Daily Ausaf:
2025-06-09@13:11:14 GMT

حکومت کا 8 فروری یوم تعمیر وترقی کے طور پر منانے کا اعلان

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے 8 فروری کو یوم تعمیر و ترقی کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔واضح رہے کہ 8 فروری 2024 کو ملک بھر میں عام انتخابات منعقد ہوئے تھے، عمران خان نے اس دن یوم سیاہ منانے کا اعلان کر رکھا ہے، وہ با رہا الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا مار کر فارم 47 کی جعلی حکومت مسلط کر دی گئی۔اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ سال کامیابیوں کا سال ہے، اسپورٹس مین اسپرٹس سے ہی معاملات اچھے طریقے سے آگے بڑھتے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اب ہم چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنے جا رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اتنے عرصے کے بعد اتنے بڑے ٹورنامنٹ کا پاکستان میں ہونا خوش نصیبی ہے، ہمارے کرکٹ گراؤنڈز میں رونقیں لوٹ آئیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی تمام بہترین ٹیمیں پاکستان آئیں گی، شائقین کو بہترین کرکٹ دیکھنے کو ملے گی، مزید کہنا تھا کہ چیمپئنز ٹرافی کے حوالے سے تمام انتظامات مکمل ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ معیشت کے حوالے سے اچھی خبریں آرہی ہیں، مہنگائی کم ہو رہی ہے، شرح سود نیچے جا رہی ہے، اسٹاک مارکیٹ اوپر جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے 8 فروری کو یوم تعمیر و ترقی کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے، اسی طرح اچھا کردار ادا کرنے والے افراد کو بلا کر ایوارڈز دیے جائیں گے، ملک کے نوجوانوں کی خدمات کا اعتراف کیا جائے گا، انتخابات کے بعد یہ سال بہت اہم ثابت ہوا ہے۔

چیمپیئنزٹرافی:بھارت نے میزبان پاکستان کا نام جرسی پر لکھنے سے انکار کردیا

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: منانے کا اعلان

پڑھیں:

داعش خراسان کا بی ایل اے کے خلاف اعلانِ جنگ، پاکستان کے لئے اچھی خبر یا بری؟

اسلام ٹائمز: اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔ پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ تحریر: محمد عامر رانا

بلوچ باغیوں کی جانب سے دہشتگردانہ حملوں میں اضافے اور اب داعش خراساں کی تنازع میں خاموش مگر حساب کے مطابق شمولیت کے بعد سے بلوچستان کا سیکیورٹی منظرنامہ تیزی سے پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک غیرمتوقع اقدام کے تحت داعش خراساں نے اپنے قوم پرست ایجنڈوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے نہ صرف پاکستانی ریاست بلکہ اپنی صفوں میں موجود باغیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔ حال ہی میں داعش خراساں نے پاکستان میں نسلی لسانی قوم پرست تحریکوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک کتابچہ جاری کیا جس میں واضح طور پر بلوچ اور پختون قوم پرست تحریکوں کو نشانہ بنایا گیا۔ گروپ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کے رہنما منظور پشتین پر بھی تنقید کی۔ ایسا کتابچہ جاری کیا جانا ہی اپنے آپ میں تشویش ناک تھا۔

تاہم اگلے دن داعش خراساں نے ایک آڈیو جاری کرکے معاملات کو مزید کشیدہ کیا جس میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر بلوچستان کے ضلع مستونگ میں اپنے جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے الزام کو جواز بنا کر بلوچ باغیوں کے خلاف باضابطہ اعلانِ جنگ کیا۔ اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔

پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ 2016ء سے اب تک داعش خراساں بلوچستان میں 33 دہشتگرد حملوں میں ملوث رہی ہے جن کے نتیجے میں 436 افراد ہلاک اور 691 زخمی ہوئے۔ مزارات اور گرجا گھر اس کے بنیادی اہداف میں شامل رہے ہیں۔ داعش خراساں نے مزارات اور گرجا گھروں پر 8 حملے کیے ہیں جبکہ سیاسی شخصیات بالخصوص جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) سے وابستہ سیاستدان اس کی ہٹ لسٹ میں سرفہرست رہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز اور پولیو ہیلتھ ورکرز بھی اس کے اہداف میں شامل رہے ہیں۔

جے یو آئی کے کئی سینئر رہنماؤں پر داعش خراساں نے بلوچستان میں حملہ کیا گیا جن میں مولانا عبدالغفور حیدری، حافظ حمد اللہ اور مولانا عبدالواسع شامل ہیں۔ اس نے سبی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار کو بھی نشانہ بنایا جبکہ سب سے خطرناک حملہ سابق صدر عارف علوی پر قاتلانہ حملہ تھا، جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ اس گروپ نے قوم پرست رہنماؤں اور ریاست نواز سیاستدانوں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سراج رئیسانی کو 2018ء کی انتخابی مہم کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔ اس گروپ کی ایک اور اہم کارروائی مستونگ میں چینی شہریوں کا اغوا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان میں بھی داعش خراساں کی کارروائیاں مخصوص علاقوں تک ہی محدود ہیں۔ خیبرپختونخوا میں اس کی سرگرمیاں زیادہ تر قبائلی ضلع باجوڑ اور پشاور تک محدود ہیں جہاں اس نے بالترتیب 36 اور 19 حملے کیے ہیں۔ داعش خراساں، اسلام کی سلفی مکتبہ فکر کی سختی سے پیروی کرتا ہے جو باجوڑ اور افغانستان کے ہمسایہ علاقوں جیسے کنڑ اور نورستان میں بھی رائج ہے۔ یہ افغان علاقے جہاں داعش خراساں کی گرفت مستحکم ہے، ان کی پاکستان کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں، تاہم بلوچستان میں اس کے آپریشنل حالات مختلف ہے۔

داعش خراساں کی سرگرمیاں صوبے کے وسطی مغربی حصے میں، کوئٹہ کے مضافات سے مستونگ، قلات اور خضدار کے کچھ حصوں پر مرکوز ہیں۔ مستونگ سے اس کی کارروائیاں بولان تک پھیلی ہوئی ہے اور سندھ کی سرحد سے متصل ضلع سبی تک اس کا دائرہ موجود ہے۔ ایک موقع پر سندھ کے محکمہ انسدادِ دہشتگردی نے رپورٹ کیا کہ داعش خراساں نے صوبائی سرحد کے قریب بلوچستان میں تربیتی کیمپ قائم کیے ہیں اور وہ سندھی نوجوانوں بالخصوص براہوئی قبائل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو استعمال کرکے سندھ میں دہشتگردی برآمد کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹس فروری 2017ء میں سیہون شریف کے مشہور مزار پر داعش خراساں کے دہشتگردانہ حملے کی تحقیقات کے بعد منظر عام پر آئیں۔

مستونگ اور کوئٹہ کے مضافات داعش خراساں کے بڑے مرکز کے طور پر کام کرتے ہیں جہاں اس نے بالترتیب 12 اور 10 حملے کیے ہیں۔ یہ قلات، بولان اور خضدار میں بھی موجود ہے جو قریب ہی واقع ہیں۔ ان علاقوں میں زیادہ تر بلوچ کمیونٹیز آباد ہیں جن میں سے اکثر مذہبی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ جے یو آئی کو یہاں مضبوط سیاسی حمایت حاصل ہے اور کچھ ماہرین اس مذہبی جھکاؤ کو پاکستان میں انضمام سے پہلے ریاست قلات کی دیوبندی مدارس کی سرپرستی کی پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔ خیر وجوہات سے قطع نظر، بلوچستان میں مختلف اسلامی تحریکوں بشمول تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور شیعہ تنظیموں کے درمیان مسابقت بڑھ رہی ہے۔

شیعہ مدارس نے گزشتہ 15 سالوں میں خطے میں اپنی موجودگی کے دائرے کو وسعت دی ہے۔ بالخصوص لشکر جھنگوی (جو بعد میں داعش خراساں میں ضم ہوگئی) جیسے گروہوں کی جانب سے شیعہ زائرین پر حملے، مستونگ اور نوشکی اضلاع سے گزرنے والے راستوں پر کیے گئے۔ ماضی میں اکثر یہاں قافلوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ٹی ایل پی نے بھی اس خطے میں اپنے قدم جما لیے ہیں۔ اس نے بنیادی طور پر کراچی سے، کوئٹہ-کراچی ہائی وے کے ساتھ ساتھ اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ کراچی میں رہنے والے اس علاقے کے کچھ بلوچ باشندوں نے اس اثر و رسوخ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بہر حال، جے یو آئی خطے میں ایک غالب سیاسی قوت ہے اور اس کے پاس اہم انتخابی طاقت موجود ہے۔

داعش خراساں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جے یو آئی کو نشانہ کیوں بناتا ہے، یہ انتہائی واضح ہے۔ یہ گروپ جے یو آئی کو پاکستان میں طالبان کے قریبی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے سے پہلے افغان طالبان اور داعش خراساں کے درمیان مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔ دونوں گروہوں کے درمیان اہم فرق ریاستی ڈھانچے اور خلافت کے تصور کے حوالے سے ان کے خیالات میں ہے۔

داعش خراساں کا ماننا ہے کہ طالبان قوم پرست تحریک ہے جو مغرب کی اتحادی ہے جبکہ پاکستان، دیگر مسلم ریاستوں اور طالبان کے طاقتور اشرافیہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ داعش خراساں کے نزدیک قوم پرستی غیراسلامی تصور ہے اور اب اس نے اپنی کارروائیوں کے دائرے کو ملک میں پُرتشدد اور پُرامن دونوں طرح کی قوم پرست تحریکوں تک پھیلا دیا ہے۔ یہ پیشرفت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قوم پرستوں اور انسانی حقوق کی تحریکوں کے لیے خطرے کو بڑھا دے گی جبکہ اسلام پسند عسکریت پسندوں اور قوم پرست باغیوں کے درمیان ممکنہ جھڑپوں کو بھی متحرک کرے گی۔

اب تک دونوں فریقین نے تصادم سے گریز کیا تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ایسے علاقوں میں سرگرم ہیں کہ جہاں بیک وقت دونوں گروپس کارروائیاں کررہے ہیں۔ تاہم ان حرکیات میں تبدیلی کا امکان ہے۔ اگرچہ بی ایل اے نے اپنی آپریشنل کارروائیوں کو صوبے کے بیشتر حصوں میں وسعت دی ہے لیکن داعش خراساں بنیادی طور پر مستونگ اور اس کے اردگرد کے علاقوں تک محدود ہے۔ اس سب کے باوجود اس کی موجودگی بی ایل اے کے لیے ایک اہم خلفشار بن سکتی ہے۔

یہ غیر یقینی ہے کہ آیا یہ ریاست کے سیکیورٹی اداروں کے لیے اچھی خبر ہے یا نہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ اسے ایک تنازع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جو بیک وقت دو مخالفین کو کمزور کرسکتا ہے لیکن حقیقت اس سے زیادہ پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ داعش خراساں کی جانب سے اپنی آپریشنل حکمت عملی کو ترک کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے بجائے، یہ گروہ حالات سے موافق ہوسکتا ہے اور خود کو مزید بڑھا سکتا ہے جو بلوچستان میں پہلے سے غیر مستحکم سیکیورٹی منظرنامے کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بنے گا۔

اصل تحریر کا لنک:
https://www.dawn.com/news/1914647/is-k-in-balochistan

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف نے معیشت کو آئی سی یو سے نکال آپریشن تھیٹر میں ڈال دیا : ماہر معاشی امور
  • افغان طالبان نے مغرب نواز شہریوں کیلئے عام معافی کا اعلان کر دیا
  • پاکستان میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے اعلیٰ سطحی اجلاس
  • پاکستان میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس
  • ملک میں ڈیمز کی تعمیر کیلئے اجلاس، منصوبہ بندی کیلئے سفارشات پیش
  • طالبان حکومت کا عیدالاضحیٰ پر ملک چھوڑنے والے مغرب نواز افغانوں کیلئے عام معافی کا اعلان
  • مسجد الاقصیٰ پر تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر، وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے
  • داعش خراسان کا بی ایل اے کے خلاف اعلانِ جنگ، پاکستان کے لئے اچھی خبر یا بری؟
  • وفاق سے 700 ارب ملنے کے باوجود خیبرپختونخوا حکومت قیام امن میں ناکام ہے، فیصل کریم کنڈی
  • عبوری حکومت کا بنگلہ دیش میں آئندہ عام انتخابات اگلے سال اپریل میں منعقد کرنے کا اعلان