پاکستانی عوام کو نئے سال کا ریاستی تحفہ ’اڑان پاکستان‘ کے نام سے ایک اور پنج سالہ منصوبے ( سال 2024 تا 29) کی شکل میں دان ہوا ہے۔ اس عرصے میں بقول وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب سالانہ 10 ارب ڈالر کی نجی سرمایہ کاری کی مدد سے سالانہ 10 لاکھ ملازمتیں پیدا کر کے سنہ 2028 تک 6 فیصد سالانہ ترقی کا نشانہ چھو کر پاکستان کی برآمدات کو 60 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچایا جا سکے گا اور پھر اگلے پنج سالہ منصوبے میں سنہ 2035 تک پاکستان کو ٹریلین ڈالر معیشت میں ڈھالا جا سکے گا۔
دراصل یہ پہلا پنج سالہ منصوبہ ہے جسے ایک اڑتا ہوا نام دیا گیا ہے۔ سنہ 1955 سے اب تک پاکستان میں 10 عدد پنج سالہ منصوبے آئے اور گئے۔ جانے کیوں اڑان پاکستان کو 13 واں پنج سالہ منصوبہ کہا جا رہا ہے؟ خدا معلوم گنتی میں سے 3 پنج سالے اڑ کے کس ڈال پے بیٹھ گئے۔
بہرحال اگر ہر گزشتہ پنج سالہ منصوبے پر واقعی دعووں اور قلابوں کے مطابق عمل ہو جاتا تو آج ہم کم ازکم جنوبی کوریا کے ہم پلہ ہوتے۔ (جنوبی کوریا ہمارے اپنے دعوے کے مطابق ہمارے ہی دوسرے پنج سالے کی نقل کر کے 10 ویں بڑی عالمی معیشت بن گیا)۔
یہ بھی پڑھیں: شاید افغانوں میں ہی کوئی خامی ہے
جبکہ اتنی منصوبہ بندی کرنے کے باوجود ہم آج دنیا کے 5 ویں گنجان ملک کا اعزاز تو چھین چکے ہیں مگر حجم کے اعتبار سے عالمی معیشت کے 47 ویں پائیدان پر اور سماجی ترقی کے انڈیکس میں لگ بھگ 10 انتہائی پسماندہ ممالک سے کچھ درجے ہی اوپر ہیں۔
سابقہ منصوبوں کی طرح اڑان پاکستان منصوبے کی پرواز بھی توقعات کے آسمان پر ہو رہی ہے۔ یعنی شفاف گورننس کے لیے جب ای گورنمنٹ ہو گی تب سرمایہ کار پاکستان کی جانب متوجہ ہوں گے۔ ان کے جوق در جوق اترنے سے معیشت کا پہیہ تیز ہوتا جائے گا تو بے روزگاری کا مسئلہ بھی حل ہونے لگے گا اور پھر پاکستان کی معیشت درآمدی مال تیار کر کے باہر بھیجے گی اور اس سے جو پیسہ اندر آئے گا وہ انفراسٹرکچر پر لگے گا۔ یوں لوگوں کا معیارِ زندگی بھی بڑھتا چلا جائے گا۔ (اس کے لیے اوپر سے نیچے تک تقسیمِ دولت و فوائد کا اہرام کیسے تعمیر ہو گا؟ اس کے ٹھوس جواب کا سب کو انتظار ہے)۔
بہرحال جب خوشحالی بڑھے گی تو مزاج کی تلخی کم ہو گی اور اس کے سبب داخلی اعتبار سے جتنے لاینحل سماجی و سیاسی و وفاقی مسائیل ہیں وہ بھی بتدریج حل ہونے لگیں گے۔ یوں ہم سب ہنسی خوشی رہنے کے قابل ہو جائیں گے۔
بدقسمتی سے میں اڑان پاکستان منصوبے کا مکمل خاکہ تو نہیں پڑھ سکا۔ البتہ ٹی وی پر اس بابت کروڑوں روپے کے اشتہارات کی بھرمار سے یقین ہو چلا ہے کہ واقعی یہ سرکار بھی سابق سرکاروں کی طرح انتہائی سنجیدہ ہے کہ کسی طرح یہ ملک ایک بھرپور اڑان بھر لے۔ دلکش اشتہارات مجھے اکسا رہے ہیں کہ ’میں پرندہ کیوں بنوں مجھے آسماں بننا ہے‘۔
میرے جیسے چھٹ بھئیے البتہ یہ ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ یہ اڑان بھروانے کے لیے برق رفتار شہباز شریف، ماہرِ سرمایہ کاری و سفارت کاری اسحاق ڈار، وزیرِ خزانہ محمد اورنگ زیب، وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال اور اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل ( ایس آئی ایف سی)، متعلقہ نوکر شاہی، صوبائی حکومتیں اور برسرِ اقتدار اتحاد کے زعماِ کرام کیا درجِ زیل نکات پر متفق ہو چکے ہیں؟
اول ) بامقصد، جدید تقاضوں کے مطابق ہنرمند افرادی قوت چونکہ اس اڑان کے لیے رن وے کا کام دے گی۔ لہٰذا اگلے بجٹ سے تعلیم کے شعبے کے لیے قومی آمدنی کا کم از کم 4 فیصد سالانہ ضرورمختص ہونے لگے گا۔
دوم ) اڑان بھرنے کے لئے افرادی قوت کا جسمانی و زہنی طور پر فٹ ہونا بھی ضروری ہے تاکہ لاکھوں پیداواری گھنٹے غیر ضروری ضائع نہ ہوں۔ اس کے لیے بھی صحت کا سالانہ بجٹ کیا قومی آمدنی کے کم ازکم 4 فیصد کے مساوی ہونے والا ہے ؟
سوم) ایسی اڑان بھرنے والے دیگر علاقائی ممالک کی ہمسری کی خاطر کیا بے تحاشا آبادی کے تناسب کو کم کر کے ایک فیصد سالانہ اضافے کی سطح تک لایا جا سکے گا؟
چہارم) ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ سی پیک منصوبے کے تحت جو بارہ پیداواری، صنعتی و تجارتی زونز گلگت سے گوادر تک بننے تھے وہ تکمیل کے کس مرحلے میں ہیں۔ مگر جو بھی دیسی بدیسی ارب پتی پاکستان میں اپنا سرمایہ لگائے گا وہ پانی، بجلی، گیس اور پیداواری زون سے بندرگاہ تک برق رفتار مواصلاتی نظام اور بین الاقوامی معیار کی فعال تجارتی بندرگاہیں ضرور تلاش کرے گا۔ اس کا کیا سوچا ہے؟
مزید پڑھیے: خوشی خوشی کون زمین چھوڑتا ہے؟
کیا یہ بنیادی ضرورتیں سرمایہ کار کے آنے کے بعد مکمل ہوں گی یا پہلے مکمل ہوں گی تاکہ سرمایہ کار کو یقین ہو سکے کہ اس کا پیداواری پہیہ کم ازکم ان بنیادی سہولتوں کی عدم موجودگی یا خستہ کاری کے سبب نہیں رکے گا؟
پنجم) ایسا نہیں کہ سرکار نے سرمایہ کار کو راغب کرنے کے لیے کچھ شو کیس منصوبے نہیں بنائے۔ مثال کے طور پر گوادر میں پاکستان کا سب سے بڑا ایئرپورٹ تعمیر کیا گیا ہے۔ گوادر بندرگاہ کی گودیاں بھی سنہ 2006 سے تجارتی جہازوں کی قطار کو گود لینے کے لیے بے چین ہیں۔ مگر ان سب کی راہ میں ایک معمولی سی اڑچن ہے۔ اور وہ ہے امن و امان کے بارے میں بے یقینی و دہشت گردی کا معاملہ۔
بہترین انفراسٹرکچر ہو مگر یہ ضمانت نہ ہو کہ کل دوپہر کو سرمایہ کار اغوا یا ہلاک نہیں ہوگا اور اس کے پروجیکٹ پر حملہ نہیں ہو گا۔ کیا سرمایہ کار اس بابت ریاست کی ’فول پروف‘ یقین دہانیوں پر اعتبار کرنے کے لیے اب تیار ہو جائے گا یا پھر اڑان بھرنے نہ بھرنے کے لیے اپنے سفارتخانے کی سیکیورٹی ہدایات پر زیادہ کان دھرے گا؟
یقیناً جس دن مقامی سرمایہ کار یا سمندر پار پاکستانیوں نے ریاستی وعدوں پر اعتبار کرتے ہوئے اڑان پاکستان کے خواب میں رنگ بھرنے شروع کیے تو بڑے عالمی سرمایہ کاروں کے سامنے بھی ہم سینہ ٹھونک کے کہہ سکیں گے کہ امن و امان اور سرمایہ کاری کے تحفظ کے قوانین اپنا اپنا کام بخوبی کر رہے ہیں۔ لہٰذا بے فکر ہو کر تشریف لائیے۔ خود بھی کمائیے اور ہماری معیشت کو بھی کموائیے۔
ششم) ہو سکتا ہے کہ سرمایہ لانے والا انٹرنیٹ سروسز کی موجودہ صورتِ حال کے سبب باقی دنیا سے کنیکٹوٹی کے بارے میں بھی آپ سے کوئی سوال کر بیٹھے۔
سب جانتے ہیں کہ معیشت کا کوئی بھی شعبہ 21 ویں صدی میں معیاری و مسلسل ڈیجیٹل کمیونیکیشن سروسز کے بغیر چلانا ناممکن ہے۔ کیا آپ کے پاس اس بابت متوقع سرمایہ کار کے تمام بنیادی سوالوں کے ایسے منطقی جواب تیار ہیں کہ انہیں سننے کے بعد وہ میز پر ہاتھ مار کے کہے کہ ’ڈیل از ڈن‘۔ میں اپنی مہارت، سرمایہ اور پیداوار پاکستان شفٹ کرنے کے لیے ابھی تیار ہوں۔
مزید پڑھیں: انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کا کیا کریں؟
(عالمی بینک نے بھی اگلے 10 برس کے دوران ہمیں 20 ارب ڈالر دینے ہیں۔ اس نے بھی اڑان پاکستان کے بارے میں کچھ بنیادی استفسارات کیے ہیں۔ احسن اقبال صاحب نے اپنے تئیں تسلی بخش جوابات تو دیے ہیں۔ اللہ کرے عالمی بینک ان سے مطمئن بھی ہوجائے)۔
اگر مذکورہ سب باتوں کا جواب اثبات میں ہے تو پھر اڑان پاکستان کوئی نہیں روک سکتا۔ بصورتِ دیگر ایک پیشگی سورہِ فاتحہ اس پنج سالہ منصوبے کے لیے بھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں
’اڑان پاکستان‘ پاکستان کا پنج سالہ منصوبہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اڑان پاکستان پاکستان کا پنج سالہ منصوبہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب پنج سالہ منصوبے اڑان پاکستان سرمایہ کار کرنے کے ہیں کہ کے لیے اور اس
پڑھیں:
ایران جوہدری معاہدہ کرلے ورنہ اگلے حملے مزید وحشیانہ ہونگے، ٹرمپ نے ایرانی کو دھمکی دیدی
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13جون 2025)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو دھمکی دی ہے کہ وہ جوہری معاہدہ کرلے ورنہ اگلے حملے مزید وحشیانہ ہونگے،ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کیلئے ممکنہ تباہ کن نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایران نے فوری طور پر معاہدے پر عمل نہ کیا تو جسے کبھی ایرانی سلطنت کہا جاتا تھاسب ختم ہوجائے گا،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹرتھ“پر جاری کردہ ایک پیغام میں کہا ہے کہ انہوں نے ایران کو ایک کے بعد ایک موقع دیا کہ وہ معاہدہ کرلے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ایران کو کہا تھا معاہدہ کرلو لیکن انہوں نے نہیں کیا۔ معاہدے کی کوششیں ہوئیں۔ معاہدے کے قریب بھی پہنچے لیکن وہ معاہدہ نہ ہوسکا۔نانہوں نے کہا کہ ایران کے کچھ سخت گیر عہدیداروں نے بہادری سے بات کی لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ کیا ہونے والا ہے۔(جاری ہے)
سب سخت گیر ایرانی اب مر چکے اور اب آگے بھی بدتر ہی ہوگا۔ ٹرمپ کے مطابق انہوں نے ایران کو پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ جو کچھ ہونے والا ہے وہ ان کی توقعات، معلومات یا اندازوں سے کہیں زیادہ تباہ کن ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکہ دنیا میں سب سے مہلک ہتھیار بناتا ہے اور اسرائیل کے پاس ان ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ ہے اور وہ اسے چلانا جانتے ہیں لہٰذا وقت ہے کہ اس صورتحال کا خاتمہ کیا جائے ورنہ پہلے سے طے شدہ حملے زیادہ سنگین ہوں گے۔ بلکہ مزید بھی آرہا ہے اور اسرائیل کو اسے مؤثر انداز میں استعمال کرنا بھی بخوبی آتا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب تک کئی ہلاکتیں اور تباہی ہوچکی ہے لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ اس قتل عام کو روکا جاسکے۔ کیونکہ آئندہ حملے پہلے سے بھی زیادہ سنگین ہوں گے۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ایران کو معاہدہ کرنے کاموقع دینے کے بعد ایک اور موقع دیاگیا ایران کومعاہدہ کرلینا چاہیے اس سے پہلے کہ کچھ نہ بچے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاکہنا تھا کہ ایران پر حملوں کے بارے میں پہلے سے آگاہ تھا اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ امریکہ اس میں ملوث نہیں تاہم ضرورت پڑنے پر اسرائیل کے دفاع میں مدد فراہم کرے گا۔امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صدرڈونلڈٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر نظر ثانی کرے گا اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی راہ اپنائے گا۔ایران کے پاس ایٹم بم نہیں ہوسکتا تھا۔ ایران پر ہونے والے اسرائیلی حملے پر بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھاکہ قیادت میں بہت سے لوگ ہیں جو کبھی واپس نہیں آئینگے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالات کا جائزہ لینے کیلئے کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا تھا۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ اجلاس اسرائیل کے ایران پر حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر بلایا گیا تھا۔ٹرمپ نے دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ علاقائی کشیدگی میں امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور ایران نے جوابی کارروائی کی تو امریکا اسرائیل کا دفاع کرے گا۔ ایران کو جوہری ہتھیاروں سے روکنا امریکا کی ترجیح ہے، جوہری طاقت بننے سے روکنا ضروری تھا۔