نصرت ہدایت اللہ نے علی رحمٰن سے تعلقات پر خاموشی توڑ دی
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ماڈل نصرت ہدایت اللہ نے اداکار علی رحمٰن خان سے تعلقات پر خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی اور اداکار کی جب بھی شادی ہوئی تو لوگوں کو معلوم ہوجائے گا۔
نصرت ہدایت اللہ اور علی رحمٰن کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے سے تعلقات کی چہ مگوئیاں ہیں اور خبریں ہیں کہ وہ جلد ہی رشتہ ازدواج میں بندھ جائیں گے۔
دونوں کو متعدد بار میڈیا کے سامنے بھی ایک ساتھ دیکھا گیا جب کہ ماڈل اور اداکار ایک دوسرے کے ساتھ کھچوائی گئی تصاویر بھی شیئر کرتے رہے ہیں۔
دونوں کی ایک ساتھ تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد ان کی جلد شادی کی افواہیں بھی سامنے آتی رہی ہیں، تاہم دونوں نے پہلے کبھی واضح طور پر اس حوالے سے گفتگو نہیں کی۔
ستمبر 2024 میں ایک ٹی وی پروگرام کے دوران علی رحمٰن خان نے واضح کیا تھا کہ ان کا فوری شادی کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی ان کے کسی سے تعلقات ہیں، ان کی وائرل تصاویر سے متعلق مداح خود ہی اپنی کہانیاں گھڑ لیتے ہیں۔
اب نصرت ہدایت اللہ نے اداکار سے تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان کے درمیان کچھ بھی چل رہا ہے تو جب بھی ان کی شادی ہوگی تو مداحوں کو معلوم ہو جائے گا۔
ماڈل نے حال ہی میں ہم ٹی وی کی بیسویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کی، جہاں انہوں نے صحافی عرفان الحق سے بات کی۔
View this post on InstagramA post shared by Nusrat Hidayatullah ???????? (@nusrathidayatullah)
انہوں نے واضح کیا کہ اگرچہ انہوں نے تاحال کسی ڈرامے میں کام نہیں کیا، تاہم وہ تھیٹر میں کام کرتی رہیں اور ماڈلنگ بھی کرتی آئی ہیں۔
علی رحمٰن سے تعلقات سے متعلق پوچھے گئے سوال پر نصرت ہدایت اللہ نے قدرے بیزارگی سے کہا کہ ان کے پاس اس حوالے سے کوئی مصالحے دار اور بریکنگ نیوز نہیں ہے۔
View this post on InstagramA post shared by Nusrat Hidayatullah ???????? (@nusrathidayatullah)
ماڈل کا کہنا تھا کہ ان کے درمیان جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اور وہ اس خفیہ تعلق کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتیں، ان کے پاس ایسی کوئی بریکنگ نیوز موجود نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان کے اور اداکار کے درمیان تعلق ہیں، ان کی شادی یا کچھ اور ہوگا تو مداحوں کو سب سے پہلے معلوم ہوجائے گا۔
View this post on InstagramA post shared by Nusrat Hidayatullah ???????? (@nusrathidayatullah)
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ رواں سال کچھ کرنے والے ہیں تو ماڈل نے سوچتے ہوئے کہا کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کہنا چاہتیں اور انہیں اس ضمن میں کوئی علم بھی نہیں۔
نصرت ہدایت اللہ کا مزید کہنا تھا کہ تاہم رواں برس بہت کچھ ہونے والا ہے، اس لیے ہر کوئی اس پر نظر رکھے۔
View this post on InstagramA post shared by Irfanistan ???? (@irfanistan)
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے درمیان سے تعلقات علی رحم ن انہوں نے حوالے سے
پڑھیں:
جو کام حکومت نہ کر سکی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-8
آصف محمود
کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے
ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)