سپریم کورٹ میں عدالتی بینچز کے اختیار سماعت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اس کیس کا 26 ویں آئینی ترمیم سے کوئی لینا دینا نہیں،  اگر خود سے ڈرنے لگ جائیں تو الگ بات ہے۔

سپریم کورٹ میں عدالتی بینچز کے اختیار سماعت کے تعین کا معاملے کی سماعت جاری ہے، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل دو رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت عظمٰی میں پیش ہوئے اور عدالتی معاونین مقرر کرنے پر اعتراض کیا۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ جو عدالتی معاونین مقرر کیے گئے وہ 26ویں ترمیم کیخلاف درخواست گزاروں کے وکلاء ہیں۔

دوران سماعت عدالت نے مزید 2 عدالتی معاون مقرر کردیے، خواجہ حارث اور احسن بھون کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ  توہین عدالت کیس میں عدالت کا بہت محدود اختیار سماعت ہے،  شوکاز نوٹس جسے جاری کیا گیا اسکا تحریری بیان جمع ہونا چاہیے۔

گزشتہ روز عہدے ہٹائے گئے جوڈیشل افسر نذر عباس عدالت میں پیش ہوئے،  جسٹس منصور علی شاہ نے نذر عباس سے مکالمہ کیا کہ  ہمارا مقصد تو ایسا نہیں تھا لیکن ہم جاننا چاہتے تھے کیس کیوں واپس ہوا،  آپ کے ساتھ بھی کچھ ہوا ہے، پتا نہیں آپ کا اس میں کتنا کردار ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کرمنل اوریجنل اختیار سماعت کے تحت یہ معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہے، جو عدالتی معاونین مقرر کیے گئے، وہ 26 ویں ترمیم چیلنج کرنے والے وکلا ہیں۔

جسٹس عقیل عباسی  نے کہا کہ آپ کی رائے درست ہے، ہمیں اس بات کا ادراک بھی ہے، جسٹس منصور علی شاہ  نے کہا کہ  چلیں ہم اسی گروپ میں سے کسی اور بھی عدالتی معاون مقرر کر لیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ  26 ویں آئینی ترمیم کے تحت اب بینچ بنانے کا اختیار آئینی کمیٹی کو ہے،  جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ  اس کیس کا 26ویں آئینی ترمیم سے کوئی لینا دینا نہیں،  اگر خود سے ڈرنے لگ جائیں تو الگ بات ہے۔

عدالت نے نذر عباس کو کل تک تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ  اٹارنی جنرل صاحب آپ مسکرا رہے ہیں، عدالتی معاون کیلئے کوئی نام تجویز کر دیں،

اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے  کہا میں کوئی نام تجویز نہیں کر رہا، کسٹم ایکٹ کا مرکزی کیس آپ کے سامنے نہیں ہے ابھی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل نے عدالتی معاون اختیار سماعت نے کہا کہ سماعت کے

پڑھیں:

ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کا اہم حصہ کالعدم قرار

امریکی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کے ایک اہم حصے کو کالعدم قرار دے دیا۔

فیصلے کے مطابق شہریوں سے ووٹ ڈالنے سے قبل شہریت کا ثبوت طلب نہیں کیا جاسکے گا، امریکی وفاقی جج کا کہنا ہے کہ صدرِ کو وفاقی سطح پر ووٹنگ کے لیے ایسی شرط عائد کرنے کا آئینی اختیار حاصل نہیں ہے۔

واضح رہے کہ مارچ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے لیے امریکی شہری ہونے کا ثبوت لازمی قرار دیا تھا۔ تاہم عدالت نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا، عدالت کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کو ووٹنگ کے لیے وفاقی سطح پر ایسی شرط عائد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عدالتی فیصلہ آئندہ صدارتی انتخابات سے قبل انتخابی قوانین پر جاری بحث کو مزید شدت دے سکتا ہے۔

انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق  امریکا نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹوماہاک میزائل فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے تاہم حتمی فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • خانپور ڈیم آلودہ پانی فراہمی کیس میں ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس
  • عدالتی حکم کی خلاف ورزی، مسلسل غیر حاضری پر علیمہ خان کے ساتویں بار وارنٹ جاری
  • عدالتی حکم پر مسلسل غیر حاضری، علیمہ خان کے ساتویں مرتبہ وارنٹ جاری
  • سپریم کورٹ میں خانپور ڈیم کیس کی سماعت، ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری کر دیا
  • خانپور ڈیم آلودہ پانی فراہمی کیس میں ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس
  • سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل
  • امریکی عدالت نے ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق اہم حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا
  • ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کا اہم حصہ کالعدم قرار
  • نئی گاج ڈیم کی تعمیر کا کیس،کمپنی کے نمائندے آئندہ سماعت پر طلب
  • توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ،عدالت عظمیٰ