کیا منظر ہوتا ہے جب کوئی شخص جتن کرکے کسی باہر ملک کو جاتا ہے۔وہ آنکھوں میں بہت سارے خواب اور دل میں بے شمار امیدیں سجا کر اپنے پیاروں سے رخصت ہوتا ہے اور اس کے لواحقین انھیں ہزاروں امیدوں سے رخصت کرتے ہیں۔
اور پھر خبر آتی ہے کہ ان کے پیارے کسی لانچ میں ڈوب گئے، کسی کنٹینر میں دم گھٹ کرمرگئے، کسی کان میں دب گئے یا جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔اور جو بچ جاتے ہیں وہ تپتی ریت یا کان یا کارخانے میں جل رہے ہیں یا عدم پتہ ہوگئے،یا آٹھویں سمندر میں غرق ہوگئے ہیں،
چھٹی نہ کوئی سندیس
جانے وہ کونسا دیس جہاں تم چلے گئے
اک آہ بھری ہوگی،میں نے نہ سنی ہوگی
جاتے جاتے تم نے،آواز تو دی ہوگی
اس دل کو لگا کے ٹھیس، کہاں تم چلے گئے
تاریخ کی یہ عجیب ستم ظریفی ہے ایکزمانے میں یہ خطہ جہاں ہم رہتے ہیں سونے کی چڑیا کہلاتا تھا اور دنیا کے کونے کونے سے طالع آزما اسے شکار کرنے کے لیے آتے تھے لیکن آج وہی خطہ دوسروں کے لیے جنت اور اپنے باسیوں کے لیے دوزخ بن چکا ہے۔ دنیا بھر کے سیاح جس جنت کو ایک نظر دیکھنے کے لیے آتے ہیں اس کے اپنے دور دراز کے دوزخوں میں جلتے ہیں بلکہ خود کو جلانے کے لیے خود جاتے ہیں، کیوں؟ کیا یہ لوگ پاگل ہوتے ہیں، دیوانے ہوتے ہیں جو ڈوبنے، مرنے، جلنے اور سڑنے کے لیے اس جنت سے بھاگتے ہیں؟ کہتے ہیں کسی نے ’’تیر‘‘سے پوچھا کہ تم اتنا تیز کیوں بھاگ رہے ہو تو تیر نے کہا میرے پیچھے کمان کا زور ہے۔ان لوگوں کے پیچھے بھی بھوک کی کمان تنی ہوئی ہوتی ہے۔لیکن یہاں پھر ایک ’’ کیوں‘‘ پیدا ہوتا ہے جیسے ماں اپنے بچے کو کبھی بھوکا روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی اسی طرح کوئی زمین بھی اپنے بچوں کو بھوکا نہیں رکھتی۔لیکن جب ماں پر کسی اور ظالم کا قبضہ ہوجاتا ہے تو اس کے بچے کیا کریں گے؟ بھاگیں گے اور کیا کریں گے۔سیدھی سی بات ہے کہ جہاں کہیں کوئی اپنے حقوق اور حصے سے زیادہ پر قبضہ کرتا ہے وہاں دوسروں کو محروم ہونا پڑتا ہے۔ اگر کسی دسترخوان پر دس روٹٰیاں ہوں اور دس لوگ ، مگر ان میں سے کچھ لوگ دو دو روٹیاں کھالیں تو کچھ دوسروں کو یقیناً بھوکا رہنا پڑے گا اور وہ بھوک کی کمان کے آگے اڑنے پر مجبور ہوں گے، چاہے وہ کہیں بھی گریں یا ٹوٹیں یا گھسیں۔یہ لانچوں میں جو ڈوبتے کنٹینروں میں مرتے ہیں، کارخانوں اور کانوں میں جلتے ہیں ان سب کے پیچھے ’’کمان‘‘ کی تانت ہوتی ہے۔اور یہ سلسلہ کوئی آج کا نہیں بہت قدیم زمانوں سے یہی ہوتا آیا ہے کہ جب کسی جگہ کچھ لوگ ’’زیادہ‘‘ پر قابض ہوجاتے تھے تو محروموں اور کمزوروں کو وطن چھوڑنے اور ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا۔لیکن اس وقت نہ یہ سرحدیں نہ اجازت نامے تھے۔وہ اپنے مویشیوں کو لے کر کبھی یہاں کبھی وہاں جہاں ان کا اور ان کے جانوروں کا پیٹ بھرتا ہجرت کرجاتے۔ہزاروں سال پہلے سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ مشہور مورخ فلپ ختی نے اپنی کتاب’’تاریخ شام‘‘میں لکھا ہے کہ تاریخ میں ایسی پانچ ہجرتیں یا یلغاریں ریکارڈ ہیں جب اس ہندوکش کے پہاڑی سلسلے اور گردونواح کی سطح مرتفع سے ایک ایک ہزار سال کے وقفے سے خروج ہوتے رہے ہیں۔آخری یلغار شاید چینیوں کی شکل میں شروع بھی ہوچکی ہے جس کے ساتھ ہمارے اس خطے سے بھی نقل مکانی چل رہی ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ’’مویشی‘‘ چرنے نکلتے تھے اور آج خود ہی مال مویشی بنے ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں ایسے لوگوں کو این آر آئی کہا جاتا ہے، نان ریزیڈنٹ انڈین۔اور ہمارے ہاں ان کو اوورسیز پاکستانی کہا جاتا ہے اورا س کے لیے ایک محکمہ بھی بنایا گیا ہے جس کے لوگ باہر آتے جاتے ہیں، دعوتیں اڑاتے ہیں، لکھی لکھائی تقریریں کرتے ہیں اور تحائف سے لدے پھندے واپس آتے ہیں، حرام ہے جو کبھی اس محکمے نے ان اوورسیز بدبختوں اور خداماروں کے لیے کچھ کیا ہو۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ایشوریہ رائے 52 سال کی ہوگئیں؛ جواں نظر آنے کا راز بھی بتادیا
1994 میں مس ورلڈ بننے اور دہائیوں سے فلم بینوں کے دلوں پر راج کرنے والی ایشوریہ رائے آج اپنی 52 ویں سال گرہ منا رہی ہیں۔
ہم دل چکے صنم اور دیو داس جیسی سپر ہٹ فلمیں دینے والی ایشوریہ رائے نے اپنے کیریئر میں کبھی پیچھے مڑ کو نہیں دیکھا۔
انھوں نے نہ صرف بھارتی فلم انڈسٹری کے تما بڑے اعزاز اور انعامات اپنے نام کیے بلکہ بین الاقوامی ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ فرانس حکومت نے ایشوریہ رائے کو آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز نے نوازا تھا۔
ایشوریہ رائے کی کامیابی صرف ان کی خوبصورتی کے مرہون منت نہیں ہے بلکہ ان کی پُراعتماد شخصیت اور باوقار انداز کا بھی ہے۔ وہ بیک وقت ایک اچھی اداکارہ، ماں اور بیوی ہیں۔
اداکارہ ایشوریہ کا حسن 52 سال کی ہونے کے باوجود تاحال تازگی اور کشش سے بھرپور ہے جس کا مقابلہ کوئی نووارد اداکارہ بھی نہیں کرسکتیں۔
بین الااقوامی جریدے سے گفتگو میں ایشوریہ رائے نے اپنے سدا بہار حسن کا راز بتاتے ہوئے کہا کہ میری زندگی مصروف ترین ہے اور مجھے اس پر توجہ دینے کا وقت نہیں مل پاتا۔
انھوں نے کہا کہ ہم خواتین سارا دن مختلف کردار نبھاتی ہیں اور اسکن کیئر روٹین کا وقت نہیں مل پاتا لیکن ایک سادہ طریقے سے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔
ایشوریہ رائے نے مشورہ دیا کہ سب سے آسان اور مؤثر چیز ہے صفائی اور ہائیڈریشن کو برقرار رکھنا ہے۔ صاف رہیں، پانی پئیں اور باقی سب خود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ میں چاہے گھر پر ہوں یا شوٹنگ پر موئسچرائزنگ نہیں بھولتی۔ جِلد کی نمی برقرار رکھنا فلمی کیریئر کے آغاز سے ہی میری روزمرہ کی عادت ہے۔
اداکارہ نے مزید کہا کہ موئسچرائزنگ جِلد کے لیے سانس لینے جتنا ضروری ہے۔ زیادہ سے زیادہ پانی پئیں، جِلد کو صاف رکھیں اور سب سے بڑھ کر خود سے محبت کریں۔
View this post on InstagramA post shared by AishwaryaRaiBachchan (@aishwaryaraibachchan_arb)