ڈیجیٹل ادائیگیوں کی سہولت فراہم کرنے والے عالمی ادارے ویزا نے پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کو آسان بنانے اور مالی شمولیت بڑھانے میں ویزا کے کردار کو تقویت دینے کا اعلان کیا ہے۔

ویزا کی سینئر وائس پریزڈنٹ نارتھ افریقہ، لیونٹ اور پاکستان لیلا سرحان نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کو قبول کرنے والے کاروباروں کی تعداد کو تین سالوں میں دس گنا بڑھایا جائے گا۔

ویزا پاکستان کے ڈیجیٹل ادائیگی کے انفراسٹرکچر کی تعمیر میں سرمایہ کاری سے ڈیجیٹل ادائیگیوں کو کم قیمت اور زیادہ قابل انتظام بنائے گا۔

فون کو ادائیگی کے آلے میں تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے گا بڑے شہروں اور روایتی کاروباروں سے آگے بڑھ کر چھوٹے دکانداروں کو بھی شامل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ویزا نے پاکستان میں اپنے تیس سال کی خدمات کا عرصہ مکمل کرلیا ہے جس میں پاکستان کے ڈیجیٹل ادائیگیوں کے منظرنامے پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں، ویزا نے پاکستان کا پہلا اسٹوڈنٹ ڈیبٹ کارڈ متعارف کرادیا ہے جو یونیورسٹی کے طلبا کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ پاکستان میں مالی شمولیت اور ڈیجیٹل لین دین کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جنریشن زیڈ کی آبادی وہ حل چاہتی ہے جو ڈیجیٹل طور پر پہلے ہوں اور ان کی لائف اسٹائل کی ضروریات کے مطابق فوائد، انعامات اور آفرز فراہم کریں۔ میذان ویزا اسٹوڈنٹ ڈیبیٹ کارڈ، میذان آسان اسٹوڈنٹ اکاؤنٹ ہولڈرز کو مفت فراہم کیا جائے گا-

ان کا کہنا تھا  کہ یہ ایک ایسا اکاؤنٹ ہے جو طلباء کی منفرد ضروریات کو پورا کرتے ہوئے مالیات کو منظم کرنے کے لیے ایک جامع پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے، تاکہ اس کی رسائی اور قیمت دونوں یقینی بنائی جا سکیں۔ 18 سے 24 سال کی عمر کے اہل یونیورسٹی طلباء کو محفوظ، آسان اور انعامی مالی خدمات تک رسائی حاصل ہوگی۔

لیلا سرحان نے کہا کہ یہ اقدام، پاکستان کے ویژن 2025 سے براہ راست ہم آہنگ ہے جو نوجوانوں میں مالی شمولیت اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کی قبولیت کو فروغ دینے کے لیے ہے۔ یہ نہ صرف ملک کی مالی شمولیت کی شرح بڑھانے میں مدد دیتا ہے بلکہ پاکستان کی بڑی نوجوان آبادی کی اقتصادی صلاحیت کو بھی استعمال کرتا ہے۔

ویزا کے پاکستان میں مستقبل کے اہداف کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ویزا کی طرف سے پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کو قبول کرنے والے کاروباروں کی تعداد کو تین سالوں میں دس گنا بڑھانے کے عزم رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں ڈیجیٹل ادائیگی کے انفراسٹرکچر کی تعمیر میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ ڈیجیٹل ادائیگیاں کم قیمت اور زیادہ قابل انتظام بن سکیں۔

اس حکمت عملی میں ایسی ٹیکنالوجی شامل ہے جو فون کو ادائیگی کے آلے میں تبدیل کرتی ہے اور ادائیگی کے مختلف طریقوں کو قبول کرتی ہے، جن میں کیو آر اور کارڈ ٹاپ شامل ہیں، ہم بڑے شہروں اور روایتی کاروباروں سے آگے بڑھ کر چھوٹے دکانداروں کو بھی شامل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان میں ادائیگی کے کرنے والے نے کہا کہ انہوں نے کو قبول جائے گا

پڑھیں:

القاعدہ افریقی دارالحکومت کو کنٹرول کرنے کے قریب پہنچ گئی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مالی کا دارالحکومت ’باماکو‘ محاصرے میں ہے ، ایندھن کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔

غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق القاعدہ سے وابستہ جماعت نصرت الاسلام والمسلمین (جے این آئی ایم) مالی کے دارالحکومت باماکو پر کنٹرول کے قریب آگئی ہے۔ مغربی اور افریقی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ خطرناک پیش رفت مالی کو دنیا کا ایسا پہلا ملک بنا سکتی ہے جو امریکا کی طرف سے نامزد دہشت گرد تنظیم کے زیر انتظام ہے۔ عسکریت پسند گروپ کی یہ تیزی سے پیش قدمی افغانستان میں شدت پسند تحریکوں کے کئی فوائد کے بعد ہے۔ باماکو کا زوال، اگر ایسا ہوتا ہے، پہلا موقع ہو گا کہ القاعدہ سے براہ راست منسلک کسی گروپ نے کسی دار الحکومت پر کنٹرول حاصل کیا ہو۔ اس صورت حال سے بین الاقوامی سکیورٹی حلقوں میں بڑے پیمانے پر تشویش پھیل گئی ہے۔

کئی ہفتوں سے اس گروپ نے دارالحکومت کا شدید محاصرہ کر رکھا ہے۔ خوراک اور ایندھن کی ترسیل کو روکا جا رہا ہے۔ خوراک کی شدید قلت ہے اور فوجی آپریشن تقریباً مکمل طور پر مفلوج ہو گئے ہیں۔ یورپی حکام نے تصدیق کی ہے کہ یہ گروپ براہ راست حملے کے بجائے سست گلا گھونٹنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ امید ہے کہ اقتصادی اور انسانی بحران کے دباؤ میں دارالحکومت بتدریج منہدم ہو جائے گا۔

فلاڈیلفیا میں فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے محقق رافیل بارنس نے کہا کہ ہر وہ دن جو محاصرے کو اٹھائے بغیر گزرتا ہے باماکو کو مکمل تباہی کے قریب لاتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جاری بحران فوج کی صلاحیتوں کو کمزور کر رہا ہے جو خود ایندھن اور گولہ بارود کی شدید قلت کا شکار ہے۔

جماعت نصرت الاسلام والمسلمین (جے این آئی ایم) گروپ 2017 میں القاعدہ سے وابستہ کئی دھڑوں کے انضمام سے تشکیل دیا گیا تھا۔ اپنے قیام کے بعد سے اس نے بنیادی تنظیم سے مکمل وفاداری کا عہد کیا ہے۔ وال سٹریٹ جرنل نے مغربی اور افریقی حکام کے حوالے سے بتایا کہ اس کے جنگجوؤں کو افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کے رہنماؤں سے بم بنانے کی تربیت حاصل ہے۔

گزشتہ چند دنوں میں دارالحکومت کی طرف جانے والے ایندھن کے قافلوں پر بار بار حملے دیکھنے میں آئے ہیں۔ باغیوں کی طرف سے جاری کی گئی ویڈیوز کے مطابق ایک حالیہ واقعے میں مسلح افراد نے باماکو جانے والی سڑک پر درجنوں ٹرکوں پر حملہ کیا اور باقی پر قبضہ کرنے سے پہلے پہلے ٹرکوں کو آگ لگا دی۔ کاٹی کے قریبی قصبے میں تعینات فورسز ایندھن کی قلت کی وجہ سے مداخلت کرنے سے قاصر رہیں۔

ایندھن ملک میں تنازعات کا مرکزی نقطہ بن گیا ہے۔ باماکو میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت تقریباً 2000 سی ایف اے فرانک یا لگ بھگ 3.5 ڈالر تک تک پہنچ گئی ہے۔ یہ گزشتہ قیمت سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ مالی کے شہری ابراہیم سیس کے مطابق آج کسی بھی اسٹیشن پر ایندھن نہیں ہے، لوگ بے کار دنوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ حکومت نے دو ہفتوں کے لیے سکول اور یونیورسٹیاں اور کچھ پاور پلانٹس بند کر دیے ہیں۔

گزشتہ ہفتے مالی کے وزیر اعظم عبدولے مائیگا نے ایک حیران کن بیان دیا تھا کہ چاہے ہمیں پیدل یا چمچ سے ایندھن تلاش کرنا پڑے ہم اسے تلاش کریں گے۔ مغربی افریقہ میں القاعدہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں مغربی خدشات بڑھ رہے ہیں۔ خاص طور پر نائجر، برکینا فاسو اور مالی جیسے ساحل ممالک میں القاعدہ کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ عسکریت پسند گروپ زیادہ مستحکم خلیجی ممالک جیسے بینن، آئیوری کوسٹ، ٹوگو اور گھانا میں بھی پیش قدمی کر رہے ہیں۔ انٹیلی جنس اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ مالی، جس کی آبادی 21 ملین ہے اور اس کا رقبہ کیلیفورنیا سے تین گنا زیادہ ہے، گروپ کے کنٹرول میں آنے والا پہلا ملک ہو سکتا ہے۔

یہ پیش رفت اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ جہادی گروپ ایک طویل جنگ کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔ یہ حکمت ععملی افغانستان اور شام میں کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ یہاں حکومتیں بغیر کسی فیصلہ کن جنگ کے اندر سے گر گئیں۔ گزشتہ جولائی میں جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جماعت نصر الاسلام والمسلمین (جے این آئی ایم) کے رہنما کابل میں طالبان کے تجربے سے متاثر ہو رہے ہیں اور اسے حکومت پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے “روڈ میپ” کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ

متعلقہ مضامین

  • پیکسار کمپنی کے ورکر کی غیرقانونی برطرفی قبول نہیں‘خالد خان
  • کراچی میں اسپتال کے اخراجات کی ادائیگی کیلیے نومولود بچہ فروخت کرنے کا انکشاف
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے مالی سال 2026ء کیلئے تارکین وطن کو ویزا دینے کی حد مقرر کر دی
  • جسارت ڈیجیٹل میڈیا کی تقریب پذیرائی، نمایاں کارکردگی پر تقسیم اسناد اور نقد انعامات تفیض
  • میزان بینک اور ویزا کے درمیان شراکت داری میں توسیع کا معاہدہ
  • القاعدہ افریقی دارالحکومت کو کنٹرول کرنے کے قریب پہنچ گئی
  • پنجاب میں کسی بھی جماعت، فرد یا کاروبار میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر سخت کارروائی کا فیصلہ
  • امید ہے سہیل آفریدی میری پیشکش قبول کریں گے، وزیراعظم شہباز شریف
  • حج واجبات کی دوسری قسط کی وصولی کیلئے شیڈول جاری
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی، 3757 پوائنٹس کا اضافہ