400 ٹرینیں لاپتہ، ریلوے ٹریک پر قبضے، پٹڑیاں بھی چوری ہو چکیں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
لاہور:
پاکستان ریلوے کی 300 سے لیکر 400 کے قریب مسافر اور مال بردار ٹرینیں لاپتہ ہو گئیں۔
آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی، جن ریلوے ٹریک پر یہ ٹرینیں چلا کرتی تھیں ان پر قبضہ ہو چکا، سیکڑوں رہائشی اور کمرشل بلڈنگ بن چکی ہیں۔
زیادہ تر ریلوے ٹریک کی پٹڑیاں چوری ہوچکی ہیں، ٹرینوں کی بندش سے حکومت کو پٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ پر ہر سال اربوں ڈالر زائد خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کو ملنے والے اعداد وشمار کے مطابق 1980 تک ریلوے ملک بھر میں 4 ساڑھے چار سو مسافر اور مال بردار ٹرینیں چلایا کرتا تھا جن کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتے ہوتے 100 سے 110 تک رہ گئی۔
ریلوے کے ذریعے سالانہ 4 سے ساڑھے 4 کروڑ مسافر آج بھی سفر کرتے ہیں جبکہ بڑے بڑے امپورٹرز اور ایکسپورٹر اپنے سامان کی نقل و حمل کے لیے ریلوے کو ہی ترجیح دیتے ہیں مگر ریلوے کو حکومت کی طرف سے سپورٹ نہ ملی۔
ٹرینیں بند ہونے سے نہ صرف روڈ انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوا بلکہ حکومت کو پٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ میں تین سے چار ارب ڈالر کا اضافہ کرنا پڑا کیونکہ ریلوے کی ٹرینیں بند ہونے سے ٹرانسپورٹ مافیا نے اپنی اجارہ داری قائم کر لی ہے۔
تاجر ریل گاڑی کے بجائے بڑے بڑے کنٹینروں، ٹرکوں میں مال منگواتے اور بھجواتے ہیں اس کی وجہ سے ایک تو ماحولیات پر اثر پڑتا ہے دوسرا پاکستان کو اربوں روپے سے فیول منگوانے پر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
ریلوے ذرائع نے کہا ہے کہ اگر ریلوے کو ترقی دی جائے تو تین سے چار ارب ڈالر کی سالانہ بچت ہو سکتی ہے۔
پاکستان کا ریلوے ٹریکس 7791 کلومیٹر ہے جس میں سے ایک ہزار43 کلومیٹر ڈبل ٹریک ہے جبکہ 225 کلومیٹر بر قی تنصیبات کا نیٹ ورک تھا جو خانیوال سے لاہور تک تھا وہ بھی خراب ہو چکا ہے جبکہ مجموعی طور پر پاکستان ریلوے کے پاس 625 ریلوے سٹیشن ہیں۔
ریلوے اپنے ملازمین کو50 سے 55 ارب روپے سال میں صرف پنشن کی مد میں ادا کرتا ہے اور یہ رقم بھی ریلوے اپنی کمائی سے ادا کرتا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشن ریلوے طارق انور سپرا نے کہا کہ پاکستان ریلوے کو سب سے زیادہ نقصان کرونا اور سیلاب کی وجہ سے اٹھانا پڑا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ریلوے کو
پڑھیں:
مہمند ڈیم منصوبے: پاکستان اور کویت کے درمیان 2.5 کروڑ ڈالر کے قرض معاہدے پر دستخط
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستان اور کویت کے درمیان مہمند ڈیم ہائیڈرو پاور منصوبے کے لیے دوسرے قرض پروگرام پر دستخط ہوگئے، جس کے تحت کویت 7.5 ملین کویتی دینار (تقریباً 25 ملین امریکی ڈالر) فراہم کرے گا۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق ترجمان وزارتِ اقتصادی امور نے کہا کہ یہ رقم کویت فنڈ فار اکنامک ڈویلپمنٹ کے ذریعے فراہم کی جائے گی تاکہ مہمند ڈیم ہائیڈرو پاور منصوبے کی تکمیل میں معاونت کی جاسکے۔ معاہدے پر پاکستان کی جانب سے سیکریٹری اقتصادی امور محمد حمیر کریم نے دستخط کیے۔
سیکریٹری اقتصادی امور نے اس موقع پر کویتی حکومت اور کویت فنڈ کے مسلسل تعاون پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مہمند ڈیم منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے، جو نہ صرف بجلی کی پیداوار بلکہ آبی ذخائر میں بھی اضافہ کرے گا، اس منصوبے کی تکمیل سے خیبر پختونخوا اور اس سے ملحقہ علاقوں میں زرعی، صنعتی اور سماجی ترقی کو فروغ ملے گا۔
کویتی سفارت خانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن فہد ہشام نے کہا کہ کویت فنڈ کے ذریعے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کی مالی معاونت جاری رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کویت اور پاکستان کے دیرینہ تعلقات باہمی اعتماد اور دوستی پر مبنی ہیں اور آئندہ بھی اقتصادی اور سماجی شعبوں میں تعاون کو مزید وسعت دی جائے گی۔
ترجمان کے مطابق یہ دوسرا قرض پروگرام ہے جو مہمند ڈیم منصوبے کے لیے طے پایا ہے، جس کا مقصد پائیدار توانائی کے حصول، بجلی کی پیداوار میں خودکفالت، اور مقامی سطح پر روزگار کے مواقع میں اضافہ ہے۔
مہمند ڈیم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پاکستان کا ایک اہم اسٹرٹیجک منصوبہ ہے جو نہ صرف بجلی کی پیداوار کے لیے مؤثر کردار ادا کرے گا بلکہ سیلابی پانی کے بہتر انتظام اور زرعی آبپاشی میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔