Express News:
2025-09-18@14:10:16 GMT

اور ٹرمپ آگیا میدان میں

اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT

ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کا حلف اٹھا کر کام شروع کر دیا ہے۔ صدارت کا منصب سنبھالتے ہی انھوں نے بہت سے احکامات پردستخط کیے ہیںجو ان کی صدارتی پالیسی کے عکاس ہیں۔ ان احکامات میں فی الحال پاکستان کے لیے کچھ نہیں ہے۔ نہ کوئی اچھی بات ہے اور نہ کوئی بری بات ہے۔ فی الحال پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آرہا۔ اس لیے حکومت پاکستان کے لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ تا ہم تحریک انصاف کے لیے کافی فکر کی بات ہے۔ ان کو ٹرمپ سے جو امیدیں ہیں وہ پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ٹرمپ کی کئی پالیسیاں ریاست پاکستان کے لیے بہتر ہیں۔ اب آپ میکسیکو کے بارے میں ٹرمپ پالیسی کو دیکھیں، وہ ہزاروں نہیں لاکھوں غیر قانونی میکسیکنز کو واپس بھیجنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے میکسیکو کی سرحد پر فوج لگانے کے احکامات دیے ہیں۔ آپ اس کو پاک افغان سرحد کے تناظر مین دیکھیں، جب ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو کے لوگوں کو ملک سے نکال رہے ہیں تو پاکستان کو غیر قانونی افغانوں کے نکالنے پر کیسے روک سکتے ہیں۔

پاکستان اب زیادہ سختی سے غیر قانونی مقیم افغانوں کو نکال سکتا ہے۔ اگرا مریکہ میکسیکو سے لوگوں کی آمد روکنے کے لیے سرحد پر فوج تعینات کر رہا ہے، سرحدی باڑ لگا رہا ہے، سرحد کو سیل کر رہا ہے، سرحدی دیوار تعمیر کرنا چاہتا تو پاکستان اٖفغان سرحد کیوں نہیں بند کر سکتا ۔ ہم کیوں باڑ نہیں لگا سکتے۔

ہم کیوں بارڈر سیل نہیں کر سکتے۔ ہم کیوں نہیں دیوار تعمیر کرسکتے۔ امریکا نے میکسیکو کے لیے جو پالیسی بنائی ہے، پاکستان وہی پالیسی افغانستان کے لیے بنا رہا ہے۔ اس لیے مجھے تو کافی قدر مشترک نظر آئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کو اب افغان سرحد پر کارروائی کے لیے امریکیوں کی حمایت حاصل ہوگی۔ جب ٹرمپ نے جرائم پیشہ افرا د کو ان کے ممالک میں واپس بھیجنے کا اعلان کیا ہے تو پاکستان بھی جرائم میں ملوث افغانیوں کو ان کے ملک واپس بھیج سکتا ہے۔

ٹرمپ کی پالیسی میں افغانستان کی طالبان حکومت کے ڈالر بند کرنے کا اعلان بھی شامل ہے۔ یہ بھی پاکستان کے لیے خوش آیند ہے۔ ان ڈالروں کی وجہ سے افغا ن طالبان پاکستان کے خلاف جنگ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ٹی ٹی پی کو پناہ دینے اور وہاں سے حملوں میں ان ڈالروں کی گرمی شامل تھی۔ جیسے جیسے یہ ڈالر بند ہوںگے پاکستان کے لیے افغان طالبان کے ساتھ بات کرنا اور اپنی بات منوانا آسان ہو جائے گا۔ ہمیں افغان طالبان کے بدلے ہوئے رویے بھی نظر آئیں گے۔ اس لیے ٹرمپ کی یہ پالیسی بھی پاکستان کے حق میں ہے۔ ہمیں اسے خوش آیند قرار دینا چاہیے۔

رچرڈ گرنیل کا صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹوئٹ سامنے آیا ہے۔ لیکن اس میں بانی تحریک انصاف کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ انھیں وینز ویلا کے لیے خصوصی نمایندہ مقرر کیا گیا ہے۔ اب ان کا پہلا ٹوئٹ ان کی اسائنمنٹ کے بارے میں ہی تھا۔ انھوں نے اب بانی تحریک انصاف کے بارے میں کوئی ٹوئٹ نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے دوستوں کے لیے یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ اگر وہ ایک ٹوئٹ کر دیتے تو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کو چار چاند لگ جاتے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ انھوں نے ایک نہیں کافی ٹوئٹس کیے ہیں۔ لیکن بانی تحریک انصاف کے بارے میں ایک بھی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ بانی کو بھول ہی گئے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے امریکا میں سیاسی پناہ لینے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ پاکستان سے ملک دشمن لوگ سیاسی پناہ کے لیے امریکا جاتے ہیں۔ اور وہاں سیاسی پناہ کے کیس دائر کرتے ہیں۔ کچھ صحافی جان بوجھ کر فوج اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرکے امریکا میں سیاسی پناہ کا کیس کرتے ہیں۔

وہاں سیاسی پناہ بند ہونے سے بھی پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ ملک دشمنوں نے امریکا کو جو جنت بنایا ہوا تھا، وہ ختم ہوگا۔ مجھے تو یہ بھی پاکستان کے مخصوص حالات میں بہتر لگ رہا ہے۔ کافی لوگوں کو امریکا سے بوریا بستر گول کرنا ہوگا۔ بلکہ انھیں اپنے سیاسی پناہ کے کیس مسترد ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس سے پہلے برطانیہ نے بھی سیاسی پناہ کے لیے قوانین سخت کیے ہیں۔ لیکن امریکی صدر ٹرمپ کا اعلان کافی معنی خیز ہے۔

ٹرمپ اور یورپ کے درمیان سرد جنگ کا آغاز نظر آرہا ہے۔ پیرس معاہدہ سے علیحدگی کے علاوہ نیٹو پر ٹرمپ کی پالیسی بھی یورپ کے لیے کافی خطرناک ہے۔ یورپ میں خطرہ کی گھنٹیاں نظر آرہی ہیں۔ یورپ کو اب نئے اتحادیوں کی ضرورت ہوگی۔ ورنہ جنگ عظیم دوئم کے بعد یورپ امریکا کی گود میں نظر آیا ہے۔

یورپ اور امریکا کے اتحاد نے دنیا میں امریکا کی حاکمیت قائم کرنے میں اہم کردار اد اکیا ہے۔ کیا یورپ امریکا سے علیحدہ ہو سکتا ہے۔لیکن ایسے میں یورپ کے پا س کیاآپشنز ہیں۔ فرانس کے صدر نے پہلے ہی اعلان کیا ہے کہ یورپ کو امریکی اسلحہ کے علاوہ بھی اسلحہ کے آپشنز دیکھنے ہوںگے۔ لیکن وہ کیا ہو سکتے ہیں؟ امریکا نے سرد جنگ میں یورپ کو روس کے خلاف بھر پور استعمال کیا ہے۔ ورنہ یورپ اور روس کے اچھے تعلقات بھی ہو سکتے تھے۔ ٹرمپ کی نئی پالیسیاں کیا یورپ اور روس کے فاصلے کم کر دیں گی۔ کیا چین کو بھی یورپ کے قریب آنے کا موقع ملے گا؟ یہ سب بہت دلچسپ ہوگا۔ تا ہم پاکستان کا اس سارے تنازعہ سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔

چین اور امریکا کے درمیان بھی معاشی جنگ نظر آرہی ہے۔ یہ جنگ پہلے بھی موجود ہے لہٰذا یہ کوئی نئی جنگ نہیں ہوگی۔ ٹرمپ کی پالیسیاں چین کے لیے نئی نہیں ہوںگی۔ چین اس کے لیے تیار ہے۔ چین نے اب تک ثابت کیا ہے کہ اسے معاشی جنگ سے نبٹنا اور اس میں راستے نکالنا آتا ہے۔ وہ ڈپلومیسی سے راستے نکالتا ہے۔ اس نے اب تک راستے ہی نکالے ہیں۔ کیا اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ لیکن جہاں چین سے معاشی جنگ نظر آرہی ہے۔ وہاں روس کے لیے بھی بہت سے روشن امکانات ہیں۔ روس یوکرین جنگ کے خاتمہ پر کیا امریکا سے کچھ رعائتیں حاصل کر لے گا۔ روس کو تیل بیچنا ہے۔

روس کو اپنے اوپر سے پابندیاں ختم کرنی ہیں۔ کیا ٹرمپ یہ سب راستے دیں گے؟ اس لیے یوکرین جنگ کا خاتمہ جہاں یورپ کے لیے اہم ہوگا۔ وہاں روس کو بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا مل رہا ہے۔ ٹرمپ کا پوٹن کے لیے نرم گوشہ کوئی خفیہ نہیں ہے۔ اس لیے روس کو معاشی نرمیاں مل سکتی ہیں۔ ٹرمپ کی یورپ پالیسی کا براہ راست فائدہ روس کو بھی ہوگا۔

ٹرمپ نے ابھی تک بھارت کے لیے بھی کوئی خاص نرم گوشہ نہیں دکھایا ہے۔ بائیڈن حکومت کا بھارت کے لیے کافی نرم گوشہ تھا۔ لیکن ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ ٹرمپ مودی کی پالیسیوں سے کوئی خاص خوش نہیں ہیں۔ ٹرمپ کی بھارت پالیسی پاکستان کے لیے بہت اہم ہوگی۔ ایسی خبریں آئی ہیں کہ مودی ٹرمپ کی حلف برداری میں جانا چاہتے تھے۔ لیکن مدعو نہیں کیا گیا۔ تاہم بھارتی وزیر خارجہ مدعو تھے۔ ابھی تک ٹرمپ نے بھارت کے حوالے سے کوئی پالیسی واضح نہیں کی ہے۔

اس لیے پاکستان کے لیے ابھی ٹرمپ کوئی خطرناک نہیں ہیں۔ ہمیں ٹرمپ کو دوست ہی سمجھنا چاہیے۔ ابھی تک پاکستان مخالف کچھ نہیں ہے۔ ہم اہم نہیں ہیں۔ یہی ہماری خوش قسمتی ہے، اسی پر گزارہ کرنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے لیے تحریک انصاف کے سیاسی پناہ کے بھی پاکستان کے بارے میں کی پالیسی انھوں نے یورپ کے نہیں ہے روس کو روس کے اس لیے کیا ہے رہا ہے

پڑھیں:

ٹک ٹاک کی ملکیت کا معاملہ، امریکا اور چین میں فریم ورک ڈیل طے پاگئی

امریکا اور چین نے مقبول ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک کی ملکیت کے حوالے سے ایک فریم ورک معاہدہ کر لیا ہے۔ یہ اعلان امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے اسپین میں ہفتہ وار تجارتی مذاکرات کے بعد کیا۔

بیسنٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی وزیر اعظم شی جن پنگ جمعہ کو براہ راست بات چیت کریں گے تاکہ ڈیل کو حتمی شکل دی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقصد ٹک ٹاک کی ملکیت کو چینی کمپنی بائٹ ڈانس سے منتقل کرکے کسی امریکی کمپنی کو دینا ہے۔

یہ بھی پڑھیے ٹک ٹاک نے امریکا کے لیے نئی ایپ بنانے کی رپورٹس کو مسترد کردیا

امریکی حکام نے کہا کہ ڈیل کی تجارتی تفصیلات خفیہ رکھی گئی ہیں کیونکہ یہ 2 نجی فریقین کا معاملہ ہے، تاہم بنیادی شرائط پر اتفاق ہو چکا ہے۔

چینی نمائندہ تجارت لی چنگ گانگ نے بھی تصدیق کی کہ دونوں ممالک نے ’بنیادی فریم ورک اتفاق‘ حاصل کر لیا ہے تاکہ ٹک ٹاک تنازع کو باہمی تعاون سے حل کیا جا سکے اور سرمایہ کاری میں رکاوٹیں کم کی جا سکیں۔

معاہدے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

امریکی حکام طویل عرصے سے ٹک ٹاک کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ بائٹ ڈانس کے چینی تعلقات اور چین کے سائبر قوانین امریکی صارفین کا ڈیٹا بیجنگ کے ہاتھ لگنے کا خطرہ پیدا کرتے ہیں۔

میڈرڈ مذاکرات میں امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر نے کہا کہ ٹیم کا فوکس اس بات پر تھا کہ معاہدہ چینی کمپنی کے لیے منصفانہ ہو اور امریکی سلامتی کے خدشات بھی دور ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: ’بہت امیر خریدار TikTok خریدنے کو تیار ہے‘، صدر ٹرمپ کا انکشاف

چینی سائبر اسپیس کمیشن کے نائب ڈائریکٹر وانگ جِنگ تاؤ نے بتایا کہ دونوں فریقین نے ٹک ٹاک کے الگورتھم اور دانشورانہ املاک کے حقوق کے استعمال پر بھی اتفاق کیا ہے، جو سب سے بڑا اختلافی نکتہ تھا۔

دیگر تنازعات بدستور باقی

میڈرڈ مذاکرات میں مصنوعی کیمیکلز (فینٹانل) اور منی لانڈرنگ سے متعلق مسائل بھی زیرِ بحث آئے۔ بیسنٹ نے کہا کہ منشیات سے جڑے مالیاتی جرائم پر دونوں ممالک میں ’ غیر معمولی ہم آہنگی‘ پائی گئی۔

چینی نائب وزیراعظم ہی لی فینگ نے مذاکرات کو ’واضح، گہرے اور تعمیری‘ قرار دیا، مگر چین کے نمائندہ تجارت لی چنگ گانگ نے کہا کہ بیجنگ ٹیکنالوجی اور تجارت کی ’سیاسی رنگ آمیزی‘ کی مخالفت کرتا ہے۔ ان کے مطابق امریکا کو چینی کمپنیوں پر یکطرفہ پابندیوں سے گریز کرنا چاہیے۔

ممکنہ ٹرمپ شی سربراہی ملاقات

ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ صدر ٹرمپ کو بیجنگ سرکاری دورے کی دعوت دے گا یا نہیں، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اکتوبر کے آخر میں جنوبی کوریا میں ہونے والی آسیان پیسفک اکنامک کوآپریشن (APEC) کانفرنس اس ملاقات کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔

اگرچہ فریم ورک ڈیل ایک مثبت قدم ہے، مگر تجزیہ کاروں کے مطابق بڑے تجارتی معاہدے کے لیے وقت کم ہے، اس لیے اگلے مرحلے میں فریقین چند جزوی نتائج پر اکتفا کر سکتے ہیں جیسے چین کی طرف سے امریکی سویابین کی خریداری میں اضافہ یا امریکا کی جانب سے نئی ٹیکنالوجی ایکسپورٹ پابندیوں میں نرمی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا ٹک ٹاک ٹیکنالوجی چین ڈونلڈ ٹرمپ شی جن پنگ

متعلقہ مضامین

  • چارلی کرک کا قتل
  • بلوچستان کے اسکواش کھلاڑی شاہد مسعود خان نے یورپ و امریکا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑدیے
  • معاہدہ ہوگیا، امریکا اور چین کے درمیان ایک سال سے جاری ٹک ٹاک کی لڑائی ختم
  • جنگ میں 6 جہاز گرنے کے بعد بھارت کھیل کے میدان میں اپنی خفت مٹا رہا ہے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ اپنے لئے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلئے ہے. عطا تارڑ
  • پاکستان کی دہشتگردی کیخلاف جنگ اپنے لیے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلیے ہے، عطا تارڑ
  • ٹک ٹاک کی ملکیت کا معاملہ، امریکا اور چین میں فریم ورک ڈیل طے پاگئی
  • ٹرمپ مودی بھائی بھائی
  • روس پر پابندیاں لگانے کیلیے تیار ہیں، امریکا کے قطر کیساتھ خاص تعلقات ‘ اسرائیل کو محتاط رہنا ہوگا‘ ٹرمپ
  • یورپ میں امریکا چین تجارتی ملاقات بہت کامیاب رہی، ڈونلڈ ٹرمپ