WE News:
2025-11-04@04:51:10 GMT

ہتھکڑی کی ایجاد، طوق سے ہینڈکف تک کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

ہتھکڑی کی ایجاد، طوق سے ہینڈکف تک کا سفر

جرم کی دنیا بڑی گہری ہے، انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی جرائم کے آثار ملتے ہیں، مگر مجرم کو انصاف کی گرفت میں لانے کا نظام یعنی قانون نافذ کرنے والے ادارے قدیم چین کی تاریخ میں قائم ہوتے نظر آتے ہیں۔

انسانی تاریخ کے قدیم دور سے قدیم چین میں ‘پریفیکٹس’، بابل میں ‘پاقودوس’، رومن سلطنت میں ‘ویجیلس’ اور قدیم مصر میں ‘مدجائے’ جیسے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور نظام ملتے ہیں۔ یہ تاریخ کے وہ ادوار ہیں جن میں بحث یہ نہیں تھی کہ نظام ٹھیک ہے یا غلط، بلکہ بحث یہ تھی کہ نظام ہے یا کہ نہیں۔

مندرجہ بالا نظاموں نے جرائم اور مجرم کی تعریف بیان کی اور جرم کو قابل سزا عمل قرار دیا۔ اس سے قبل تاریخ کے اوراق میں ہمیں جرم اور سزا کا تصور نہیں ملتا۔

قدیم مصر میں استعمال ہونے والی شیکلز

انسانوں کو جکڑنے کا رجحان ‘نیولیتھک دور’ سے ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ انسان نے جکڑنے اور قابو میں کرنے کا طریقہ ‘پری ہسٹورک دور’ یعنی پتھر کے زمانے میں جانوروں کو قابو کرنے کے تجربات سے سیکھا اور پھر اگلی ہی صدی میں انسانوں پر بھی یہ آزمانا شروع کر دیا۔

10,000 قبل مسیح اور اس سے پہلے لوگ جانوروں کو اپنے استعمال کے لیے باندھنا سیکھ چکے تھے اور یہ معمول کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔ جانوروں کو ‘درخت کی ٹہنی یا جلد’ کی رسی سے باندھنے اور ایک مخصوص جگہ پر باڑ بنا کر نقل و حرکت محدود کرنے کے آثار بھی ملتے ہیں۔

 10,000 سے 4,500 قبل مسیح کے دوران انسانوں کو باندھنے یا جکڑنے کی تاریخ شروع ہوتی ہے، یہ آثار اس دور میں ہونے والی قبائلی جنگوں سے ملتے ہیں جہاں دوسرے قبائل کے لوگوں کو بھاگنے سے روکنے کے لیے یا پھر تذلیل کے مقصد سے جانوروں کی مشابہت دی جاتی تھی۔

قدیم چائنہ میں لکڑی کے کلانچے

لیکن ایک منظم طریقے سے کسی نظام یا اصول کے مطابق انسانوں کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنانے کا تصور 3,000 قبل مسیح کے بعد ملتا ہے۔ انسان اور معاشرے نے جب یہ تسلیم کر لیا کہ انسان کو قابو کرنا معاشرے کو معتدل اور نظم و ضبط کے ساتھ قائم رکھنے یا پھر دوسرے گروہ پر دبدبا بنا کے رکھنے کے لیے ناگزیر ہے، تو انسان نے اس کی تراکیب لگانی شروع کردی۔

قدیم چین نے کلانچے اور لکڑی کے طوق ایجاد کیے، ان کا استعمال ‘پریفیکٹس’ نظام کے باغیوں، مجرموں یا پھر غلاموں کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ یہ لکڑی سے بنا ایک ڈھانچہ ہوتا تھا۔ اس کی مختلف صورتیں ہوتی تھیں۔ عموماً یہ لکڑی کا مستطیل یا مربع میں انتہائی وزنی لکڑی کا ٹکڑا ہوتا تھا جس کو انسان کے گلے میں پہنا دیا جاتا تھا۔ اس کے درمیان میں انسانی گردن کے لیے ایک سوراخ ہوتا تھا۔

بنیادی طور پر طوق لکڑی کے 2ٹکڑوں کو جوڑ کر بنایا جاتا تھا، جس کو انسان کے گلے میں ڈالنے کے بعد مستقل طور پر جوڑ دیا جاتا تھا۔

قدیم چین کی ایجاد لکڑی کا طوق ایک کرسی نما ڈھانچے کے ساتھ ہوتا تھا۔ مجرم یا غلام کو اس پر بٹھا کر طوق پہنا دیا جاتا تھا، جس کے بعد نہ ہی وہ کھڑا ہو سکتا تھا اور نہ ہی چل سکتا تھا۔ کلانچے پاؤں اور ہاتھوں کو جکڑنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ کلانچے بھی لکڑی سے بنا ڈھانچہ رکھتے تھے جس میں پاؤں اور ہاتھوں کے لیے سوراخ بنائے گئے ہوتے تھے۔

قدیم مصر میں چمڑے کی ہتھکڑی

قدیم مصر نے اسی دور میں ‘شیکلز’ کی ایجاد کی، جسکو بعد میں بیڑیاں بنا کر استعمال کیا گیا۔ شیکلز لوہے سے بنا U شیپ کا ڈھانچہ ہوتا تھا، جس کے دونوں سِروں پر سوراخ ہوتے تھے۔ شیکلز ہاتھوں پر پہنا کر ان سِروں سے ایک اسکریو یا سَنگّل گزار کر لاک کر دیا جاتا تھا۔

قدیم مصر میں اس سے قبل چمڑے سے ہتھکڑی بنائی گئی تھی۔ چمڑے کی ہتھکڑی آنکھ جیسا ڈھانچہ رکھتی تھی، جس کے درمیان سے ہاتھوں کو ‘کراس’ کرکے گزارا جاتا تھا اور ایک سِرے سے گردن میں باندھ دیا جاتا تھا۔

ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں اب تک کی جدت اور ان کا استعمال بتا رہا ہے کہ انسانی سوچ نے تکبر، اَنا، لالچ، ظلم اور بے شرمی کی بیڑیاں اور ہتھکڑیاں پہن لیں تھیں۔ انسانوں کو غلام بنانے اور ان کی خرید و فروخت کرنے کی تحریر شدہ نشانیاں نیولیتھک دور سے ملتی ہیں۔ یہ 11,000 سال پرانا وہ وقت تھا جب زرعی انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ مالی اعتبار سے طاقتور یا پھر آبادی کے حوالے سے بڑے قبائل چھوٹے اور غریب قبائل کے لوگوں کو غلام بناتے اور ان سے زرعی کام کرواتے۔

تاریخ کے اوراق پر ایک جملہ لکھا نظر آتا ہے ‘معاشی سرپلس اور کثیر آبادی وہ عوامل تھے جنہوں نے بڑے پیمانے پر غلامی کو قابل عمل بنایا’۔ غلامی کے آثار قدیم تہذیبوں میں تاریخی چشمے سے واضح دکھائی دیتے ہیں، جن میں قدیم مصر، قدیم چین، اَکّدی سلطنت، آشوریہ، بابل، فارس، قدیم اسرائیل، قدیم یونان، قدیم ہندوستان، رومن سلطنت، عرب اسلامی خلافتیں اور سلطنتیں، نوبیا، ذیلی صحارائی افریقہ کی نوآبادیاتی دور سے پہلے کی سلطنتیں، اور امریکا کی نوآبادیاتی دور سے پہلے کی تہذیبیں شامل ہیں۔

قدیم چین میں لکڑی کا طوق

قدیم غلامی میں قرض کی غلامی، جرم کی سزا، جنگی قیدی، بچوں کو ترک کرنا اور غلاموں کے ہاں پیدا ہونے والے بچے شامل تھے۔ کسی بھی لین دین میں گارنٹی کے طور پر انسانوں کی غلامی رکھی جاتی تھی۔

ہتھکڑی آج جس صورت میں ہمیں نظر آتی ہے، اس کی بنیاد 1862 سے ملتی ہے۔ ڈبلیو وی ایڈمز نے 1862 میں پہلی ایڈجسٹ ایبل ریچیٹ ہتھکڑی کو متعارف کیا۔ یہ ہتھکڑی کلائی کے حساب سے ایڈجسٹ کی جا سکتی تھی۔ آج استعمال ہونے والی ہتھکڑی کا ڈھانچہ اسی ریچیٹ ہتھکڑی کے مطابق بنایا گیا ہے۔

بنیادی طور پر اس ڈھانچے میں ایک گراری کا استعمال کیا گیا تھا، جس کے ذریعے ہتھکڑی کو کلائی کے حساب سے ایڈجسٹ کرنا ممکن ہوا۔ 1800 عیسوی کے آخری حصے میں ‘ڈاربے ہتھکڑی’ متعارف ہوئی، جس میں اسکریو چابی کی خصوصیت شامل کی گئی۔

 1912 میں جارج اے کارنی نے ‘سونگ تھرو ہینڈکف’ کا نیا ڈیزائن متعارف کیا۔ اس ڈیزائن میں ہتھکڑی کا ایک حصہ کلائی کے گرد گھومتا تھا اور کلائی کے برابر آتے ہی خود لاک ہو جاتا تھا۔ اس ڈیزائن کی بنیادی انجنیئرنگ ریچیٹ ہتھکڑی والی ہی تھی مگر اس میں مزید جدت اور نئی خصوصیات شامل کرکے مزید محفوظ بنا دیا گیا۔

آج جو ہتھکڑی استعمال ہوتی ہے وہ اسی ماڈل یا ڈیزائن کے مطابق ہے۔ 1900 عیسوی میں ‘ڈبل کی’ کا فیچر شامل کیا گیا اور دونوں ہاتھوں کی ہتھکڑیوں کے درمیان زنجیر کا فاصلہ کم کر کے 2 رنگز کر دیا گیا۔

 1980 میں پلاسٹک کی ہتھکڑی یا زِپ ٹائی متعارف ہوئی۔ اس کو ڈسپوزیبل ہتھکڑی بھی کہا جاتا ہے۔ اس ہتھکڑی کو بنانے کا بنیادی مقصد بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کرنا ممکن اور آسان بنانا تھا۔ بیسویں صدی میں متعارف ہونے والی اسٹین لیس اسٹیل کی ہتھکڑیاں اتنی تعداد میں موجود نہیں ہوتی تھیں کہ ایک بڑے گروہ یا جتھے کو گرفتار کرنے کے لیے ہتھکڑیاں پہنائی جاسکیں۔

انسانی معاشرے نے انسانوں کو قابو اور گرفت میں کرنے کے نت نئے طریقے اور آلات متعارف کروائے، مگر انسان نے نہ ہی جرم سے پچنا سیکھا، نہ تکبر کی رو میں بہنے سے بچا، نہ ظلم کے پہاڑ گرانے سے تھکا اور نہ ہی رحم دلی کا پودا سرسبز رہا۔ انسان نے ایڈوینچر کے لیے نت نئے جرائم سیکھے، اور انہیں جرائم پہ قابو پانے کے لیے ریاست نے ہھتکڑی یا قید و بند کا موثر نظام بنایا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شاہزیب نجی

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: دیا جاتا تھا انسانوں کو ہونے والی نے کے لیے تاریخ کے قدیم چین کلائی کے ہوتا تھا کرنے کے کو قابو اور ان

پڑھیں:

دنیا کے مہنگے ترین موبائلز کی کیا خاص بات ہے؟ استعمال کون کر رہا ہے؟

ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں جب مہنگے گیجٹس کی بات کی جاتی ہے تو عموماً ہمارے ذہن میں ہائی اینڈ فلیگ شپ فون آتے ہیں لیکن ایک ایسی دنیا بھی ہے جہاں لگژری اسمارٹ فونز موجود ہیں جو فیچرز یا پرفارمنس سے زیادہ ڈیزائن، انفرادیت اور شاہانہ طرز پر توجہ دیتے ہیں۔

دنیا کے مہنگے ترین لگژری فون سونے، ہیروں اور دیگر نایاب مواد سے تیار کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ صرف ٹیک ڈیوائسز نہیں بلکہ دولت اور شان اور نمود و نمائش کی علامت بن جاتے ہیں۔

غیرملکی ویب سائٹ کے مطابق فیلکن سپرنووا آئی فوج 6 پنک ڈائمنڈ ایڈیشن دنیا کے سب سے مہنگے اسمارٹ فونز میں سے ایک ہے، جس کی قیمت حیران کن طور پر48.5 ملین امریکی ڈالر(تقریباً430 کروڑ بھارتی روپے) ہے، یہ فون نیویارک کی لگژری برانڈ فیلکن نے تیار کیا ہے اور یہ اپنے منفرد اور قیمتی ڈیزائن کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔

اس موبائل کا باڈی پلاٹینم یا 18/24 قیراط خالص سونے سے بنایا گیا ہے اور اس کی اصل پہچان اس کے پچھلے حصے پر لگا بڑا گلابی ہیرا ہے جو ایپل کے لوگو کے نیچے جڑا ہوتا ہے۔

فیچرز عام آئی فون 6 جیسے ہی ہیں، جیسا کہ4.7 انچ ریٹینا ایچ ڈی ڈسپلے، ایپل اے 8 چپ اور 8 میگا پکسل کیمرہ، تاہم اس کے علاوہ اس لگژری ورژن میں خاص پلاٹینم کوٹنگ اور جدید سیکیورٹی فیچرز بھی شامل کیے گئے ہیں، جو اسے نہ صرف قیمتی بلکہ زیادہ محفوظ بھی بناتے ہیں۔

یہ لگژری فون بھارت سے تعلق رکھنے والے ایشیا کے امیر ترین شخص مکیش امبانی کی اہلیہ انیتا امبانی کے استعمال میں ہے۔

دنیا کے مہنگے ترین موبائل فون میں سے ایک گولڈوش لے ملین بھی ہے، جس کو ایک وقت میں گنیز ورلڈ ریکارڈز میں دنیا کا سب سے مہنگا فون قرار دیا گیا تھا، اس کی قیمت 1.3 ملین ڈالر (تقریباً 11.5 کروڑ بھارتی روپے)ہے۔

اس موبائل فون کو ڈیزائنر ایمانوئیل گوئیٹ نے تیار کیا تھا اور اس ماڈل کے صرف تین فون ہی بنائے گئے تھے، اس کا فریم 18 قیراط سفید سونے سے تیار کیا گیا ہے اور اسے VVS-1 گریڈ کے 120 قیراط ہیرے سے سجایا گیا ہے۔

فیچرز کے لحاظ سے یہ فون بہت سادہ ہے، 2 میگا پکسل کیمرہ، 2 جی بی اسٹوریج، بلوٹوتھ اور 2G کنیکٹیویٹی، اس فون کی اصل قیمت اس کی ٹیکنالوجی میں نہیں بلکہ اس کے نایاب ڈیزائن اور قیمتی مواد میں ہے۔

رپورٹ کے مطابق گریسو لگژور لاس ویگاس جیک پاٹ کی قیمت ایک ملین ڈالر (تقریباً 8.9 کروڑ بھارتی روپے) ہے، کلیکٹرز کے لیے ایک شاہ کار سمجھا جاتا ہے اور یہ فون بیک وقت لگژری، ہنرکاری اور تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

اس فون کا کیس 180 گرام خالص سونے سے بنایا گیا ہے اور اس پر 45.5 قیراط کے نایاب سیاہ ہیرے جڑے ہوئے ہیں، اس کے پچھلے حصے میں 200 سال پرانی افریقی بلیک ووڈ استعمال کی گئی ہے، جو دنیا کی سب سے نایاب اور مہنگی لکڑیوں میں سے ایک ہے۔

اس کے کیپیڈ کی ہر ایک کلید کرسٹل سفائر سے ہاتھ سے پالش اور لیزر اینگریو کی گئی ہے، جن کا مجموعی وزن32 قیراط ہے، اس خوبصورت فون کے صرف تین یونٹ تیار کیے گئے تھے اور ہر ایک کا منفرد سیریل نمبر ہے، جو اسے واقعی ایک نایاب اور بے مثال گیجیٹ بناتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نیڈرلینڈز نے مصر کو 3 ہزار 500 سال قدیم مجسمہ واپس کرنے کا اعلان کردیا
  • کیا حکومت نے یوم اقبال پر عام تعطیل کا اعلان کردیا؟
  • کارتک آریان نے اپنی فٹنس کا راز بتا دیا
  • ترقی کا سفر نہ روکا جاتا تو ہم دنیا کی ساتویں بڑی معیشت ہوتے: احسن اقبال
  • کوکنگ آئل اور ہماری صحت
  • تم پر آٹھویں دہائی کی لعنت ہو، انصاراللہ یمن کا نیتن یاہو کے بیان پر سخت ردِعمل
  • پاکستانی ویزا 24 گھنٹوں میں مل جاتا ہے، براہ راست فلائٹ کا مسئلہ ہے: بنگلا دیشی ہائی کمشنر
  • پنجاب میں اسموگ کے خاتمے کے لیے ’اینٹی اسموگ گنز‘ کا استعمال
  • مصنوعی ذہانت
  • دنیا کے مہنگے ترین موبائلز کی کیا خاص بات ہے؟ استعمال کون کر رہا ہے؟