیں ہے اور علاج سہولت سے محروم ہے کارڈ R-5اس وجہ جاری نہیں کیا جاتا کہ ورکر کا سوشل سیکورٹی میں کوئی چندہ بھی نہیں دیا جاتا اس کی باقاعدہ شکایت کمشنر ورک مین کمپنسیشن سندھ اور ڈائریکٹر سوشل سیکورٹی حیدرآباد کو بھی کی گئی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا چوڑی فیکٹریوں کے محنت کش علاج معالجے کی سہولت سے بھی مرحوم ہے جبکہ فیکٹری کے مالکان نے EOBIاور سوشل سیکورٹی سندھ حیدرآباد میں اپنے رشتے داروں کے نام دیے ہوئے ہیں اور اس سے ان کے رشتے دار پنشن اور سوشل سیکورٹی کے علاج سے فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ چوڑی فیکٹریوں میں یہ ملازم نہیں ہے اسی طرح سے چوڑی فیکٹریوں کے محنت کشوں کا ادائیگی کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں رکھا جاتا اس کی شکایت بھی سیکرٹری لیبر سندھ اور ریجنل ڈائریکٹرحیدرآباد کو کی گئی لیکن اس کا نتیجہ نہ نکلنے کے برابر ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ورکرز کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے ریجنل ڈائریکٹر حیدرآباد جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ورکرز کو باقاعدہ لیبر قوانین کے مطابق ریکارڈ اور سہولتیں فراہم کرے لیکن ایسا نہیں ہے چوڑی فیکٹری حیدرآباد کے محنت کش یارو مدد گار زندگی گزار رہے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان فیکٹریوں پر لیبر قوانین کا اطلاق ہی نہیں ہوتا ہے حیدرآباد بینگل انڈسٹریز ورکر فیڈریشن حیدر آباد چوڑی فیکٹری کے محنت کشوں کے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کر رہی ہے یہ جدو جہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک چوڑی فیکٹریوں کے محنت کشوں کو لیبر قوانین کے مطابق سہولتیں نہیں مل جاتی ۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سوشل سیکورٹی کے محنت کشوں ہے اور نہ ہی لیبر قوانین کیا جاتا کا کوئی نہیں ہے

پڑھیں:

سندھ میں 28 برس بعد چائلڈ لیبر پر سروے، ہوش رُبا انکشافات سامنے آگئے

کراچی:

سندھ میں چائلڈ لیبر سے متعلق 28 سال بعد ہونے والے جامع سروے میں ہوش رُبا انکشافات سامنے آگئے۔

سندھ چائلڈ لیبر سروے 2022–2024ء کی چونکا دینے والی رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں اب بھی 16 لاکھ سے زائد بچے محنت مشقت جیسے مسائل میں گرفتار ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل محکمہ محنت سندھ محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سروے محکمہ محنت سندھ، یونیسیف اور بیورو آف اسٹیٹکس کے اشتراک سے مکمل کیا گیا جس میں انکشاف ہوا ہے کہ 16 لاکھ سے زائد بچے چائلڈ لیبر میں مبتلا ہیں، جن میں سے نصف سے زائد 10 سے 17 سال کی عمر کے وہ بچے ہیں جو خطرناک حالات میں کام کر رہے ہیں جہاں طویل اوقات، شدید موسم اور غیر محفوظ آلات ان کا مقدر بن چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق محنت کش بچوں کی اسکول حاضری کی شرح صرف 40.6 فیصد ہے جبکہ وہ بچے جو چائلڈ لیبر کا شکار نہیں، ان کی حاضری 70.5 فیصد ہے اور جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے اسکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے، خاص طور پر 14 سے 17 سال کی لڑکیوں میں جو اوسطاً ہفتے میں 13.9 گھنٹے گھریلو کاموں میں مشغول رہتی ہیں اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا ان کے لیے مزید مشکل ہو جاتا ہے۔

اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل محکمہ محنت سندھ محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سروے رپورٹ حکومت سندھ کو پیش کر دی گئی ہے اور یہ خوش آئند ہے کہ 1996ء کے مقابلے میں صوبے میں چائلڈ لیبر کی مجموعی شرح میں تقریباً 50 فیصد کمی آئی ہے تاہم اب بھی کئی اضلاع میں صورت حال تشویشناک ہے جیسے قمبر شہداد کوٹ میں چائلڈ لیبر کی شرح سب سے زیادہ 30.8 فیصد، تھرپارکر میں 29 فیصد، شکارپور میں 20.2 فیصد، اور ٹنڈو محمد خان میں 20.3 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ کراچی میں سب سے کم 2.38 فیصد ہے۔

ڈی جی محکمہ محنت محمد علی شاہ نے بتایا کہ چائلڈ لیبر غربت سے گہرا تعلق رکھتی ہے اور غریب گھرانوں میں سے 33.7 فیصد نے کم از کم ایک ایسا بچہ ہونے کی تصدیق کی جو کام پر جاتا ہے جبکہ 20.1 فیصد محنت کش بچوں میں ڈپریشن کی علامات پائی گئیں جو کہ غیر محنت کش بچوں کے مقابلے میں تقریباً دگنا ہیں۔

حکومت کو اس رپورٹ کی روشنی میں فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ چائلڈ لیبر کے خاتمے اور بچوں کے محفوظ، تعلیم یافتہ اور روشن مستقبل کو یقینی بنایا جاسکے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ میں 28 برس بعد چائلڈ لیبر پر سروے، ہوشرُبا انکشافات سامنے آگئے
  • سندھ میں 28 برس بعد چائلڈ لیبر پر سروے، ہوش رُبا انکشافات سامنے آگئے
  • غزہ: خوراک کی تلاش میں نکلے فاقہ کشوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری
  • مسائل کو جنگ، تشدد اور طاقت سے ہرگز حل نہیں کیا جا سکتا، میر واعظ
  • حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب، جماعت اسلامی کا مارچ ختم کرنے کا اعلان
  • پہلگام حملے نے کشمیر کی سیاحت کی صنعت کو متاثر کیا ہے، عمر عبداللہ
  • پاک ایران گیس پائپ لائن سے متعلق ابھی بھی بات چیت جاری ہے: سلیم مانڈوی والا
  • ملک میں چینی کا کوئی بحران نہیں، قیمتوں میں اضافہ ذخیرہ اندوزی کا نتیجہ ہے، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار
  • بلوچستان کی تجارتی اور سماجی بہتری کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، سینیٹ قائمہ کمیٹیوں کا مطالبہ
  • خیبر پختونخوا کا دشمن سندھ اور پنجاب نہیں حکمران ہیں، حافظ نعیم الرحمان