حکومت کو مذاکرات کیلئے 31 جنوری کی ڈیڈ لائن دی ہے، شبلی فراز
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسلام آباد:
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے کہا ہے کہ حکومت کو مذاکرات کے لیے 31 جنوری کی ڈیڈلائن دی ہے اور اس سے پہلے بانی پی ٹی آئی سے ہماری ملاقات ہونی چاہیے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر شبلی فراز نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ اگر حکومت کمیشن نہیں بناتی تو مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو واقعات ہوئے ہیں قوم کو سچ بتانے کے لیے کمیشن کا بننا ضروری ہے، کمیشن سے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے حوالے سے پوری طرح عوام آگاہ ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈیپنڈنٹ ججز اس کی تحقیقات کریں، جس نے کچھ کیا ہے اس کو سزا ضرور ملنی چاہیے، اگر حکومت کے دل میں کوئی چور نہیں ہے تو ان کو کمیشن بنا لینا چاہیے۔
شبلی فراز نے کہا کہ حکومت سیاسی طور پر اس کا فائدہ ہو گا اور وہ بطور فریق اس سے علیحدہ ہو جائیں گے، ہم نے مذاکرات کے حوالے سے حکومت کو 31 تاریخ تک ڈیڈ لائن دی ہے ان کو اس سے پہلے ہی مذاکرات کر لینے چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے کچھ کیا ہے ان کو سزا ملے اور جنہوں نے کچھ نہیں کیا ان کو علیحدہ کر دیا جائے، حکومت جب بھی دوبارہ کمیٹی کا اجلاس رکھے اس سے دو روز قبل ہماری ملاقات ہونی چاہیے۔
شبلی فراز نے کہا کہ اگلے سیشن سے پہلے بانی پی ٹی آئی سے ہماری ملاقات ہونی چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شبلی فراز نے پی ٹی آئی کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
متنازع کینالوں کے برعکس نیا پروجیکٹ، جس میں حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) جب گرین پاکستان انیشیٹو کا آغاز کیا گیا تو بعض ماہرین نے صوبوں کو پہلے سے مختص پانی، خصوصاً نئی نہروں کی تعمیر سے لاکھوں ایکڑ بنجر زمین سیراب کرنے کی فزیبلٹی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔ ان خدشات کو دور کرنے کیلئے آبی وسائل کے پاکستانی اور امریکی ماہرین کی ایک مشترکہ ٹیم کے ذریعے تحقیق کرائی گئی۔ اس ٹیم نے ایک اصلاحاتی حل پیش کیا جو آبپاشی کا ایک پائیدار، سرمایہ کاری کیلئے مؤثر اور وقت کے لحاظ سے موثر طریقہ ہے جو نئی نہروں کی تعمیر کے بغیر تمام وفاقی اکائیوں کے پانی کے حقوق کا تحفظ بھی کرتا ہے، اور وفاقی اکائیوں کے حصے کو متاثر کیے بغیر، یہ حل ان کی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد بھی دے سکتا ہے۔ بدقسمتی سے، اس تحقیق اور اس کے نتائج کا بھی وہی حشر ہوا جو اب سے پہلے ہوتا آیا ہے۔ تحقیق مکمل ہوئی تو ماہرین کو معاہدے کے تحت 10؍ کروڑ روپے دیے گئے، لیکن ان کی رپورٹ کو داخل دفتر کر دیا گیا۔ ٹیم کی جانب سے متعدد مرتبہ پریزنٹیشن وغیرہ کیلئے رابطے کیے گئے لیکن حکومت کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس تحقیقی ٹیم کی قیادت امریکا کی مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی سے آبی وسائل اور ہائیڈرو لوجی میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر حسن عباس نے کی جبکہ پاکستان کی زیزاک پرائیوٹ لمیٹڈ اور امریکا کی ہائیڈرو سیمولیٹکس انکارپوریٹڈ نے اس کام میں اشتراک کیا۔ یہ رپورٹ گزشتہ سال اپریل میں گرین پاکستان اینیشیٹیو کے کرتا دھرتائوں کو پیش کی گئی لیکن باضابطہ طور پر اب تک یہ رپورٹ جاری نہیں کی گئی کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ رپورٹ پیش باضابطہ طور پر جاری کرنے کیلئے رپورٹ تیار کرنے والوں کی موجودگی ضروری ہوگی۔ ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ صوبوں کیلئے مختص کردہ پانی استعمال کیے بغیر اور ساتھ ہی متنازع چولستان کینال جیسی نئی مہنگی نہریں تعمیر کیے بغیر بنجر زمینیں سیراب کرنا ممکن ہے۔
Post Views: 1