اور ٹرمپ آگیا میدان میں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کا حلف اٹھا کر کام شروع کر دیا ہے۔ صدارت کا منصب سنبھالتے ہی انھوں نے بہت سے احکامات پردستخط کیے ہیںجو ان کی صدارتی پالیسی کے عکاس ہیں۔ ان احکامات میں فی الحال پاکستان کے لیے کچھ نہیں ہے۔ نہ کوئی اچھی بات ہے اور نہ کوئی بری بات ہے۔ فی الحال پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آرہا۔ اس لیے حکومت پاکستان کے لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ تا ہم تحریک انصاف کے لیے کافی فکر کی بات ہے۔ ان کو ٹرمپ سے جو امیدیں ہیں وہ پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ٹرمپ کی کئی پالیسیاں ریاست پاکستان کے لیے بہتر ہیں۔ اب آپ میکسیکو کے بارے میں ٹرمپ پالیسی کو دیکھیں، وہ ہزاروں نہیں لاکھوں غیر قانونی میکسیکنز کو واپس بھیجنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے میکسیکو کی سرحد پر فوج لگانے کے احکامات دیے ہیں۔ آپ اس کو پاک افغان سرحد کے تناظر مین دیکھیں، جب ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو کے لوگوں کو ملک سے نکال رہے ہیں تو پاکستان کو غیر قانونی افغانوں کے نکالنے پر کیسے روک سکتے ہیں۔
پاکستان اب زیادہ سختی سے غیر قانونی مقیم افغانوں کو نکال سکتا ہے۔ اگرا مریکہ میکسیکو سے لوگوں کی آمد روکنے کے لیے سرحد پر فوج تعینات کر رہا ہے، سرحدی باڑ لگا رہا ہے، سرحد کو سیل کر رہا ہے، سرحدی دیوار تعمیر کرنا چاہتا تو پاکستان اٖفغان سرحد کیوں نہیں بند کر سکتا ۔ ہم کیوں باڑ نہیں لگا سکتے۔
ہم کیوں بارڈر سیل نہیں کر سکتے۔ ہم کیوں نہیں دیوار تعمیر کرسکتے۔ امریکا نے میکسیکو کے لیے جو پالیسی بنائی ہے، پاکستان وہی پالیسی افغانستان کے لیے بنا رہا ہے۔ اس لیے مجھے تو کافی قدر مشترک نظر آئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کو اب افغان سرحد پر کارروائی کے لیے امریکیوں کی حمایت حاصل ہوگی۔ جب ٹرمپ نے جرائم پیشہ افرا د کو ان کے ممالک میں واپس بھیجنے کا اعلان کیا ہے تو پاکستان بھی جرائم میں ملوث افغانیوں کو ان کے ملک واپس بھیج سکتا ہے۔
ٹرمپ کی پالیسی میں افغانستان کی طالبان حکومت کے ڈالر بند کرنے کا اعلان بھی شامل ہے۔ یہ بھی پاکستان کے لیے خوش آیند ہے۔ ان ڈالروں کی وجہ سے افغا ن طالبان پاکستان کے خلاف جنگ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ٹی ٹی پی کو پناہ دینے اور وہاں سے حملوں میں ان ڈالروں کی گرمی شامل تھی۔ جیسے جیسے یہ ڈالر بند ہوںگے پاکستان کے لیے افغان طالبان کے ساتھ بات کرنا اور اپنی بات منوانا آسان ہو جائے گا۔ ہمیں افغان طالبان کے بدلے ہوئے رویے بھی نظر آئیں گے۔ اس لیے ٹرمپ کی یہ پالیسی بھی پاکستان کے حق میں ہے۔ ہمیں اسے خوش آیند قرار دینا چاہیے۔
رچرڈ گرنیل کا صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹوئٹ سامنے آیا ہے۔ لیکن اس میں بانی تحریک انصاف کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ انھیں وینز ویلا کے لیے خصوصی نمایندہ مقرر کیا گیا ہے۔ اب ان کا پہلا ٹوئٹ ان کی اسائنمنٹ کے بارے میں ہی تھا۔ انھوں نے اب بانی تحریک انصاف کے بارے میں کوئی ٹوئٹ نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے دوستوں کے لیے یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ اگر وہ ایک ٹوئٹ کر دیتے تو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کو چار چاند لگ جاتے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ انھوں نے ایک نہیں کافی ٹوئٹس کیے ہیں۔ لیکن بانی تحریک انصاف کے بارے میں ایک بھی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ بانی کو بھول ہی گئے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے امریکا میں سیاسی پناہ لینے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ پاکستان سے ملک دشمن لوگ سیاسی پناہ کے لیے امریکا جاتے ہیں۔ اور وہاں سیاسی پناہ کے کیس دائر کرتے ہیں۔ کچھ صحافی جان بوجھ کر فوج اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرکے امریکا میں سیاسی پناہ کا کیس کرتے ہیں۔
وہاں سیاسی پناہ بند ہونے سے بھی پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ ملک دشمنوں نے امریکا کو جو جنت بنایا ہوا تھا، وہ ختم ہوگا۔ مجھے تو یہ بھی پاکستان کے مخصوص حالات میں بہتر لگ رہا ہے۔ کافی لوگوں کو امریکا سے بوریا بستر گول کرنا ہوگا۔ بلکہ انھیں اپنے سیاسی پناہ کے کیس مسترد ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس سے پہلے برطانیہ نے بھی سیاسی پناہ کے لیے قوانین سخت کیے ہیں۔ لیکن امریکی صدر ٹرمپ کا اعلان کافی معنی خیز ہے۔
ٹرمپ اور یورپ کے درمیان سرد جنگ کا آغاز نظر آرہا ہے۔ پیرس معاہدہ سے علیحدگی کے علاوہ نیٹو پر ٹرمپ کی پالیسی بھی یورپ کے لیے کافی خطرناک ہے۔ یورپ میں خطرہ کی گھنٹیاں نظر آرہی ہیں۔ یورپ کو اب نئے اتحادیوں کی ضرورت ہوگی۔ ورنہ جنگ عظیم دوئم کے بعد یورپ امریکا کی گود میں نظر آیا ہے۔
یورپ اور امریکا کے اتحاد نے دنیا میں امریکا کی حاکمیت قائم کرنے میں اہم کردار اد اکیا ہے۔ کیا یورپ امریکا سے علیحدہ ہو سکتا ہے۔لیکن ایسے میں یورپ کے پا س کیاآپشنز ہیں۔ فرانس کے صدر نے پہلے ہی اعلان کیا ہے کہ یورپ کو امریکی اسلحہ کے علاوہ بھی اسلحہ کے آپشنز دیکھنے ہوںگے۔ لیکن وہ کیا ہو سکتے ہیں؟ امریکا نے سرد جنگ میں یورپ کو روس کے خلاف بھر پور استعمال کیا ہے۔ ورنہ یورپ اور روس کے اچھے تعلقات بھی ہو سکتے تھے۔ ٹرمپ کی نئی پالیسیاں کیا یورپ اور روس کے فاصلے کم کر دیں گی۔ کیا چین کو بھی یورپ کے قریب آنے کا موقع ملے گا؟ یہ سب بہت دلچسپ ہوگا۔ تا ہم پاکستان کا اس سارے تنازعہ سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔
چین اور امریکا کے درمیان بھی معاشی جنگ نظر آرہی ہے۔ یہ جنگ پہلے بھی موجود ہے لہٰذا یہ کوئی نئی جنگ نہیں ہوگی۔ ٹرمپ کی پالیسیاں چین کے لیے نئی نہیں ہوںگی۔ چین اس کے لیے تیار ہے۔ چین نے اب تک ثابت کیا ہے کہ اسے معاشی جنگ سے نبٹنا اور اس میں راستے نکالنا آتا ہے۔ وہ ڈپلومیسی سے راستے نکالتا ہے۔ اس نے اب تک راستے ہی نکالے ہیں۔ کیا اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ لیکن جہاں چین سے معاشی جنگ نظر آرہی ہے۔ وہاں روس کے لیے بھی بہت سے روشن امکانات ہیں۔ روس یوکرین جنگ کے خاتمہ پر کیا امریکا سے کچھ رعائتیں حاصل کر لے گا۔ روس کو تیل بیچنا ہے۔
روس کو اپنے اوپر سے پابندیاں ختم کرنی ہیں۔ کیا ٹرمپ یہ سب راستے دیں گے؟ اس لیے یوکرین جنگ کا خاتمہ جہاں یورپ کے لیے اہم ہوگا۔ وہاں روس کو بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا مل رہا ہے۔ ٹرمپ کا پوٹن کے لیے نرم گوشہ کوئی خفیہ نہیں ہے۔ اس لیے روس کو معاشی نرمیاں مل سکتی ہیں۔ ٹرمپ کی یورپ پالیسی کا براہ راست فائدہ روس کو بھی ہوگا۔
ٹرمپ نے ابھی تک بھارت کے لیے بھی کوئی خاص نرم گوشہ نہیں دکھایا ہے۔ بائیڈن حکومت کا بھارت کے لیے کافی نرم گوشہ تھا۔ لیکن ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ ٹرمپ مودی کی پالیسیوں سے کوئی خاص خوش نہیں ہیں۔ ٹرمپ کی بھارت پالیسی پاکستان کے لیے بہت اہم ہوگی۔ ایسی خبریں آئی ہیں کہ مودی ٹرمپ کی حلف برداری میں جانا چاہتے تھے۔ لیکن مدعو نہیں کیا گیا۔ تاہم بھارتی وزیر خارجہ مدعو تھے۔ ابھی تک ٹرمپ نے بھارت کے حوالے سے کوئی پالیسی واضح نہیں کی ہے۔
اس لیے پاکستان کے لیے ابھی ٹرمپ کوئی خطرناک نہیں ہیں۔ ہمیں ٹرمپ کو دوست ہی سمجھنا چاہیے۔ ابھی تک پاکستان مخالف کچھ نہیں ہے۔ ہم اہم نہیں ہیں۔ یہی ہماری خوش قسمتی ہے، اسی پر گزارہ کرنا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کے لیے تحریک انصاف کے سیاسی پناہ کے بھی پاکستان کے بارے میں کی پالیسی انھوں نے یورپ کے نہیں ہے روس کو روس کے اس لیے کیا ہے رہا ہے
پڑھیں:
کینیڈا الیکشن،50سے زائد پاکستانی بھی میدان میں اتر گئے
کینیڈا الیکشن،50سے زائد پاکستانی بھی میدان میں اتر گئے WhatsAppFacebookTwitter 0 24 April, 2025 سب نیوز
ٹورنٹو (سب نیوز)کینیڈا میں 28اپریل کو وفاقی انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس میں پاکستانی نژاد امیدوار بھی ریکارڈ تعداد میں حصہ لے رہے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق پاکستانی نژاد کینیڈین سب سے زیادہ لبرل پارٹی آف کینیڈا کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے ہیں جن کی تعداد 15ہے۔نیو ڈیموکریٹک پارٹی نامی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر بھی 10کے قریب پاکستانی نژاد امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ایک اور سیاسی جماعت سنٹرسٹ پارٹی کے سربراہ بھی پاکستانی نژاد ہیں اور جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے بیشتر امیدواروں کا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔
سنٹرسٹ پارٹی کے سربراہ کی صاحبزادی زینب رانا بھی الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں جو گریڈ 12 کی طالبہ ہیں اور اس وقت سب سے کم عمر امیدوار ہیں۔ان تین جماعتوں کے علاوہ گرین پارٹی آف کینیڈا سے طالبہ افرا بیگ سمیت 3 پاکستانی امیدوار بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح ایک اور جماعت کمیونسٹ پارٹی سے 1 پاکستانی نژاد امیدوار سلمان ظفر اور پیپلز پارٹی آف کینیڈا کے نجیب بٹ بھی میدان میں اتر چکے ہیں۔
جماعتی بنیادوں پر الیکشن لڑنے والوں کے ساتھ ساتھ 5 پاکستانی نژاد امیدوار آزاد حیثیت سے بھی الیکشن لڑیں گے۔یاد رہے کہ پاکستانی نژاد امیدواروں میں سے 5 امیدوار سلمی زاہد، اقرا خالد، شفقت علی، یاسر نقوی اور سمیر زبیری ارکانِ پارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرلگتا ہے مودی نے بالا کوٹ کی غلطی سے کچھ نہیں سیکھا ، اسد عمر کا بھارتی بڑھکوں پر ردعمل لگتا ہے مودی نے بالا کوٹ کی غلطی سے کچھ نہیں سیکھا ، اسد عمر کا بھارتی بڑھکوں پر ردعمل بھارتی اقدامات کے خلاف اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن کے باہر احتجاجی مظاہرہ پہلگام واقعہ، واگلہ بارڈر پر روایتی پریڈ محدود کرنے کا فیصلہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی،بھارت خطے کو جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے، شرجیل میمن پاکستان کا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر عالمی فورمز سے رجوع کرنے کا فیصلہ بھارت کی اوچھی حرکت، حکومت پاکستان کا سوشل میڈیا اکاونٹ بلاک کر دیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم