واشنگٹن پوسٹ کے مطابق گوگل نے حماس کی زیر قیادت حملوں کے بعد اسرائیلی فوج کو اپنی تازہ ترین مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی کوشش کی، حالانکہ اسٹاف کے احتجاج جاری تھے، جنہوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اسرائیل اس ٹیکنالوجی کو غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے قتل عام میں استعمال کر رہا ہے۔

اخبار کے مطابق، داخلی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ گوگل نے اسرائیلی وزارت دفاع اور اسرائیلی فوج کے ساتھ براہ راست کام کیا، جبکہ اسٹاف کے احتجاج کے دوران عوامی طور پر ملک کے قومی سلامتی کے نظام سے فاصلہ رکھنے کا تاثر دیا۔

دستاویزات کے مطابق، اسرائیلی وزارت دفاع نے 7 اکتوبر کے بعد کے ہفتوں میں گوگل کی ایک سروس ’ورٹیکس‘ کا استعمال بڑھانے کی فوری خواہش ظاہر کی، جسے کلائنٹس اپنے ڈیٹا پر اے آئی الگورتھم لاگو کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن دستاویزات میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وزارت نے اس ٹیکنالوجی کو کس طرح استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا یا یہ کس طرح فوجی کارروائیوں میں معاون ہو سکتی تھی۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کی سرتوڑ کوششیں حماس کو ختم کیوں نہ کرسکیں؟

مزید یہ کہ پچھلے نومبر 2024 میں دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گوگل کے ایک ملازم نے اسرائیلی فوج کے لیے کمپنی کی جیمینی اے آئی ٹیکنالوجی تک رسائی کی درخواست کی تھی، جو اپنا اے آئی اسسٹنٹ تیار کرنا چاہتی تھی تاکہ دستاویزات اور آڈیو کو پروسیس کیا جا سکے۔

یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب انسانی حقوق کے گروپس اور ٹیک ماہرین اسرائیل کی اے آئی ٹیکنالوجی کے استعمال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، جن میں لیونڈر نامی نظام بھی شامل ہے، جو فلسطینیوں کی لمبی فہرستیں بطور ممکنہ بمباری کے اہداف تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

2021 میں گوگل نے ایمازون کے ساتھ مل کر اسرائیلی حکومت کے ساتھ 1.

2 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا، جس کا نام ’پروجیکٹ نیمبس‘ رکھا گیا، تاکہ کلاؤڈ اسٹوریج، اے آئی اور دیگر ٹیکنالوجی فراہم کی جا سکے۔ نو ٹیک فار اپارتھیڈ گروپ کے مطابق، گوگل نے گزشتہ سال قریباً 50 ملازمین کو برطرف کیا، جب انہوں نے ان معاہدوں کے خلاف احتجاج کیا۔

مزید پڑھیں: رہائی پانے والی اسرائیلی خواتین حماس کے حسن سلوک کی گواہ بن گئیں

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، گوگل کی اسرائیل کو نئی اے آئی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی جلدی جزوی طور پر ایمازون کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے تھی۔ واضح رہے کہ واشنگٹن پوسٹ جیف بیزوس کی ملکیت ہے جو ایمازون کے بھی مالک ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیلی فوج اے آئی ٹیکنالوجی گوگل مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی واشنگٹن پوسٹ

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج اے آئی ٹیکنالوجی گوگل واشنگٹن پوسٹ اسرائیلی فوج کے مطابق گوگل نے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل اور امریکی کمپنیوں کے خفیہ گٹھ جوڑ کی حیران کُن تفصیلات سامنے آگئیں

اسرائیل اور امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں گوگل اور ایمازون کے درمیان 2021ء میں طے پانے والے اربوں ڈالر کے ’پروجیکٹ نیمبس‘ معاہدے کی خفیہ تفصیلات منظرِ عام پر آگئی ہیں۔

یہ بھی

اس انکشافات کے مطابق اسرائیل نے ان کمپنیوں کو اپنے ہی سروس معاہدوں اور قانونی تقاضوں کی خلاف ورزی پر مجبور کیا ہے۔

رشیا ٹوڈے کے مطابق 1.2 ارب ڈالر مالیت کے اس معاہدے میں ایک شق شامل ہے جو گوگل اور ایمازون کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ اسرائیلی حکومت کی کلاؤڈ سروسز تک رسائی محدود کر سکیں، چاہے وہ ان کے ’ٹرمز آف سروس‘ کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ کرے۔

ونکنگ میکانزم‘ کے ذریعے خفیہ اطلاع کا نظام

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اگر کوئی غیر ملکی عدالت یا حکومت اسرائیل کے ڈیٹا تک رسائی کی درخواست کرے، تو گوگل یا ایمازون اسرائیل کو ایک مخصوص مالی اشارے کے ذریعے خفیہ طور پر آگاہ کریں۔

اس طریقہ کار کو ’ونکنگ میکانزم‘ کہا گیا ہے، جس کے تحت کمپنی اسرائیل کو 1000 سے 9999 شیکل کے درمیان رقم ادا کرتی ہے۔ جس کا ہندسہ متعلقہ ملک کے بین الاقوامی ڈائلنگ کوڈ کے برابر ہوتا ہے۔

اس نظام کے ذریعے اسرائیل کو غیر ملکی ڈیٹا درخواستوں کی خفیہ معلومات فراہم کی جاتی ہیں، جو عام حالات میں سخت رازداری کے زمرے میں آتی ہیں۔

معاہدہ منسوخ کرنے پر بھاری جرمانے

معاہدے میں یہ بھی درج ہے کہ اگر گوگل یا ایمازون نے اسرائیل کو سروس فراہم کرنا بند کیا، تو انہیں بھاری مالی جرمانے ادا کرنے ہوں گے۔

اسرائیلی حکومت کو ان سروسز کے غیر محدود استعمال کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ اسرائیلی قوانین یا کاپی رائٹ کی خلاف ورزی نہ کرے۔

یہ شق خاص طور پر اس امکان کے پیشِ نظر شامل کی گئی کہ اگر کمپنیوں پر ملازمین، شیئر ہولڈرز یا انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے دباؤ بڑھا تو بھی اسرائیل کے ساتھ ان کے تعلقات ختم نہ ہوں۔

گوگل ملازمین کے احتجاج اور برطرفیاں

گزشتہ 2 برسوں کے دوران گوگل کے درجنوں ملازمین نے اسرائیل کے ساتھ کمپنی کے تعلقات کے خلاف احتجاج کیا۔ اپریل 2024 میں گوگل نے ایسے 30 سے زائد ملازمین کو برطرف کر دیا جن پر کام میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام تھا۔

بعد ازاں جولائی 2025 میں گوگل کے شریک بانی سرگے برن نے اقوامِ متحدہ پر الزام عائد کیا کہ وہ کھلم کھلا یہودی مخالف رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، کیونکہ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں، بشمول گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ، غزہ جنگ سے منافع حاصل کر رہی ہیں۔

یہ انکشافات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اقوامِ متحدہ سمیت متعدد عالمی تنظیمیں اسرائیل کے 7 اکتوبر 2023 کے بعد کے فوجی اقدامات کو نسل کشی (Genocide) قرار دے چکی ہیں، جن میں 1200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ’پروجیکٹ نیمبس‘ اسرائیل کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر امریکی کلاؤڈ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کی ایک بڑی کوشش ہے، جس سے انسانی حقوق کے ماہرین اور ڈیجیٹل آزادی کے حامیوں نے شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
  •   ایف بی آر کو جولائی تا اکتوبر 270 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا
  • مصنوعی ذہانت
  • لاہور میں کچرا اٹھانے والی 28 ہزار گاڑیاں آلودگی کا باعث بن گئیں
  • اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں
  • لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کی سخت ترین عملداری کا فیصلہ، جدید ٹیکنالوجی سے نگرانی ہوگی
  • دنیا کی پہلی مصنوعی ذہانت والی نیوز اینکر متعارف، ویڈیو وائرل
  • اے آئی کا خوف بڑھنے لگا: ٹیکنالوجی کمپنیوں کی زیرزمین پناہ گاہوں پر سرمایہ کاری
  • اسرائیل اور امریکی کمپنیوں کے خفیہ گٹھ جوڑ کی حیران کُن تفصیلات سامنے آگئیں
  • غزہ میں حماس نے مزید دو یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں