قنبرعلی خان ،نئے کینال بنانے کے خلاف پیپلزپارٹی(ش ب) کا جلوس
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
قنبرعلی خان(نمائندہ جسارت) وفاقی حکومت کی جانب سے دریائے سندھ پر 6 نئے کینال بنانے کے اعلان کیخلاف پاکستان پیپلزپارٹی (ش ب) ضلع قنبر کی طرف سے ایک بڑا احتجاجی جلوس نکالا گیا۔ جلوس کے شرکا کے ہاتھوں میں بینرز، پلے کارڈز اور پارٹی جھنڈے تھے جلوس شہر کے مختلف روڈوں سے نعرے بازی کرتا ہوا قنبر کے مین بھٹو چوک پر پہنچا جہاں ایک جلسے کی صورت اختیار کرگیا۔ اس موقع پر علی رضا پھلپوٹو برکت میرجت، حبیب پتوجو، محمد جان بروہی، اعجاز بلیدی اور اللہ ڈنو گوپانگ سمیت دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ دریائے سندھ پر پنجاب میں 6 نئے کینال نکالنے کے اعلان اور ڈرافٹ پر دستخط کرکے صدر آصف زرداری نے سندھ کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر دریائے سندھ پر نئے کینال نکالے گئے تو سندھ بھر کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ پانی کا مسئلہ دراصل سندھ کی بقا کا مسئلہ ہے جبکہ آصف زرداری نے سندھ کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر دستخط کرکے سندھ کے عوام کو سخت اذیت سے دوچار کیا ہے۔ کیونکہ دریائے سندھ، سندھ کی بقا کا واحد ذریعہ ہے اس منصوبے کے ذریعے پنجاب کی لاکھوں ایکڑ زمین آباد کرکے سندھ کو بنجر بنانے کی ایک مبینہ سازش کی جارہی ہے جس میں آصف زرداری اور بلاول زرداری دونوں کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: دریائے سندھ نئے کینال
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے، کیا بھارت پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟
سنہ1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم پر ایک بڑا تنازعہ سامنے آیا تھا۔ اس تنازعے کو مختلف اوقات میں حل کرنے کوشش کی گئی لیکن وہ حل نہ ہو سکا۔ بالآخر ورلڈ بینک کی ثالثی سے19 ستمبر 1960 کو یہ تنازعہ حل کیا گیا اور ایک معاہدہ طے پایا جسے سندھ طاس معاہدہ کہا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پانی روکنے کا فیصلہ اعلان جنگ تصور کیا جائے گا، قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ جاری
معاہدے پر بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے دستخط کیے جس کے بعد مشترکہ مفادات کے لیے ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا جو کہ بھارت اور پاکستان کے کمشنرز پر مشتمل تھا۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت 3 مغربی دریاؤں دریائے سندھ، دریائے جہلم اور دریائے چناب کے 80 فیصد پانی پر پاکستان اور 20 فیصد پر بھارت جبکہ 3 مشرقی دریاؤں دریائے راوی، دریائے ستلج اور دریائے بیاس کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگوں کے دوران بھی اس معاہدے کو قائم رکھا گیا تھا تاہم اب پہلگام میں حملے کے بعد بھارت میں اس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
مزید پڑھیے: بھارت کے خلاف حکومت کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں، منہ توڑ جواب دیں گے، پیپلز پارٹی
سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈس بیسن سے ہر سال آنے والے مجموعی طور پر 168 ملین ایکڑ فٹ پانی کو دونوں ملکوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا تھا۔ چوں کہ مغربی دریاؤں میں سے بیشتر کا منبع بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں تھا اس وجہ سے بھارت کو 3 اعشاریہ 6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے اور محدود حد تک آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کی اجازت بھی دی گئی تھی۔
گزشتہ 3 سال سے پاکستان اور بھارت کے انڈس واٹر کمشنرز کا اجلاس نہیں ہو سکا ہے۔ انڈس واٹر کمشنرز کا آخری اجلاس 30 اور 31 مئی 2022 کو نئی دہلی میں ہوا تھا جبکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت سال میں دونوں ملکوں کے کمشنرز کا اجلاس ایک بار ہونا ضروری ہے۔
سابق ایڈیشنل کمشنر سندھ طاس معاہدہ شیراز میمن کا بھارت کی جانب سے معاہدہ معطل کیے جانے کے اعلان پر کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ گزشتہ 4 سال سے رکا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نہ ہی سندھ طاس معاہدہ کے تحت سالانہ میٹنگ کررہا ہے اور نہ ہی دریائوں سے متعلق ڈیٹا پاکستان کے ساتھ شیئر کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان ترکی بہ ترکی جواب دے گا، اسحاق ڈار
شیراز میمن نے کہا کہ بھارت اس وقت پاکستان کا پانی روک ہی نہیں سکتا ہے کیوں کہ اس کے لیے بھارت کو بڑے ڈیم بنانے ہوں گے جس میں کئی سال کا وقت لگ سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب سے معاہدے کی معطلی کے اعلان کے خلاف پاکستان ورلڈ بینک سے بھی رجوع کر سکتا ہے جس سے پاکستان کو ریلیف مل ہی جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت بھارت کے انتہا پسند اقدامات پاکستان سندھ طاس معاہدہ شیراز میمن