دنیا کا انوکھا گاؤں جہاں 400 سے زائد جڑواں بہن بھائی رہتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
نئی دہلی(نیوز ڈیسک)دنیا کا انوکھا گاؤں جہاں 400 سے زائد جڑواں بہن بھائی رہتےہیں، یہ گاؤں بھارت کی ریاست کیرالہ کےضلع ملاپورم میں واقع ہے،اس گاؤں کا نام کوڈینہی ہے ۔
دنیا میں ایک ایسا انوکھا گاؤں بھی ہے جس میں 400 سے زائد جڑواں بہن بھائی رہتے ہیں، اس گاؤں میں 200 خاندان رہائش پذیر ہیں اور تو اور ڈاکٹرزاورسائنسدان بھی ابھی تک اسے ایک معمہ سمجھتے ہیں اور اسے سلجھانے میں ناکام رہے ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق جنوبی ریاست کیرالہ کے ضلع ملا پورم کا گاؤں کوڈینہی میں 400 سے زیادہ جڑواں بچے ہیں، ماہرین جہاں 2 ہزار خاندانوں پر مبنی اس گاؤں کی خوبصورتی کے قائل ہیں وہیں یہاں پیدا ہونے والے جڑواں بچوں کی تعداد کے بارے میں بھی انگشت بدنداں ہیں۔
ماہرین اس گاؤں میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے غیر معمولی رجحان پر حیران ہیں جو کہ عالمی اوسط سے تقریباً سات گنا زیادہ ہے۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا میں علم بشریات کی ماہر لوریڈا میڈریگل تو کوڈینہی کو کسی ’دوسری دنیا کا خطہ‘ مانتی ہیں۔ انھوں نے اس پر تحقیق کی ہے۔
تحقیق کے مطابق 2008 میں کوڈینہی گاؤں کی خواتین نے 300 صحت مند بچوں کو جنم دیا جن میں سے 15 خواتین کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہوئے۔
پیدائش کے اعداد و شمار رکھنے والے محکمے کے مطابق کوڈینہی گاؤں میں گذشتہ پانچ سالوں میں 60 جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ جڑواں بچوں کی گنتی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مسلمانوں کی اکثریت والے اس گاؤں کے چاروں طرف بیک واٹرز ہیں اور شہر سے جوڑنے والا صرف ایک راستہ ہے۔ لوریڈا میڈریگل کے مطابق اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس گاؤں میں ہندو، مسلم اور مسیحی تینوں فرقے کے لوگ آباد ہیں۔
جڑواں بچوں کی پیدائش کا مطالعہ کرنے میں دلچسپی رکھنے والے کیرالہ کے ہی ڈاکٹرکرشنن سری بیجو کئی سالوں سے کوڈینہی میں بڑی تعداد میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے راز کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ گاؤں میں جڑواں بچوں کی اصل تعداد سرکاری طور پر کاغذات میں درج کی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
ڈاکٹر بیجو کہتے ہیں ”میری رائے میں کوڈینہی گاؤں کی حدود میں تقریباً 450 سے 500 جڑواں بچے ہیں۔“ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ جڑواں بچوں کی پیدائش کے واقعات تین نسل پہلے شروع ہوئے تھے۔
تحقیق دانوں کے مطابق اس گاؤں میں 1949 میں پہلا جڑواں بچہ پیدا ہوا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر سری بیجو نے ”میری معلومات کے مطابق “ یہ طبی معجزہ 60 سے 70 سال پہلے کے درمیان میں شروع ہوا تھا“ لیکن ابھی ان پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی ہے کہ آخر وہاں اتنی تعداد میں ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں اس کا گاؤں والوں کے کھانے پینے سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔
جڑواں بچوں کی پیدائش کے پیچھے ایک اور اہم وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر بیجو نے کہا کہ عام طور پر جن خواتین کا قد 5 فٹ اور 3 انچ سے کم ہوتا ہے ان کے ہاں جڑواں یا ایک سے زیادہ بچے کے جنم کا زیادہ امکان ہوتا ہے اور کوڈینہی میں خواتین کا اوسط قد 5 فٹ ہے۔
کوڈینہی کو اب انڈیا میں ’ٹوئن ٹاؤن‘ یا ’جڑواں بچوں کے قصبے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگرچہ سائنسدانوں میں اس کے متعلق تججس پایا جاتا ہے لیکن کوڈینہی والوں کو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔
تاہم حال ہی میں ڈاکٹر سری بیجو نے جڑواں بچوں اور ان کے خاندانوں کو رجسٹر کرنے اور مدد فراہم کرنے کے لیے ’ٹوئنز اینڈ کن ایسوسیشن‘ (ٹاکا) نام کی ایک تنظیم قائم کی ہے۔ یہ تنظیم گاؤں کے جڑواں بچوں کو تعلیم دینے اور ان کے کنبے کو مدد فراہم کرتی ہے۔
مزیدپڑھیں:حکومت کا 8 فروری یوم تعمیر وترقی کے طور پر منانے کا اعلان
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اس گاؤں میں کے مطابق
پڑھیں:
ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کےلئے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے، نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار
نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 جولائی2025ء) نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول، خاص طور پر تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز، بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول پاکستان کی صدارت میں منعقدہ تقریبات کےلئے کلید رہیں گے ۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین، معزز مہماناں اور دیگر شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی اس ماہ کی صدارت کا جشن منا تے ہوئے استقبالیہ تقریب میں آپ سب کو خوش آمدید کہنا میرے لیے انتہائی مسرت کا باعث ہے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول بالخصوص تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول ہماری اس ماہ کی صدارت میں بھی سلامتی کونسل کے کام خواہ وہ مباحثے ہوں یا عملی اقدامات ہماری شراکت کو شکل دے رہے ہیں ۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آج دنیا میں بڑھتی بے چینی اور تنازعات کے دور میں غیر حل شدہ تنازعات، طویل المدت تصفیہ طلب تنازعات، یکطرفہ اقدامات اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے نتائج ہر خطے میں محسوس کئے جا رہے ہیں، ہمارا یقین ہے کہ عالمی امن و سلامتی صرف کثیرالجہتی، تنازعات کے پرامن حل، جامع مکالمے اور بین الاقوامی قانون کے احترام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی تناظر میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان نے اپنی صدارت کے دوران تین ترجیحات پر توجہ مرکوز کی ہے، اول تنازعات کا پرامن حل اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے لیکن اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اعلیٰ سطحی کھلے مباحثے اور سلامتی کونسل کی متفقہ قرارداد 2788 میں اس ترجیح کی عکاسی کی گئی ہے ۔ دوم کثیرالجہتی، ہم کثیرالجہتی کو نعرے کے بجائے ایک ضرورت سمجھتے ہیں، سلامتی کونسل کو صرف ردعمل کا ایوان نہیں بلکہ روک تھام، مسائل کے حل اور اصولی قیادت کا فورم ہونا چاہیے ۔ سوم اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں کے درمیان تعاون، بالخصوص اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)جو 57 رکن ممالک کے ساتھ عالمی امن کی تعمیر میں ایک اہم شراکت دار ہے، ہم 24 جولائی کو او آئی سی کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں اس تعاون کو مزید بڑھانے کے منتظر ہیں ۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں امن اور ترقی کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے رکن ممالک، دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ فعال طور پر مصروف عمل ہے، یہ مشغولیت اور عہد صرف سلامتی کونسل تک محدود نہیں بلکہ پورے اقوام متحدہ کے نظام میں پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی اور ترقی کے عالمی مباحثے میں ایک اہم آواز ہے، چاہے وہ جنرل اسمبلی ہو، ای سی او ایس او سی ہو یا دیگر فورمز، ہم نے اقوام متحدہ کے تین ستونوں امن و سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کو مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے اور عالمی ادارے کی اصلاحات کو سپورٹ کیا ہے تاکہ ہماری تنظیم کو زیادہ موثر، مضبوط اور عام اراکین کے مفادات کے لیے جوابدہ بنایا جا سکے ۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے 2026-28 کے لیے انسانی حقوق کونسل کے انتخابات میں اپنی امیدواری پیش کی ہے جو ایشیا پیسیفک گروپ کی طرف سے حمایت شدہ ہے، ہم آپ کی قیمتی حمایت کے لئے بھی پر امید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا انسانی حقوق کونسل کے ساتھ تعلق ٹی آر یو سی ای (رواداری، احترام، عالمگیریت، اتفاق رائے اور مشغولیت) کے تصور پر مبنی ہے ۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آخر میں میرا پیغام ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں، ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے آپ سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔\932